سانحہ حرم شریف ۔ اپنے مشاہدات کی روشنی میں

جمعہ 11ستمبر2015ء عصر اور مغرب کی نماز کے درمیان کا وقت تھا،خانہ کعبہ کے چار اطراف مسجد الحرام میں توسیعی منصوبے پر تعمیراتی کام کے لیے لگی ہوئی ایک دیو ھیکل کرین اوپر کی جانب سے لہراتی ہوئی صفا و مروہ کے درمیانی مقام کی چھت پر گری جس نے صفاو مرو کی چھت کے کچھ حصہ کو نقصان پہنچایا ،پھر خانہ کعبہ کے صحن میں مقام ِابراہیم سے اندر کی جانب وہاں موجود زائرین پرآ گری جس سے اب تک اطلاعات کے مطابق 111 افراد شہید اور 238سے زیادہ شدید زخمی ہوئے جو مکہ کے اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ خیال ہے کہ زیادہ تر وہ لوگ تھے جو فریضہ حج کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔ ان میں 52پاکستانی بھی ہیں۔ 11کی شہادت کی تصدیق ہوچکی ہے۔ شہید ہونے والے پاکستانی زائیرین کا تعلق لاہور، مردان، مہمند ایجنسی، دیر، کوئٹہ، سانگھڑ، ککھڑ منڈی سے ہے ۔ اس سانحہ پر جس قدر بھی دکھ اور افسوس کیا جائے کم ہے۔ اﷲ تعالیٰ تمام شہدا کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے وہ جس مقصد کے لیے گھر سے نکلے تھے پروردگار ان کے اس مقصد کو اپنی بارگاہ میں قبول و منطور فرمائے۔ جو لوگ زخمی ہیں اﷲ تعالیٰ انہیں جلد صحت کاملہ عطافرمائے۔ آمین۔

سانحہ حرم شریف کے دل خراش مناظر دیکھ کر خانہ کعبہ کا ماحول اور نقشہ آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ نظروں میں وہ جگہ جہاں حرم شریف کی توسیعی منصوبہ کے سلسلے میں کام کرنے والی دیو ھیکل کرینیں لگی ہوئی ہیں، رات ہو یا دن ہر وقت ہرلمحہ یہ کرینیں کام کرتی ہمارے سروں پر چہل قدمی کرتی نظر آتی تھیں۔ کبھی ڈر یا خوف کا احساس نہیں ہوا۔ اکثر ایسا ہوا کہ ہمارے سر وں پر اوپر ویلڈنگ کرنے والوں کے چنگاریاں بھی آکر گریں لیکن مجال ہے کہ کسی لمحہ کسی بھی قسم کا ڈر یا خوف آیا ہو۔ میں 2011ء میں پہلی مرتبہ سعودی عرب گیا بعدازاں بلاوا آتا رہا اور میں اپنے رب کے بلاوے پر ہر سال ہی حاضری دیتا رہا۔ ابھی پانچ ماہ قبل اپریل 2015ء میری واپسی ہوئی تھی۔ ساری چیزیں تازہ ہیں، ہر چیز نظروں کے سامنے ہے، صفاو مروا میں سات چکروں کا منظر، زمینی منزل اور اوپر کی منزل پر سات چکر کی جگہ، مقام ابراہیم کو تو کبھی بھلا یا جاہی نہیں سکتا اس لیے کہ طواف کعبہ کے بعد مقام ابراہیم پر پہنچ کر دو رکعت نفل کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ بے شمار ہوگ رش سے بچنے کی خاطر مقام ابراہیم کے سامنے اندر کی جانب چلے جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ وہاں سایہ کا ہونا بھی ہے دوسرے یہی سے صفا و مروا کا راستہ بھی ہے۔ یہی وہ جگہ بتائی گئی ہے کہ جہاں پر یہ کرین آکر گری۔

