ڈاکٹر مجاہد کامران کی نگاہ سے 9/11کا سٹنٹ

جو مجاہدسچا،سرفروش اورنڈر ہوکامران اورسرفراز ہونااس کامقدر ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے متحرک ،مدبراورمخلص وی سی پروفیسر ڈاکٹرمجاہدکامران اپنی نیک نیتی،علم دوستی اوراوراپنے منصب سے کمٹمنٹ کے سبب کئی دہائیوں سے کامرانیاں سمیٹ رہے ہیں۔ان کاشمار جنوبی ایشیاء کے ٹاپ ٹین دانشوروں اورمحققین میں ہوتا ہے وہ بیک وقت قومی زبان اردواورانگلش میں اپنے ویژن کوسپردقرطاس کرتے ہیں ۔جس طرح ان دنوں آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کے سلسلہ میں دبنگ جرنیل راحیل شریف کا کردارقابل قدر ہے اس طرح میدان ادب اورتعلیم وتحقیق میں ڈاکٹرمجاہدکامران کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ڈاکٹرمجاہدکامران کادل دنیا بھر کے مظلوم اورمحکوم مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتا اوران کی آزادی کیلئے مچلتا ہے۔ان کی تحریروں اورتقریروں سے اسلام اوراہل اسلام کیلئے ان کے قلب میں چھپادردچھلکتا ہے ۔ظلم کاراستہ قلم سے بھی روکاجاسکتا ہے،قلم سے بھی ستمگروں کے سرقلم ہوتے ہیں۔جہاں ہمارے معاشرے میں کچھ عاقبت نااندیش قلم فروش اورکالم فروش سرگرم ہیں وہاں ڈاکٹرمجاہدکامران کی صورت میں قلم سے اسلام دشمن ، پاکستان دشمن اورعلم دشمن عناصر کاسرقلم کرنیوالے سرفروش مجاہد بھی اپناقلمی کرداراداکررہے ہیں ۔پروفیسرڈاکٹرمجاہدکامران کادبنگ ہونا فطری ہے کیونکہ'' ڈی این اے'' اورنام کی تاثیر سے انکارنہیں کیا جاسکتا،ان کے والدسیّدشبیر حسین مرحوم ومغفور بھی اپنے دورکی ممتازاورنابغہ روزگارشخصیت اورقلم قبیلے کے سرخیل تھے۔ڈاکٹرمجاہدکامران نے آج تک اپنے خیالات کا اظہارکرتے وقت کسی مصلحت پسندی سے کام نہیں لیا۔وہ دنیا کے اہم اورمخصوص موضوعات پرروانی سے گفتگواورمسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہیں ۔وہ ماضی میں جھانک کرمستقبل کانقشہ کھینچتے ہیں مگر افسوس ان سے وہ کام نہیں لیا جس میں انہیں مہارت ہے ۔انہیں جہاں اسلامی ملکوں کے مختلف مسائل اوران کے اسباب کاادراک ہے وہاں وہ راہ حل بھی بتاتے ہیں ۔اگرراقم کے بس میں ہوتا توڈاکٹرمجاہدکامران'' پاکستان نیشنل تھینک ٹینک'' کے سربراہ ہوتے۔

تعلیم کے میدان میں تحقیق کے بغیر کچھ بھی نیاتخلیق نہیں ہوسکتا۔جستجواورجہدمسلسل ڈاکٹرمجاہدکامران کی فطرت ہے جبکہ ان کی آنکھوں میں جگنواورستارے چمکتے ہیں۔ان کو ملکوں اورمعاشروں کے درمیان موازنہ کرنے میں خاصی مہارت ہے ۔ڈاکٹرمجاہدکامران کی مختلف تصنیفات کونہ صرف علمی وادبی حلقوں میں غیرمعمولی پذیرائی ملی بلکہ ناقد بھی انہیں قابل قدراثاثہ قراردیتے ہیں ۔ان کے مقالے اورمکالمے ہمارے قومی ادب کاروشن باب ہیں ۔عالمی سیاست ،صحافت ،معیشت اورفارن پالیسی پران کی گہری نظر ہے۔انہوں نے جس موضوع پربھی قلم اٹھایااس کے ساتھ انصاف کیا اوراپنے علم کاحق اداکیا۔1988ء میں ا ن کی شاندارکتاب ''جدید طبیعات کے مشاہیر'' باذوق افراد کیلئے ایک بیش قیمت تحفہ تھی۔1997ء اپنے والد سیّدشبیرحسین مرحوم کی قیادت،ادارت اورشراکت میں انہوں نے محسن پاکستان اورشان پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کے مضامین کی اشاعت یقینی بنائی ۔ان کی ایک اورشاندارکتاب ''جدید طبیعات کے بانی '' بھی منظرعام پرآئی اوراسے بھی ہاتھوں ہاتھ لیاگیا ۔2002ء میں'' ڈاکٹراے کیو خان آن سائنس ،تعلیم اورٹیکنالوجی '' کی اشاعت سے ڈاکٹرمجاہدکامران کا علمی،ادارتی اورادبی جوہرتسلیم کرلیا گیا ۔2008ء میں ان کی ایک اورشہرہ آفاق تصنیف ''پس پردہ عالمی سیاست کے مخفی حقائق ''نے تہلکہ مچادیا ۔2009ء میں ان کی کتاب ''Einstein Of Germany'' میں مطالعہ کاشوق رکھنے والے خواتین وحضرات کیلئے زبردست موادتھا ۔اس کے بعدبھی ان کی کئی کتب منظرعام پرآئیں جوصاحب کتاب کی تخلیقی اورتصنیفی صلاحیتوں کی آئینہ دارتھیں ۔آج راقم نے اپنے کالم میں باوفااورباصفاڈاکٹرمجاہدکامران کی شہرہ آفاق کتاب 9/11''اور نیوورلڈآرڈر''کوموضوع بنایا ہے ۔میرے نزدیک 9/11کوئی سانحہ نہیں بلکہ ایک سٹنٹ تھا ۔ ڈاکٹر مجاہد کامران نے انتہائی باریک بینی اوربیباکی سے 9/11کاحقیقت پسندانہ نقشہ کھینچا ہے ۔انہوں نے 9/11کے رازوں پرسے پردہ اٹھایا ہے ،انہوں نے اس کتاب کاانتساب ان سب کے نام کیا ہے جو9/11 کے سانحہ اورامریکہ کے سابق صدرجان ایف کینیڈی کے قتل کی سچائی تک رسائی چاہتے ہیں ۔

