مرحوم قاری عبدالنبی صاحب قادری نقشبندی کی حیات وخدمات

پیکرِ رشدوہدایت وبانی جامعہ اسلامیہ غوثیہ رانجن
مرحوم قاری عبدالنبی صاحب قادری نقشبندی کی حیات وخدمات

انسان مقررہ وقت کے لیے دنیامیں آتاہے اوراس کے ذمے جوکردارہوتاہے وہ نبھاکرچلاجاتاہے۔اپنے تئیں عائدفرض وکردارکی ادائیگی وانجام دہی میں ہرشخص کھرانہیں اُترپاتاہے لیکن جوافراداپنے فرائض کی انجام دہی میں سرخروہوتے ہیں ان کانام نہ صرف تادیردنیاوالے یادکرتے ہیںبلکہ آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ انہیں بہترین اجرسے نوازتاہے۔صوبہ جموں کے اضلاع جموں،ریاسی،اودھم پور،رام بن،ڈوڈہ ،کشتواڑ،کٹھوعہ ،سانبہ ،راجوری اورپونچھ پہاڑی ،سنگلاخ اورکٹھن علاقہ جات پرمشتمل ہیں ۔اس صوبہ کویہ امتیازحاصل رہاہے کہ یہاں پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی عظیم ہستیوں نے جنم لیااورساری عمرخدمت خلق،سربلندی دین ومتین اورعوامی فلاح وبہبودمیں صرف کرکے وہ انمٹ نقوش چھوڑے جنھیں دیکھ کرنئی نسلوں کوہمیشہ فخرہوتارہے گا۔ضلع جموں کاجہاں تک تعلق ہے اس ضلع کی مسلم آبادی ہمیشہ مصائب میں مبتلارہی ہے ۔یہاں کے مسلمانوں کے آباواجداداوراکابرین کی تاریخ اسقدرمحفوظ نہیں ہوسکی ہے جس قدر اس کے تحفظ کی ضرورت تھی البتہ ہرکس وناکس یہ بخوبی جانتاہے کہ ضلع جموں کے اکابرین نے نہ صرف 1947 ءمیں اپنی قربانیاں پیش کرکے جام شہادت نوش کیابلکہ اپنی بساط کے مطابق علمی ،ادبی اوردینی شعبہ جات میں بھی مثالی اورناقابل فراموش کرداراداکیا۔آج راقم کویہاں جس شخصیت کاتذکرہ کرنامقصودہے اس شخصیت اوراس کے کارناموں سے شایدبہت سے لوگ آشناہوں گے لیکن جولوگ ان کی شخصیت سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے توقع ہے میری یہ تحریران کےلئے اس شخصیت سے آشنائی کاذریعہ ثابت ہوگی ۔میری مُرادپیکررشدوہدایت وبانی جامعہ اسلامیہ غوثیہ رانجن جناب مرحوم علامہ قاری عبدالنبی صاحب سے ہے ۔ مرحوم موصوف نہ صرف ضلع جموں بلکہ پورے صوبہ جموں نیزوادی کشمیر کے علاوہ بیرونی ریاستوں میں بھی منفردشناخت رکھتے تھے ۔پوری ریاست میںجناب علامہ قاری عبدالنبی صاحب کوبڑی قدرومنرلت کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔آپ صوبہ جموں بالعموم اورضلع جموں بالخصوص کے ایک ایسے عالم دین تھے جن کی کاوشوںسے دین اسلام کی قندیلیں صوبہ جموں کے دوردرازاورپہاڑی وکنڈی علاقہ جات میںر وشن ہوئیں۔اس عظیم پایہ کی شخصیت کی نمایاں خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ اپنی دونوں آنکھوںسے نابینہ ہونے کے باوجوددوسروں کےلئے روشنی اورسیدھاراستہ دکھانے کاذریعہ بنے۔علامہ قاری عبدالنبی صاحب نے جہاں صوبہ جموں کے دیگراضلاع کے لوگوں کواہل سنت وجماعت کے عقیدے کے تحت دین اسلام سے رشتہ مضبوط بنانے کی تلقین کی وہیں ضلع جموں کے کنڈی اوردوردرازعلاقہ جات کے لوگوں میں دین متین کے تئیں جذبہ پیداکرنے اورراہ راست پرقائم رہنے کی راہیں استوارکیں۔

