خواہش کی تکمیل -- عیدِ قربان

سنئے مصحف!...........آفس جانے کے لیئے لان میں کھڑی کار میں بیٹھنے لگا شریک حیات مجازی خدا کو گاڑی تک چھوڑ کر واپس ہونے لگی اسی سمے انہیں کچھ یاد آیا,ہلکی اونچی آواز میں صدا لگائی,
مصحف ایک پاؤں گاڑی میں رکھ چکا اسٹیرنگ وہیل پر ہاتھ رکھے ایک پاؤں باہر دوسرا اندر .....وجیہہ کی جانب متوجہ ہوا......
وہ دراصل قربانی میں سے پانچ دن ہیں اور ابھی تک..........
ایک ہفتہ سے مصروفیت طول پکڑ چکی ہے....لیکن آپ فکر نہ کریں میں مکرم کے ذمہ لگاتا ہوں.........
جی بہتر.. وجہیہ وراثت میں ملنے والے پیار بھرے لب و لہجہ اور فرمانبرداری سے جی بہتر کہ کر چلی گئ....
.......دوسرے دن مکرم اپنے دس سالہ بچے علی کو ساتھ لیئے مصحف صاحب کا بکرا لینے چل دیا.... مکرم پندرہ سال سے ملازمت کے کام بخوبی سر انجام دے رہا تھا.....امانت و دیانت کی وجہ سے اپنا مقام بنا چکا تھا... اب تو مصحف آنکھیں بند کیئے اعتبار کرتے تھے........منڈی پہنچتے ہی بیوپاریوں گاہکوں اور جانورں کا شور.......چھوٹے چھوٹے بچے بھی والدین کے ساتھ آئے ہوئے تھے قربانیاں خریدی جارہی تھیں... سنت ابراہیمی کی تکمیل کا عزم دیدنی تھا......علی بابا کے پیچھے چلتے ہوئے کن اکھیوں سے انکی طرف دیکھ رہا تھا...... ہر سال جنم لے کر مر جانے والی خواہش کاش ہم بھی قربانی کرتے.... ایک بار بھر مچلنے لگی..... مکرم نے بیوپاری کے پاس ایک گندمی رنگ اور سرخ ڈبوں والا موٹا تازہ عمدہ بکرا دیکھا........
مکرم بیوپاری سے کیا مول ہے... بیوپاری کے جواب نے دس سالہ علی کے دل میں مچلنے والی خواہش کو خیانت کا رنگ دیا اور اسکے دماغ میں چھوٹے سے فریب کی ایک شکل گھومنے لگی.... قربانی کا شوق.... جس کی تکمیل کا ایک راستہ جو اگرچہ نامناسب تھا.......
بیوپاری نے پچاس ہزار مول مانگا پینتالیس پہ طے ہوا.... جبکہ مصحف نے ساٹھ ہزار دیئے تھے.......
کچھ ہی فاصلہ پر کھڑے ایک اور بیوپاری کی صدا پندرہ ہزار پندرہ پندرہ ہزار.............
مکرم کوٹ کی سائیڈ جیب میں مصحف صاحب کے بقیہ پیسے ڈالتے ہوئے ... علی سے مخاطب ہوےبیٹا.. آگے ایک ٹی سٹال ہے چائے پی کر واپس جاتے ہیں......
علی کی نظر آس پاس موجود جانوروں اور خوشی سے خریدنے والوں خریداروں پر تھی ... خیالوں میں تھا محلہ میں مقیم اسفند اور اسکا بکرا جو ہر سال قربانی کا گوشت دینے آتا اور کہتا علی میرے بکرے کا گوشت... جبکہ دماغ میں خواہش کی تکمیل کا ناجائز طریقہ...... جس کا حصول بابا کی جیب میں موجود پندرہ ہزار.......
مکرم نے ٹی سٹال والے کو دوکپ کا آرڈر دیا... ...علی کچھ متردد سا لگ رہا تھا بے چین.. بے سکون سا.. مکرم کیفیت کو بھانپتے ہوئے بیٹا.... کیا بات ہے ...............مکرم..... بابا.. وہ وہ.....میں......بابا ہم بھی قربانی کریں... سب بچے کتنے خوش ہیں... پھر میں بھی اسفند کے گھر گوشت دینے جاؤں گا...........
بیٹا اللہ نے چاہا تو کسی عید پہ میں بھی بیٹے کے لیئے بکرا لاؤں گا....علی...... بابا..... مصحف صاحب کے پندرہ ہزار.... انکو کیا معلوم.....کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟......؟؟؟؟....مکرم کی اونچی آواز لیکن پھر خاموشی سے سر جھکائے کچھ سوچنے لگے.... کچھ دیر بعد بجائے غصہ کے پیار سے گویا ہوئے بیٹا..اللہ کو تو سب معلوم ہے وہ دیکھ رہا ہے دلوں کے بھید جانتا ہے.... اور پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے خیانت سے منع فرمایا.....جھوٹ فریب دھوکہ.. حرام سے کی گئی قربانی.. ..عظیم عمل کے تکمیل کا ذریعہ نہیں بن سکتی..... ابراھیم اور اسماعیل علیہ السلام کاجزبہ قربانی تو تقوی.. صبر حوصلہ اور رب کی محبت کا درس دیتا ہے...میرے پیارے بیٹے علی..... کیا تم چاہتے ہو کل قیامت کے دن ہم اس ناجائز امر کی وجہ سے شرمندہ ہوں.......... مکرم کا پیار بھرا انداز اور محبت کی باتیں ..علی نے کہا ..بابا مجھے معاف کر دیں .........وہ دراصل ......لیکن پھر وہ خاموش ہوگیا ..بابا نے گلے لگا لیا ...علی کے موٹے موٹے آنسو گر نے لگے .....................
بیل کی آواز...مصحف لان میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر کچھ ضروری میل کر رہا تھا ......گیٹ کھولا..... بکرا دیکھتے ہی پسند آگیا ...بکرے کی آواز سن کر و جیہہ بھی آگئی........
مکرم نے پندرہ ہزار مصحف صاحب کی طرف بڑھا دیئے .......
لیکن مصحف نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا مکرم بابا...آپ بھی جا کر قربانی خرید لیں............شکریہ کے ساتھ جب باپ بیٹا منڈی جانے کے لیئے نکلنے لگے ...پیچھے سے....مصحف نے مسکراتے ہوئے کہا علی ........عید کے دن ہمیں بھی گوشت دے جانا....
rafi ullah
About the Author: rafi ullah Read More Articles by rafi ullah: 5 Articles with 9959 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.