9/11اورنیوورلڈآرڈر کے مصنف پروفیسرڈاکٹرمجاہدکامران نے اس کتاب میں مختلف شخصیات کی تحریروں، گفتگواوران کے اقوال کوبھی نقل کیا ہے ۔ مصنف نے کتاب کے ابتدائی صفحات پر امریکہ کے مقتول اوراپنے دورکے مقبول صدر جان ایف کینیڈی کی ایک تقریر کامختصرذکرکیا ہے۔ 10جون 1963ء میں جان ایف کینیڈی نے اپنے مخصوص اورمنفرداندازمیں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا''ہمیں اس دنیا میں جنگی ہتھیاروں کے ذریعے نافذکردہ امریکی امن(Pax American)درکار نہیں ،نہ ہی ہمیں قبرستان ساسکون یاغلاموں کی سی خاموشی واطاعت چاہئے۔میں توحقیقی امن کی بات کرتا ہوں ،وہ امن جس کے باعث اس کرۂ ارض پرزندگی قابل رشک ہوجائے ،وہ امن جوانسانوں اورقوموں کوآگے بڑھنے اوراپنے بچوں کیلئے بہترزندگی کی تعمیر کی امید دلائے۔ایساامن جومحض امریکی عوام کی بجائے پوری دنیا کے مردوخواتین کیلئے ہو۔وہ امن جوصرف ہمارے اس دورکیلئے نہ ہوبلکہ دائمی اورمستقل امن ہو۔ ''10جون 1963ء کے محض چندماہ بعد 22نومبر1963ء کودن دیہاڑے جان ایف کینیڈی کوٹیکساس کے شہر ڈلاس میں اُن ہزاروں افراد کی موجودگی میں قتل کردیاگیاجواپنے محبوب صدر کوخوش آمدیدکہنے کیلئے وہاں اکٹھے ہوئے تھے ۔امریکہ جودوردرازریگستان میں ہونیوالی حرکات وسکنات دیکھنے اورسننے کادعویدار ہے وہ آج تک جان ایف کینیڈی کے قاتلوں کوانصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کرپایا ۔

مائیر اے روتھس چائیلڈ(Mayer A. Rothschild) لکھتا ہے ''بے تحاشادولت کمانے کیلئے انتہائی دلیری کے ساتھ بیحد احتیاط بھی ضروری ہوتی ہے اوردولت کے حصول کے بعد اسے محفوظ رکھنے کی خاطر کمانے سے دس گنازیادہ عقلمندی وذہانت درکارہوگی ''۔اپٹون سنکلئیر(Upton Sinclair) لکھتا ہے ''جب ایک شخص کامفادکسی بات کونہ سمجھنے سے وابستہ ہوتواسے وہ بات سمجھانابہت مشکل ہوتا ہے''۔یوسٹاسے ملنز(Eustace Mullins)لکھتا ہے ''اس عالمی نظام کے لٹیروں نے پوری دنیا میں اپنی بہروپیائی شعبدہ بازی کے ذریعے لوٹ مار کابازارگرم کررکھا ہے اوراسی بھیس میں وہ اپناشیطانی کھیل بلاروک ٹوک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان کے اس پروگرام کیلئے یہ سوانگ رچانا (بہروپ بھرنا)بیحدمناسب وموزوں لگتا ہے کیونکہ اس عالمی نظام(World Order)نے انیسویں صدی کے یورپ سے موجودہ قوت وطاقت حاصل کی ہے۔شعبدہ بازی کے اس پروگرام میں بطورمہمان خصوصی شرکت کاسب سے بڑافائدہ تواس آگہی کاہے کہ دوران تماشاآپ کوعلم ہوتا ہے کہ بادشاہ کس نقاب کے پیچھے پوشیدہ ہے اوروزیراعظم کس ملبوس میں ہے جبکہ دوسرے افرادکوبالکل علم نہیں ہوتاکہ آیاوہ کسی عام درباری سے محوگفتگو ہیں یاکسی طاقتور شخصیت سے جبکہ بیچارے عوام تواس تماشاگاہ کی کھڑکیوں کے شیشوں سے چمٹے اندرتانک جھانک کرتے رہتے ہیں مگرانہیں کچھ معلوم نہیں ہوتاکہ کون کیا ہے۔اس عالمی نظام کی یہی تکنیک ہے اورپراسراریت کی دھند میں لپٹایہ سارانظام گمنامی کے اندھیروں اورنقابوں کے پس پردہ نہاں ہے تاکہ اس نظام کے باغی ہمیشہ اہداف کونشانہ بناتے ہوئے ان غیراہم وچھوٹے کارکنان سے ہی نبردآزمارہیں اورجواکثرحصول مقصد کیلئے قربان ہوتے آئے ہیں''۔