علامہ قاری عبدالنبی صاحب کی پیدائش 5 اکتوبر،1925 کوجموں کے نواحی گاﺅں رانجن میں میاں محمداسماعیل کے گھرہوئی۔مرحوم موصوف نے ابتدائی تعلیم لاہور میں مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف لاہورسے حاصل کی ۔آپ کے حلقہ اساتذہ کرام میں محترم حضرت علامہ مولٰنا جناب مولوی نبی بخش حلوائی نقشبندی ؒ،مفتی اعظم پاکستان علامہ ابوالبرکات سیداحمدشاہ صاحب قادری رضوی اشرفی رحمتہ اللہ علیہ ،استاذالعلماءعلامہ محمدمہردین صاحب اوراستاذالعلماءعلامہ مفتی محمدحسین نعیمی رحمتہ اللہ علیہ شامل تھے۔موصوف کے تعلیمی سفرکے سرکردہ ساتھیوں میںحضرت علامہ قاری غلام رسول صاحب بانی جامعہ تجویدالقرآن لاہوروکینڈاشامل ہے۔آپ کے پاس سلسلہ نقشبندیہ اورسلسلہ قادریہ کی دوخلافتیں تھیں۔ پہلے آپ اپنے استادنبی بخش حلوائی سے سلسلہ نقشبندیہ میں داخل ہوئے اورخلاف حاصل کی ۔بعدازاں اپنے وقت کے مفتی اعظم ہندحضرت علامہ مفتی مصطفیٰ رضاخان بریلی شریف والے جوکہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان ؒفاضل بریلوی کے فرزندتھے کے دست بیعت ہوکرسلسلہ قادریہ میں شامل ہوکرسلسلہ قادریہ کی خلافت حاصل کی۔تاریخ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جموں ایک ایساضلع ہے جہاں کی مسلم آبادی نے سخت مصائب وآلام کے شب وروزدیکھے ہیں۔صوبہ جموں میںمسائل کے انباراوران کے حل کی کوئی سبیل جب کہیں نظرنہیں آرہی تھی اُس وقت قاری عبدالنبی صاحب دین اسلام کی شمع کولیکرنکلے اورگھٹاٹوپ اندھیروں میں اُجالا کرنے کافریضہ انجام دینے میں مصروف ہوگئے۔یہ سہراقاری عبدالنبی صاحب کی ذات کوہی جاتاہے کہ وہ ایک عظیم مشن کولیکرچلے اوراس میں سرخروہوئے۔علامہ قاری صاحب کی شخصیت نیک ،شریف النفس، پرخلوص ،سچائی اورنیک سیرت کرداروعمل کی حامل تھی ۔وہ جس مجلس میں بیٹھتے تھے وہاں اللہ اوراس کے رسول کی احادیث اورفرمان مبارکہ کوبیان فرماتے تھے تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رسی کومضبوطی سے تھامے رکھیں۔وہ بے کس غریب لوگوں کی امدادکےلئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔اکثروبیشتروہ صوبہ جموں کے مختلف اضلاع کے دورے پرجاتے اورلوگوں کودین کے قریب لاتے تھے۔دیگراضلاع کے ساتھ موصوف کوآبائی ضلع جموں کے قرب وجوارمیں واقع علاقہ جات کے لوگوں سے گہرالگاﺅتھا۔انہوں نے دھنوں،بگانی،ٹانڈا،رتی کنئی۔رانجن،بن تالاب ،چنور،منصوح چمبیاں،بھبھر،ریاسی ،بمیال وغیرہ پرخصوصی توجہ دی اوران کنڈی ،دشوارگذاراورمیدانی علاقہ جات کی خاک چھان کروہ دینی علم کے پھیلاﺅمیں اپناکردارنہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔خدمت دین کاجذبہ مرحوم موصوف کے دِل میں کوٹ کوٹ کربھراہواتھااسی لئے جہاں کہیں بھی وہ جاتے تھے خدمت دین میں محوہوجاتے تھے ، گھرمیں ہوں یاکسی ادارے میں ، سفرمیں ہوں یاہجرمیں ہرجگہ ہروقت دین کے کام میں مصروف رہناان کامحبوب مشغلہ تھا ۔