جب یہ حادثہ رو نما ہوااس وقت مکہ المکرمہ میں شدید بارش ہورہی تھے، تیزطوفانی ہوائیں اور آسمانی بجلی کی گھن گرج ، چمک و گھرگھراہٹ بے انتہا شدید تھی۔ آندھی آئے یا طوفان،برف پڑے یا اولے گریں، بجلی گرے یا پہاڑ خانہ کعبہ کے گرد طواف نہیں رکتا، اﷲ کے بندے اپنے نبی ﷺ کے چاہنے والے پروانوں کی طرح خانہ کعبہ کے طواف میں مگن رہتے ہیں۔ انہیں اپنے رب سے توبہ استغفار کرنے ، اسے پکارنے،معافی مانگنے کے سوا کچھ اور سجائی نہیں دے رہا ہوتا، ان کے آگے کون ہے، پیچھے کون ہے، مرد ہے یا عورت کچھ پتا نہیں، کوئی دھکا دے رہا ہوتا ہے تو اس کی فکر نہیں کہ کون ہے جس نے دھکا دیا، نہ عورت کو عورت کا پتا ، نہ مرد کو مرد کا پتا،بس اﷲ اﷲ کی صدائیں لگاتے، تلبیہ پڑھتے ہوئے خانہ کعبہ کے طواف میں مدہوش رہتے ہیں۔
لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لاَ شَرْیکَ لَکَ لَبَّیْکَ
اِنَّ الْحمَْدَ والنّعْمَۃ لَکَ وَاْلمُلْکَ لاَ شَریْکَ لَکَ
’’میں حاضر ہوں ، یا اﷲ میں حاضر ہو‘ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ‘ میں حاضر ہوں۔ بیشک تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں اور ملک بھی‘ تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔یہی صدائیں ہر ایک زبان پر ہوتی ہے۔

جس وقت کرین گری ، اس وقت بھی طوافِ کعبہ جاری تھا، نماز پڑھنے والے نماز پڑھ رہے تھے، دعائیں مانگنے والے دعائیں مانگ رہے تھے، قرآن کی تلاوت کرنے والے تلاوتِ قرآن میں مشغول تھے۔کرین گری جس نے نہ معلوم کس کس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ زخمی ہوئے کچھ اسی وقت اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ شہید کا درجہ ملا۔ ان کے خون سے حرم شریف کا فرش رنگین ہوگیا۔ جانے والوں کا دکھ، افسوس اپنی جگہ، زخمی ہونے والوں کی تکلیف اپنی جگہ، لواحقین کا غم سر آنکھوں پر لیکن زرا یہ تو دیکھئے کہ ان شہیدوں نے کیا درجہ پایا،ان کے نصیب میں کتنی بڑی سعادت آئی، ایسی سعادت کہ ہم مسلمان اس سعادت کی تمنا کرتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں کہ پروردگار ہمیں مکہ میں موت آئے، مدینہ میں ہمارا دمِ آخرہو، یہ تو وہ شہید ہیں کہ مکہ المکرمہ میں ہی نہیں بلکہ اﷲ کے گھر خانہ کعبہ کے صحن میں ان ارواح نے قفسِ عُنصُری سے پرواز کر کے مقام ِ محمود پر جا پہنچی ۔ شہیدوں کا دکھ ، ان کے لواحقین سے ہمدردری اور ان کے غم میں شریک ہوتے ہوئے پروردگار سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ شہیدوں کی شہادت کوقبول فرمانا۔اقبال ؔ کا شعر ؂
اُن شہیدوں کی دِیَت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خُون جن کا حرم سے بڑھ کر

ان تمام باتوں کے باوجود ایک سوال کا ذہن میں آنا قدرتی عمل ہے کہ جس جگہ لاکھوں کا مجمع ہو وہاں پر اس قسم کا حادثے کا پیش آجانا ۔ ایک سوالیا نشان ضرور ہے لیکن تاریخ میں کبھی اس سے پہلے کوئی واقعہ اس قسم کا خانہ کعبہ کے صحن میں رونما نہیں ہوا۔ حرم شریف کی توسیع کا سلسلہ حضرت عمر ؓ کے زمانے سے شروع ہوا تھا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ اس کی بنیادی وجہ عمرہ اور حج کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہے۔ توسیع کی وجہ سے اب ایک وقت میں پچاس لاکھ عازمین حج بسہولت تمام مناسک حج ادا کرسکتے ہیں۔سعودی اخبار نے وزیر حج جناب بندرحجاز کے حوالے سے لکھا ہے کہ توسیعی منصوبہ مکمل ہونے کے بعد آئندہ پانچ سال کے دوران حجاج کی تعداد 3 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ حرم شریف کا توسیع کا مختصر جائزہ لیں تو صورت حال کچھ اس طرح سے سامنے آتی ہے۔

خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں مکہ میں بے شمار اصلاحات کیں ۔ خاص طور پر مکہ میں آنے والے سیلاب کے سدِ باب کے لیے ’’المدعا‘‘ میں (مرَوہ کے قریب) ایک بند تعمیر کرایا جس کے باعث کئی سال تک حرم شریف اور اہل مکہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے۔ حرم شریف کی اولین توسیع حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور17 ہجری میں ہی ہوئی۔ 18 ہجری میں خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے توسیع کا کام کرایا۔ اموی خلیفہ امیر معاویہ نے مکہ کی ترقی اور فلاح و بہبو د پر خصو صی توجہ دی۔ خلیفہ ولید بن عبد الملک نے کعبتہ اﷲ کی حفاظت کے لیے حرم شریف کے چاروں طرف ایک مضبود پشتہ تعمیر کرایا ۔ گورنر مکہ خالد بن عبداﷲ نے کعبہ میں کئی ترقیاتی کام کیے۔ عقبہ بن الارزق نے کعبہ میں سب سے پہلے روشنی کا انتظام کیا۔ عہد عباسی میں مکہ کی تعمیرمیں بہت کام ہوئے، نہر زبیدہ ان میں ایک ہے، خلافت عثمانیہ کے ہر حاکم نے مکہ کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ حرم شریف کی توسیع کا کام بھی کرایا۔ترکی فرمارواؤں نے اپنے دور میں حرم کی توسیع ترجیحی بنیادوں پر کی۔

سعودی فرماں حکمراں ترقی اورتوسیع کے ایک نہ رکنے والے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کا ہر شہر تیزی سے ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔ سعودی حکمران شاہ عبد لعزیز ّ آلِ سعود نے 1368ھ میں حرم شریف کی توسیع کا اعلان کیا ۔ یہ منصوبہ حرم شریف کی تاریخ ِ توسیع کا اہم ترین منصوبہ تھا۔ اس منصوبے پر بیس سال مسلسل کام ہوتا رہا۔ حرم شریف کی خارجی سمت کی توسیع نہایت اہم تھی اس کا کل رقبہ ساٹھ ہزار مربع میٹر تھا مسجد حرام کی دونوں منزلوں کے اندرونی اور بیرونی حصوں میں ٹائل لگا ئے گئے۔ ساتھ ہی عثمانی دور کی تعمیرات کی بھی اصلاح و ترمیم سے سنوارا گیا اور سعودی دور کی توسیع کو عثمانی دور کی توسیع سے باہم ملا دیا گیا۔مطاف کو بھی وسیع کیا گیا۔ اس میں سفید سنگِ مر مر کا استعمال کیا گیاجس کی خوبی یہ ہے کہ یہ گرمی کی تپش سے گرم نہیں ہوتا۔ زم زم کے کنوے تک پہنچنے کے لیے دروازے لگائے گئے کعبہ شریف کا دروازہ تبدیل کیا گیا جس میں خالص سونے کی پلیٹیں جڑی گئیں جن کا وزن 286 کلو گرام ہے۔ اس عظیم توسیع میں صفا و مروا کے درمیانی جگہ بھی شامل تھی۔دوسری منزل پر بھی سعی کی سہولت فراہم کی گئی۔