11ستمبر2001ء کووقوع پذیرہونیوالاسانحہ انسانی تاریخ کے دھارے میں حدفاصل کی حیثیت کاحامل ہے ۔اس سانحہ کے وقوع پذیرہونے کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرماتھیں اوران کے اہداف ومقاصد کیا تھے ،ان سوالات کے جوابات دیناآسان نہیں ۔جزوی طورپرتواس کی وجہ انتہائی معتبر ومشہورتجزیہ کاروں اورلکھاریوں کے نزدیک حکومت امریکہ کی سانحہ ستمبر کے آغازسے ہی سچائیوں اورحقائق کی پردہ پوشی کی مجنونانہ اورمجرمانہ کوششیں ہیں ۔2004ء میں لیری چن(Larry Chin)نے ''گلوبل ریسرچ ''کیلئے ایک مضمون میں لکھا''سانحہ ستمبر بارے آزادوخودمختارسرکاری کمشن دراصل پردہ پوشی اورمعاملے کوچھپانے ودبانے کی منظم ومربوط سازش ہے جوبش انتظامیہ ،امریکہ محکمہ انصاف کے زیرنگرانی اورسابق صدربش کے تعینات کردہ ڈائریکٹر ان کی سربراہی میں ان روائتی عیاروں اورجنگی جرائم میں ملوث آزمودہ وکہنہ مشق افراد کے ذریعے انجام پائے گی جن کے براہ راست تعلقات سانحہ ستمبرکے منصوبہ سازوں ،اسے عملی جامہ پہنانے والوں اوراِس سانحہ سے مستفید ہونیوالوں سے ہیں۔اب جبکہ کمشن نے اپنی حتمی رپورٹ بنانے کے دوران سچائیوں کومسخ کرنے ،انہیں ڈرامائی رنگ دینے ،بے بنیاد الزامات لگانے کاکام شروع کردیاہے توبش انتظامیہ کے مجنونانہ جھوٹ ،سنسنی خیزی اورمن گھڑت ووحشت ناک کہانیوں کے پیش نظریہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوکرسامنے آگئی ہے''۔امریکی بحریہ کے ایک ریٹائرڈپائیلٹ لیفٹیننٹ کرنل شیلٹن ایف لینکفورڈ (Lt. Col. Shelton F. Lankford)نے اس سانحہ پریوں تبصرہ کیا ہے ''ہمارے ہم وطن اس سانحہ میں قتل ہوئے ہیں اورہم اس بارے میں جس قدر غورکرتے ہیں توہمیں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں ہماری حکومت نے ہی قتل کیا ہے جواب ہزاروں میل دور(افغانستان میں)موجوددوسرے لوگوں کوقتل کرنے کیلئے اس سانحہ کوبطوربہانہ استعمال کررہی ہے''۔امریکی فضائیہ کے ایک آفیسر لیفٹیننٹ کرنل رابرٹ بومین (پی ایچ ڈی) نے بڑی وضاحت سے کہا ہے '' علماء وماہرین اس بات پربغیر کسی معقول شک کے متفق ہیں کہ سانحہ ستمبر بارے سرکاری موقف بالکل غلط ہے لہٰذاء سرکاری تحقیقات تودرحقیقت محض اخفاء وپردہ داری کی کاروائی ہے''۔

نام نہادسانحہ ستمبر یعنی 9/11سٹنٹ کی آڑمیں جنونی امریکہ نے ڈرادھمکا کربعض دوسرے ملکوں کوبھی اپنااتحادی بنایااور جس طرح مہم جوئی کرتے ہوئے افغانستان کوقبرستان بنایا اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔تعجب ہے عراق اورافغانستان میں کئی ملین انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے دوسروں کودہشت گردقراردے رہے ہیں ۔پاکستان کیخلاف بھارت کی حالیہ اشتعال انگیزی کے پیچھے بھی امریکہ اوراسرائیل کاہاتھ ہے ۔جس وقت تک یہ شیطانی تکون تانے بانے بن رہی ہے اس وقت دنیا میں پائیدارامن کی بحالی کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan
About the Author: MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan Read More Articles by MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.