حضرت قاری صاحب کوصوبہ جموں بالعموم اورضلع جموںوریاسی اضلاع بالخصوص کے لوگوں کے تئیں ان کے پیارواخوف اورجہنم کی آگ سے بچانے کے لیے انجام دی گئی خدمات کے سبب یادکرتے ہیں کہ وہ برملاکہتے ہیں صوبہ جموں میں دین کی قندیل کوروشن رکھنے میں قاری صاحب کارول وکردارناقابل فراموش ہے ۔البتہ علامہ قاری عبدالنبی صاحب کوضلع جموں میں عقیدہ اہل سنت الجماعت کابانی قراردیاجائے توبے جانہ ہوگا۔

ماہ رمضان ہویاعام مہینے ۔وہ کثرت سے عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔آپ خدمت خلق اورملت کی بھلائی اوراس کی رہبری میں اللہ تعالیٰ کی رضاتصورکرتے تھے۔مرحوم موصوف آخری دم تک دین متین کی خدمت میں مصروف عمل رہے۔ان کی تقریرمیں غضب کی تاثیرتھے اورجوبھی بات وہ کہتے تھے لوگ اسے تسلیم کرکے اس پہ عمل پیراہوتے تھے۔جہاں وہ تقریرفرماتے تھے وہاں لوگوں کامجمع لگ جاتاتھا۔ بڑے غورسے آپ کی مفکرانہ باتوں کوسناجاتاتھا۔ان کی تقریر ”گرم دم جستجونرم دم گفتگو“ کے مصداق تھی۔وہ بلالحاظ مذہب وملت عوام میں مقبولیت رکھتے تھے ۔مرحوم موصوف دینی شخصیت کے ساتھ سماجی وسیاسی شخصیت کے طورپربھی جانے جاتے تھے ۔

شیرکشمیرشیخ محمدعبداللہ اکثررانجن موصوف کے گھرآیاکرتے تھے اوراپنے دفترمیں بھی موصوف کوبلایاکرتے تھے۔نیشنل کانفرنس سے کچھ عرصہ تک منسلک رہے اوربطورصوبائی صدرجموں بھی پارٹی کےلئے خدمات انجام دیں۔موصوف 1965 سے لیکرآخری دم تک آنکھوں سے نابیناہونے کے باوجودسیاسی ،سماجی اورملی کاموں میں مصروف رہے ۔خاندانی ذرائع کے مطابق جب آپ لاہورمیں تعلیم حاصل کررہے تھے تب سے ہی آپ کی آنکھوں کی روشنی کم تھی اس کے بعد1951 جب آپ ریاست میں آئے توپھردھیرے دھیرے آنکھوں کانور1965 تک مکمل طورپرچلاگیا۔آپ کاسیاسی حلقوں میں بھی کافی اچھارعب اوروقارتھا۔1987ءمیں علامہ مرحوم قاری عبدالنبی صاحب نے جندراہ گھروٹہ(جواب نگروٹہ اسمبلی کے تحت آتاہے) اسمبلی حلقہ سے انتخاب لڑاتھاجس میں حلقہ کے لگ بھگ 4ہزارکے قریب رائے دہندگان نے ووٹ دیئے تھے ۔اس وقت مرکزمیںکانگریس جبکہ ریاست میںنیشنل کانفرنس برسراقتدارتھی اورمخلوط اُمیدوارریاست میں کانگریس اورکانگریس نے اُتاراتھااس کی وجہ سے موصوف علامہ قاری صاحب انتخاب جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکے تھے۔آپ گدی نشین لارشریف میاں بشیراحمدلاروی صاحب ،شیرکشمیرشیخ محمدعبداللہ ،برگیڈیئرخدابخش ،مرحوم محمداسلم لسانوی ،مرحوم نوردین کٹاریہ،سابقہ وزیرمیاں الطاف صاحب،سابقہ وزیرمرزاعبدالرشیدصاحب،معروف عالم دین مولو ی دِل محمدنقشبندی راجوروی ،حاجی بلندخان صاحب سابقہ وائس چیرمین گوجربکروال ایڈوائزری بورڈ،چوہدری طالب حسین سابق ریاستی وزیروممبرپارلیمنٹ ، چوہدری گلزاراحمدکھٹانہ ، ایم ایل سی ماسٹرنورحسین صاحب، سابق ایم ایل سی چوہدری محمدحسین صاحب ،جناب محمدایوب خان صاحب سابق ریاستی وزیر،سیدامین شاہ صاحب ،سیدلطف اللہ شاہ صاحب سجادہ نشین آستانہ بالاکشتواڑشریف ،سائیں عبدالرشیدصاحب سجادہ نشین سائیں گنجی درہال راجوروی ، غلام حسین ضیاءریٹائرڈڈائریکٹرریڈیوکشمیرسرینگر، چوہدری وزیرخان صاحب ریٹائرڈڈائریکٹرٹورازم ،موجودہ ریاستی وزیرٹرانسپورٹ عبدالغنی کوہلی صاحب ،سابقہ وزیرنثاراحمدخان قادری مینڈھر۔ ،حاجی عبدالمجیدصاحب مہتمم مدرسہ پل توی وغیرہ سیاسی وسماجی رہنماﺅں کیساتھ گہری قربت رکھتے تھے۔اس کے علاوہ ان کے ہمراہ کچھ دیگررفقاءجن میں حاجی احمددین بگانی والے ۔حاجی باغ علی پدمی والے۔حاجی شہاب دین ہنڈوال والے،حاجی علی محمدسروٹ والے،کاکاخان (کانجلی والے )، چوہدری عبدالعزیزچوہانہ نواں شہروالے ، حاجی سائیں باگڑی ،حاجی بشیرباگڑی خیری والے ، چوہدری محمدقاسم کنگروالے ، حاجی محمدملیّ وحاجی باج دین کھٹانہ بیڑہ والے ، حاجی ولی محمدکھٹانہ سدھڑاوالے، حاجی سائیں کھٹانہ مڑھ درابی وحاجی نیک محمدبانیاں درابی والے ،چوہدری دِل محمدبلگاڑہ اکھنوروالے، حاجی دین محمدبیرپورہ نروال والے ،حضرت مولانامیاں نورحسین صاحب نقشبندی ماڑی ریاسی والے ، حاجی شاہ محمدصاحب رگھوڑہ والے ،حاجی جماعت علی چنوروالے ۔حاجی سلطان علی پلوڑہ والے۔چوہدری تاج دین (گیدڑگلیاں نواں شہروالے )حاجی ابراہیم ۔جانی پوروالے ،محمدصادق بٹ سابقہ جج ،حاجی رحیم بخش اکھنورہری سنگھ کوٹلی ٹانڈہ اکھنوروالے ، الحاج چوہدری سلام دین ترالہ ضلع راجوری ریٹائرڈتحصیلدار،مولوی محمداسلم مرحوم دھنوں والے ، الف دین ستوڑواں والے۔محمدشفیع پمبلہ دھنوں والے،دین محمدپمبلہ،حاجی رحمت علی (نارگڑہ والے) اورچوہدری نیازعلی پمبلہ دھنوں، حاجی بابابدھل والے ، مرحوم حاجی عبدالمجیدچنور،حاجی عبدالعزیزعرف کاکی ۔ممبرسائیں بگانی والے، حاجی عبدالرشیدباگڑی ریٹائرڈتحصیلدارگوجرنگر، حفیظ اللہ صاحب باگڑی ریٹائرڈایس پی گوجرنگر والے وغیرہ قابل ذکرہیں۔یہاں قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ کم علمی کے سبب صرف جموں ضلع کے چندساتھیوں کانام ہی تحریرکیا،البتہ مرحوم موصوف کے کسی بزرگ ساتھی کانام چھوٹ گیاہوتووہ راقم کومطلع کریں۔

علامہ حضرت قاری صاحب کے ساتھ ہرآدمی کاچلنابڑامشکل تھاکیونکہ وہ ایک ایمانداربے لوث ، سچے مزاج کے آدمی تھے اورکھوٹے اورکھرے کی پہچان کی خوب صلاحیت رکھتے تھے ،مرحوم علامہ قاری عبدالنبی صاحب اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔آپ سیاسی ،سماجی اورمذہبی شخصیت تھے ۔ہرکسی کے ساتھ پیارومحبت کے ساتھ پیش آناان کاشیوہ تھا۔غریبوں،یتیموں ،مسکینوں ،ناداروں کی خدمت میں پیش پیش رہناآپ کی شخصیت کااہم وصف تھا۔ حضرت قاری صاحب نے اپنی پوری زندگی کوخدمت دین میں صرف فرمادیااورآپ نے دین کی وہ خدمت فرمائی کہ کوئی بھی مسلمان اس کونظراندازنہیں کرسکتا۔