شاہ فہد بن عبد لعزیزمرحوم نے بھی حرم شریف کی توسیع میں ذاتی دلچسپی لی۔ ماہِ سفر1409ھ میں مزید توسیع کا فوری طور پر حکم دیا۔ ان کے دور میں بھی توسیع کا کام جاری رہا۔ ان کے دورِ حکمرانی میں ’’مسعا‘‘ کے درمیانی حصے میں پل نما چھ گزرگاہیں بنائی گئیں۔ نمازیوں کی سہولت کے لیے دوسری منزل پر چڑھنے کے لیے خود کار زینے نصب کیے گئے۔ مسجد حرام کی چھت کو نماز کے قابل بنا یا گیا تاکہ وقت ضرورت یہ چھت نماز کے لیے استعمال ہوسکے۔ خادم ِحر مین شریفین شاہ عبد اﷲ بن عبد العزیز مرحوم کے دور حکمرانی میں مسجد الحرام اور مسجد بنوی کے عظیم الشان توسعی منصوبوں کا آغاز ہوا۔ اس منصوبے پر اخرجات کا تخمینہ 10.7بلین تھا۔اس کا افتتاح بھی شاہ عبداﷲ مرحوم نے 19 اگست 2011ء کو کیا تھا۔ خادم ِحر مین شریفین شاہ سلمان ، شاہ عبد اﷲ کے انتقال کے بعد سعودی فرما ں رواں بنے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز انتظامی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہ سلمان شہزادہ نائف بن عبد العزیز کی وفات کے بعد ولی عہد کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔ شاہ سلمان ابھی صرف 19 برس کے تھے کہ انہیں 1954ء میں ریاض شہر کا میٔر بنا دیا گیا تھا۔ایک سال بعد ہی یعنی ۲۰ سال کی عمر میں انہیں وزیر کا منصب عطا کردیا گیا تھا۔1963ء میں جب کہ ان کی عمر 27 برس تھی انہیں ریاض شہر کا گورنر بنا دیا گیا ۔ شاہ سلمان کویہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ48 سال (2011-1963ء) ریاض شہر کے گورنر رہے۔ریاض شہر کو ایک چھوٹے اور دیہات نما شہر سے دنیا کے جدید اور ترقی یافتہ شہروں میں سے ایک شہر بنا دینا شاہ سلمان ہی کا کارنامہ ہے۔ 5نومبر 2011ء کو انہیں وزیر دفاع کا قلم دان سونپا گیا اور 18 جون 2012ء کو اپنے بھائی شہزادہ نائف کے انتقال کے بعد ولی عہد کا منصب عطا ہوا اور پھر شاہ عبد اﷲ کے انتقال کے بعد شاہ سلمان سعودی عرب کے حکمراں بنے۔انہوں نے حرم شریف کے توسیع منصوبے پر کام کو اسی طرح جاری رکھا جس طرح شاہ عبد اﷲ کے دور میں چل رہا تھا۔ حرم شریف کے شمالی و جنوبی صحنوں میں انتہائی توسیع کے منصوبے پر دن رات کام ہورہا ہے۔سڑکوں کا نیا جال بچھا یا جارہا ہے۔اس کے تحت گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کے لیے برقی زینو، خود کار راستوں اور ٹنل کی تعمیر شامل ہے۔بیت اﷲ شریف کے چاروں جانب گولائی میں وھیل چیرٔ پر طواف کرنے والوں کے لیے دوسری منزل مختص ہے جب کہ پہلی منزل پر دیگر لوگ طواف کرتے ہیں۔گولائی میں مخصوص جگہ خانہ کعبہ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کے طواف کی خاطر ہی بنائی گئی ہے۔ ہیلی پیڈ بھی منصوبے کا حصہ ہے تاکہ حرم شریف سے مریضوں کو تیزی کے ساتھ اسپتال منتقل کیا جا سکے۔اس منصوبے کے علاوہ مکہ المکرمہ کو جدہ کے راستے مدینہ منورہ سے ملانے کے لیے ہائی اسپیڈ ٹرین کے منصوبے پر پہلے ہی کام جاری ہے۔ اس توسیعی منصوبے کی تکمیل کے نتیجے میں مسجد حرام میں 2.5ملین لوگ ایک وقت میں نماز ادا کرسکیں گے اور حرم شریف کے شمال اور مغربی صحنوں میں آمد و رفت آسان ہوجائے گی، زائرین ٹریفک کے ازدھام سے متاثر ہوئے بغیر حرم شریف آجاسکیں گے۔یہ حرم شریف کی تاریخ کا سب سے بڑا توسیعی منصوبہ ہے۔ زیر زمین راستوں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ منیٰ و عرفات کے درمیان برق رفتار ٹرین پہلے ہی سے حج کے دنوں میں زائرین کو لانے اور لے جانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم مطاف میں قدم رکھتے ہیں اور اپنے سر پر چاروں جانب دیو ھیکل کرینیں کھڑی دیکھتے ہیں تو خوف کاعالم طاری ہوجانا یقینی ہوتا ہے لیکن سامنے اﷲ کا گھر جس کی تڑپ اور تمنا لیے ہم خانہ کعبہ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں تو ہمیں سوائے اپنے رب کے سامنے حاضری کے احساس، اس سے معافی طلب کرنے، توبہ استغفار کرنے ، اس کا لاکھ لاکھ شکرادا کرنے کے سوا کچھ سجائی نہیں دیتا۔مطاف میں پیش آنے والاحادثہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد اور پہلا حادثہ ہے۔ حرم میں توسیعی منصوبے کا تعمیراتی کام صبح و شام حتیٰ کے رات میں بھی جاری رہتا ہے۔ حج کے ایام میں بھی معمول کے مطابق کام جاری و ساری رہتا ہے۔ اسے دیکھ کر عقل دنگ اور حیران ہوتی ہے کہ خانہ کعبہ کے گرد لاکھوں کا مجمع ، اندر اور باہر لوگ ہی لوگ اس کے باوجود تعمیراتی کام کسی لمحہ نہیں رکتا۔ سعودی حکومت کے کسی ذمہ دار کا بیان اخبار میں پڑھا کہ یہ حادثہ کسی فنی کمزوری، کرین کے ٹوٹ جانے سے نہیں ہوا بلکہ یہ قدرتی آفات جس میں شدید بارش، طوفانی ہوائیں، گرج چمک، آسمانی بجلی گرجانے کے باعث کرین اوپر سے نیچے آرہی اور کئی لوگ اپنی جان سے گئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔ شواہد اور وہاں کی صورت حال کو جن لوگوں نے دیکھا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے سوچ کا دھاری اسی جانب جاتا ہے۔ تاہم سعودی حکومت اس حادثے کے تمام پہلوؤں پر غور کررہی ہوگی۔ ابتدائی طور پر حرم شریف میں تعمیراتی کام کرنے والی کمپنی ’بن لادن گروپ‘ کے خلا ابتدائی اقدامات شروع ہوچکے ہیں۔وزارت خزانہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گروپ کے تمام جاری منصوبوں کا جائزہ لے۔ واقعہ کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اس حادثے کی کسی حد تک ذمہ داری کمپنی بھی ہے۔ جو حرم کے توسیعی منصوبے پر کام کرہی ہے۔اور اس نے تعمیراتی مقام پر حفاظتی اقدامات کو یقینی نہیں بنایا۔ جس کی وجہ سے یہ حادثہ رونا ہوا ۔سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد لاعزیز نے اس افسو ناک حادثے میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کی اور کہا کہ’ وہ اس حادثے کی تہہ تک پہنچیں گے۔ ان کا کہناتھا کہ ہم اس واقعے کی وجوہ کا پتا چلانے کے لیے تحقیقا ت کریں گے اور اس کے نتائج عوام الناس کے سامنے لائیں گے‘۔ اگر اس حادثہ میں کسی انسانی غیر ذمہ داری سامنے آئی تو اس پر سخت ایکشن ہوگااور ہونا بھی چاہیے۔اس سلسلے میں سعودی شاہی دیوان نے حادثے میں جاں بحق ہونے والے ہر فرد کے خاندان کو 10 لاکھ سعودی ریال (تقریباً 2لاکھ 70ہزارڈالر)اور زخمی و معزور ہوجانے والے فرد کے لیے 5 لاکھ سعودی ریال ادا کرنے کا حکم دیا۔حادثے کے بعد سعودی حکومت کے اقدامات خوش آیند ہیں۔ شہداء کے لیے دعائے مغفرت ، لواحقین کے لیے صبر جمیل عطا کرنے کی دعا، زخمیوں کے لیے بھی دلی ہمدردی اور جلد صحت یابی کی دعاؤں کے ساتھ اﷲ ہم سب کو ہر طرح کے حادثات سے محفوظ رکھے۔ اقبالؔ نے کہا ؂
مرے خاک و خُوں سے تُو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صِلۂ شہید کیا ہے ، تب و تابِ جاودَانہ

(15ستمبر2015، مصنف سے رابطہ کے لیے ای میل([email protected]
 
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1289089 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More