قاری صاحب نے اپنی کاوشوں کوبروئے کارکالرخاص کرجموں شہرکی مساجدجوکہ 1947 کے فسادات کے بعدبندپڑی ہوئی تھیں ان کودوبارہ شیخ عبداللہ کے ساتھ مل کرکھلوایااورخودجامع مسجدشریف لکھداتابازارمیں تا دم آخرامامت وخطابت فرمائی ۔آج بھی صوبہ جموں کے مختلف اضلاع میں قاری صاحب کے ہاتھوں قائم کی ہوئی مساجدآبادہیںاورلوگ دین اسلام سے مضبوطی کیساتھ جڑے ہوئے ہیں۔موصوف کی تقریروواعظ کایہ اثرتھاکہ نمازی کافی دوردرازسے چل کرجمعہ کی نمازجامع مسجدلکھداتابازارمیں اداکرتے ۔جموں شہرمیں اس وقت بھی کم وبیش تقریبا30 مساجدمیں امام وخطیب موصوف کے شاگرداورجامعہ اسلامیہ غوثیہ اسمٰعیل آبادرانجن کے ہی تربیت یافتہ ہیں۔اہم شاگردوں میں مولاناغلام محمدرضوی (بمیال) مولانافریداحمد(بیلی چرانہ ) حضرت مولاناعبدالرﺅف خطیب وامام جامع مسجدشریف راجوری ، مولاناغلام حسین قادری نگروٹہ ، مولاناعبدالغنی ازہری سدھڑا،حضرت مولانادِل محمدرضوی (رانجن) ،قاری شبیراحمد(ترالوی) حضرت مولانامحمدفاروق (منوٹ راجوری) الحاج نورمحمدپمبلہ مرحوم (دھنوں ) مولانامشتاق احمدرضوی (دھنوں)،امام جامع مسجدرام بن علی حسین شامل ہیں۔ریاست کے دیگر اضلاع بشمول اننت ناگ ،کشمیر،کشتواڑ،ڈوڈہ،کٹھوعہ ،رام بن،جموں،راجوری ،پونچھ،ریاسی وغیرہ میں مرحوم موصوف کے شاگردوں کی بھاری تعدادہے جوآج بھی علامہ قاری عبدالنبی مرحوم کے نیک مشن کوپروان چڑھارہی ہے ۔وادی کشمیرمیں تبلیغ دین کے مشن میں قاری صاحب کاجناب عبدالغفارشاہ صاحب ومحمدصدیق لون نے بہت تعاون دیااوردونوں شخصیات حضرت علامہ قاری عبدالنبی صاحب کے مشن میںآخری دم تک سرگرم رہیں۔ادھرجموں میں آج بھی سابقہ وزیرنثارصاحب ،عبدالمجید صاحب مہتمم مدرسہ پُل توی ودیگرکچھ افراد مرحوم موصوف کے نقش کی پیروی کررہے ہیں اورمرحوم کے فرزندارجمندقاری علی اکبرکے ساتھ دست تعاون بڑھاتے ہوئے نظرآتے ہیں۔

قاری صاحب ورلڈاسلامک مشن آف انڈیاکی ریاستی شاخ کے صدربھی تھے آپ کے علاوہ اس اکائی میں ان کے دیگرساتھی جن میں جناب شفاعت احمدحسینی (کشمیر) بطورجوائنٹ سیکریٹری ،مولانادل محمدنقشبندی (کشمیر) بطورآرگنائزر،خورشیدجان قریشی (کشمیر)بطورچیف آرگنائزر،صاحبزادہ محمدامین علوی (کشمیر)بطورانفارمیشن سیکریٹری قابل ذکرہیں نے بھی ریاست میں آپ کے ساتھ کندھے سے کندھاملاکرمشن دین متین میں بھرپورتعاون پیش کیا۔مرحوم موصوف کی دانشورانہ افکارسے جہاں صوبہ بھرکے لوگوں نے فیض حاصل کیاوہیں جموں کے دوردرازعلاقہ جات کے نوجوانوں نے بھی تحریک حاصل کی ۔موصوف مسلمانان جموںپرزوردیتے کہ وہ اپنے بچوں کودینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دلوائیں ۔آپ کے بہت سے بزرگ ساتھیوں نے آپ کی باتوں پرعمل کیااوراپنے بچوں کودینی علم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کے نورسے منورکیاجس کاثبوت ایکسین غلام رسول ،ڈاکٹرعبدالغفور،نورعلی ایکسین بلواں بھلوال ،ڈاکٹرمحمدسلیم نگروٹہ ، ڈاکٹرمنظورحسین دھنوں(بی ایم اوبٹوت)،غلام قادرمنیجربگانی ،حاجی فضل احمدقادری نائب تحصیلدارگوجرنگر، عبدالمجیدتحصیلدارنگروٹہ ،محمدسلیم گاندھی نگر(ڈی سی) ، مرادعلی نائب تحصیلدار ٹھٹھر، عبدالستارماسٹرٹھٹھر، محمدفاروق پٹواری ٹھٹھر، غلام رسول قادری ٹھٹھر، ماسٹرسرورخان بگانی، سرپنچ انورخان بگانی ،سرپنچ ممتازاحمدرانجن ، محمداسلم بٹوت ، محمدمرزاگرداوررام بن ،محمدسخی گرداورجانی پورہ،مرحوم خادم حسین کانگوں تحصیل ہیڈکوارٹر۔علی حسین منیجرچنورجموں، مرحوم محمدیعقوب سروٹ ،مرحوم محمدفیض ۔سب انسپکٹرللیال (راجوری) وغیرہ ہیں۔ ان لوگوں نے شہیدملت حضرت قاری عبدالنبی صاحب سے فیض حاصل کرکے اپنی دنیاکوروشن بنایاہے ،آخرت میں ان افرادکی کامیابی تبھی ممکن ہوگی جب وہ قاری صاحب کے مشن کوحقیقی معنوں میں فروغ دینے کےلئے کام کریں گے۔غلام رسول ایکسین نے کافی عرصہ تک مرحوم موصوف کیساتھ کام بھی کیااوران کے مشن کوآگے لیجانے میں سرگرم رول اداکیا۔ان کے والدبزرگوارمرحوم الف دین صاحب نے 1953 میںجب علامہ قاری صاحب پاکستان سے واپس آئے تھے سے لیکر1960 تک عرصہ چھ سات سال مسلسل قاری صاحب کے ساتھ رانجن میں رہ کردین کے کام میں تعاون دیا۔
مرحوم موصوف کی ظاہری غیرموجودگی میں آج بھی لوگ علامہ قاری صاحب کی محبت والفت کویادکرتے ہیں۔ان کی یادوں میں گم ہوکران کےلئے دُعامانگتے ہیں۔موصوف دینی شخصیت کے ساتھ ساتھ سماجی وسیاسی شخصیت کے طورپربھی مقبول عام تھے۔موصوف نے ریاست جموں وکشمیرکے علاوہ سیالکوٹ میں بھی کافی عرصہ تک دین متین کی خدمت انجام دی۔اکثرمیرے گاﺅں ”دھنوں“کے لوگ آج بھی علامہ مرحوم قاری عبدالنبی صاحب سے متعلق باتیں کیاکرتے ہیں اوران کی عظمت ،لوگوں کے تئیں ان کے جذبہ الفت ومحبت کویادکرتے ہیں۔مرحوم موصوف کاملی وسماجی وسیاسی کردارپوری ریاست بالعموم اورصوبہ جموںکی عوام بالخصوص پرآشکارہے ، جس کا اعتراف اس وقت سے لے کرآج تک کے علماءاور عام لوگ بھی کرچکے ہیں۔ المختصرقاری عبدالنبی صاحب حق بات کہنے سے کبھی نہیں ہچکچائے ، آپ سچے محب رسول تھے۔ آپ نے اپنی زندگی مبارکہ میں دومرتبہ فریضہ حج اداکیا۔قاری صاحب کی آنحضور سے عقیدت و محبت کا یہ حال تھا کہ شرک و بدعت کی مذمت کرتے وہ کبھی نہیںگھبرائے۔قاری صاحب بے خوف حق بیان کرتے ، قرآن و حدیث سناتے اور اللہ کی طرف بلاتے تھے۔

بے شماردینی خدمات میں سے ایک بہت بڑی اوراعلیٰ خدمت سرزمین اسمٰعیل آبادرانجن جموں میں جامعہ اسلامیہ غوثیہ آج بھی اس بات کی گواہی وضمانت دے رہا ہے کہ حضرت کے نزدیک دین کی خدمت کا مفہوم کیاتھا۔ آج بھی مرحوم قاری صاحب کاقائم کیاہوادین کابلندستون جامعہ غوثیہ رانجن میں نوجوان نسل کودینی شعائرسکھارہاہے ۔مرحوم موصوف کے فرزندارجمندقاری علی اکبرقادری نقشبندی صاحب بڑی جانفشانی سے اپنے والدمحترم کے دست مبارک سے قائم ادارہ ’جامعہ غوثیہ رانجن “ کانظم ونسق چلارہے ہیں۔ہرسال اس ادارہ میں سیرت النبی کانفرنس اورغوث الوریٰ کانفرنس بتاریخ ۱۱ ربیع الثانی کاانعقادہوتاہے ۔جوکوئی بھی اس ادارہ میں جاتاہے اس کادل ادارہ کودیکھ کرباغ باغ ہوجاتاہے اوروہ مرحوم علامہ قاری عبدالنبی صاحب کے عظیم دینی وملی کارنامے پررشک کرتاہے اورمرحوم کے اس کارہائے نمایاں کے طفیل موصوف کےلئے دعائے مغفرت فرماتاہے۔مگرافسوس کاپہلویہ ہے کہ یہاں پرمقامی بچوں کی تعدادکے مقابلہ میں غیرمقامی بچوں کی تعداد 100 سے زائد ہے۔غیرمقامی بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں یہ بھی نہایت ہی خوشی کامقام ہے مگرلمحہ فکریہ ہے کہ جن کنڈی علاقہ جات میں دین کوزندہ رکھنے کےلئے قاری صاحب نے سب سے زیادہ کام کیاان علاقہ جات کے لوگ اس ادارہ سے فیضیاب ہونے سے کترارہے ہیں۔دنیاوی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی جارہی ہے مگردینی تعلیم سے محرومی کے سبب ضلع جموں کے کنڈی علاقہ جات کے نوجوانوں کی آخرت خطرے میں محسوس ہورہی ہے۔ضلع جموںکے لوگوں کاخاص طورپرفرض بنتاہے کہ وہ اپنے بچوں کواس دینی ادارہ میں دینی تعلیم سے منورکرنے کےلئے داخل کرائیں تاکہ قاری صاحب کے مشن کوفروغ مل سکے اوران کی روح کوتسکین حاصل ہو۔ہرشخص بالخصوص صوبہ جموں کے ہرفردوبشرکوچاہیئے کہ وہ قاری صاحب کے نیک مشن کوآگے بڑھانے میں تعاون دے۔مسلمانان صوبہ جموں کوچاہیئے کہ وہ ادارہ غوثیہ رانجن کواتنازیادہ مالی تعاون دیں کہ یہ ادارہ اسلامی یونیورسٹی شکل اختیارکرلے۔اس ادارہ کی مالی امدادکےلئے اپناکردارنبھانامسلمانان صوبہ جموں کااہم فریضہ ہے جس کی انجام دہی میں کوتاہی برتنادین کے تئیں بے رخی کااظہارکرنااورقاری صاحب کی خدمات اورمشن کوفراموش کرنے کے مترادف ہوگا۔قرآن مقدس کافرمان ہے۔کلُ نفسہِِ ذائقة الموت۔ہرجاندارکوموت کامزہ چکھناہے ۔ 4 اگست 1994 کوصوبہ جموں کی مسلم آبادی کوموصوف داغ مفارغت دے گئے۔جموں صوبہ کی ایک مسلم عوام ایک ایسی بزگذیدہ شخصیت سے محروم ہوگئی جس کے کارنامے آج تک ان کی عظمت وبلندقامت کاثبوت پیش کررہے ہیں۔ان کے کارناموں کے نقوش کودیکھ کر لوگوں کوبالخصوص نوجوان نسل کوخوشی ہوتی ہے۔انہیں محسوس ہوتاہے کہ ان کے اکابرین کس قدربلندپایہ،اعلیٰ اوصاف اورمفکرانہ سوچ کے حامل تھے۔4 اگست 1994 کی صبح تیزبارش ہورہی تھی کہ موصوف اپنے ساتھیوں میاں الطاف احمدسابقہ وزیرجنگلات اورمرزاعبدالرشیدسابقہ وزیرکے ہمراہ راجوری کی طرف جارہے تھے کہ جموں ۔اکھنورہائی وے پردومانہ کے قریب صبح 5:45 بجے گومپل کے نالے میں آئے تیزبارش کے سیلابی ریلوں نے مرحوم موصوف کی گاڑی کواپنی لہروں کے ساتھ بہالیااوراس دلدوزحادثے کے نتیجہ میں موصوف مالک حقیقی سے جاملے ۔اللہ کی قدرت کہ اس حادثے میں میاں الطاف اورمرزاعبدالرشیدمحفوظ رہے ۔اس طرح سے علامہ قاری عبدالنبی کی اچانک موت سے پوری ملت غم کے اندوہ میں ڈوب گئے۔موصوف قاری صاحب توچلے گئے مگرپیچھے چھوڑگئے ایک ملی ادارہ جامعہ اسلامیہ غوثیہ رانجن اورایک عظیم مشن ،جس کوپایہ تکمیل تک پہنچاناہم سب کی مشترکہ ملی ذمہ داری ہے۔قریبی خاندانی ذرائع کے مطابق حضرت قاری عبدالنبی کے والدمحترم محمداسماعیل صاحب بھی دریابرد ہو کرمالک حقیقی سے جاملے تھے۔حضرت قاری عبدالنبی صاحب کی موت کی خبرسے پوری ریاست بالعموم اور صوبہ جموں میںبالعموم صف ماتم بچھ گئی ۔مرحوم کاجنازہ میاں بشیراحمدلاروی نے صبح 11 بجے پڑھایا(کیونکہ مرحوم موصوف گیارہویں والے پیرحضرت شیخ عبدالقادرجیلانی البغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے گہری عقیدت رکھتے تھے )جس میں عوام کے جم غفیرنے شرکت کی۔حکومتی اداروں نے جس کی تعداد۰۴ ہزارسے زائدبتائی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ اس سے قبل کبھی سرزمین رانجن نے کسی کی نمازجنازہ میں اتنی تعدادنہ دیکھی تھی۔

مرحوم علامہ قاری صاحب کے چاربھائی تھے جن میں (۱)حضرت علامہ حافظ فضل احمدقادری جوکہ اس وقت انگلینڈکے شہرڈربی میں جامع مسجدکے امام وخطیب ہیں ۔(۲)حضرت علامہ مفتی غلام مصطفےٰ قادری جوکہ پاکستانی زیرانتظام کشمیرمیں ہائی کورٹ کے جج ہیں۔(۳)معاز ۔سیالکوٹ پاکستان میں مقیم ہیں اوران کے فرزندمقامی ہائی کورٹ میں اسلامی جج ہیں۔(۴) میاںعبدالرسول ۔جوکہ ماہ رمضان المبارک میں مسجدشریف میں بحالت ِ سجدہ مالک حقیقی سے جاملے ۔ مرحوم علامہ قاری عبدالنبی صاحب کے فرزندان میں قاری علی اکبرقادری نقشبندی اورقاری سجادعلی قادری نقشبندی شامل ہیں۔دونوں فرزندرانجن میں اپنے مرحوم والدبزرگوارکے نقش وقدم کی پیروی کرتے ہوئے جامعہ غوثیہ رانجن میں بچوں کوقرآنی تعلیمات سے روشناس کرانے میں مصروف عمل ہیں۔المختصریہ کہ آج بھی جب مرحوم علامہ قاری عبدالنبی صاحب کے ہزاروں چاہنے والوں کو موصوف کی یادآتی ہے توبہت شدت سے آتی ہے اورانہیں بہت تڑپاتی ہے ۔آپ کی وفات سے پوری ریاست بالعموم اورپورے صوبہ جموں میں بالخصوص جوخلاپیداہواہے اس کاپرہوناممکن نہیں ۔تاہم آپ اپنے دورمیں جوسیاسی ،سماجی اورملی (مذہبی) خدمات انجام دے گئے ان کوریاست کی عوام آج بھی فخرسے یادکرتی ہے ۔زمانہ کافی آگے نکل آیاہے لیکن ابھی تک مرحوم موصوف کے شاگردوں اورعام لوگوں کے اذہان وقلوب میں آپ کی باتیں اقوال زریں کے طورپرنقش ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعاگوہوں کہ جامع مسجدشریف غوثیہ اوراپنے لگائے ہوئے گلشن کے صحن میں ابدی نیندسورہے مرحوم حضرت علامہ قاری عبدالنبی صاحب کی نیک دینی خدمات کوقبول فرمااوران کی قبرکوجنت کی کیاری بنادے اورساتھ ہی ہم سب کومرحوم قاری عبدالنبی صاحب کی خدمات کااعتراف کرنے اوران کے نیک اورعظیم مشن کوفروغ دینے میں اپناکردارنبھانے کی توفیق عطافرمائے۔اللہ تعالیٰ مرحوم کوکروٹ کروٹ جنت الفردوس عطافرمائے اوران کے وسیلہ سے ہمیں راہ حق پرقائم رکھے۔آمین۔نوٹ: اس مضمون کی تکمیل کےلئے جناب قاری علی اکبرصاحب ،غلام رسول ایکسین اورڈاکٹرمنظوربی ایم اوبٹوت کامشکوروممنون ہوں ۔اگران افرادکاتعاون حاصل نہ ہوتاتواس مضمون کے لیے معلومات یکجانہ ہوپاتیں اورمضمون مکمل نہ پاتا۔آخرمیں ایک دُعائیہ شعرکیساتھ بات سمیٹ رہاہوں۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
 
Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 53158 views Ehsan na jitlana............. View More