شکوک کی گرفت

یہی کوئی' پچاس ساٹھ پہلے کی بات ہے۔ ہمارے قریب کے ایک گھر میں پیر صاحب آنے والے تھے۔ تیاری کے سلسلہ میں' پورے گھر کو وختا پڑا ہوا تھا۔ میں بھی مدعو تھا۔ پورے گھر کو جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا۔ جہاں پیر صاحب نے بیٹھنا تھا' وہاں بڑا نفیس قسم کا قالین بچھا ہوا تھا۔ پیر صاحب کے لیے گاؤ تکیہ رکھا گیا تھا۔ ساتھ والے کمرے میں ان کے سونے کا انتظام کیا گیا تھا۔

نو بجے کے قریب' پیر صاحب کی آمد ہوئی۔ مریدوں کا ایک جھنڈ ان کے ساتھ تھا۔ جب انہوں نے کمرے میں قدم رکھا' سب مرید ان کے احترام میں کھڑے ہو گیے۔ بڑے جوش اور نعروں سے ان کا استقبال کیا گیا۔ پیر صاحب پورے جاہ و جلال سے اپنی نشت پر جا بیٹھے۔

سردیوں کے دن تھے۔ پیر صاحب کے لیے' الگ ریشمی لحاف لایا گیا' جو شاید ان ہی کے استعمال کے لیے بنوایا گیا تھا۔ دو آدمی ان کی ٹانگیں اور پاؤں دابنے لگے۔ اس کے بعد' پیر صاحب نے چند لمحوں کے لیے' فوق الفطرت قسم کی باتیں کیں۔ بلاسمجھے ہر کسی نے پرجوش آواز میں سبحان الله سبحان الله کہا۔ پیر صاحب نے سر جھکا لیا اور یوں خاموش ہو گیے' جیسے مراقبے میں چلے گیے ہوں۔ پھر الله اکبر الله اکبر کہتے ہوئے سر اٹھایا اور آنکھیں کھول دیں۔ اس کے بعد' ایک ایک کرکے ان کے مرید' ان کے پاس جا کر سلام کے بعد' نقدی نذر نیاز پیش کرنے کے بعد' اپنے مسائل پیش کرنے لگے۔ وہ تھوڑی دور بیٹھے' اپنے تعویز لکھار کو' کوئی اشارہ دیتے اور سائل کو اس کے پاس بھیج دیتے۔

ہماری دوسری گلی کا رہائشی' احما پانڈی بھی پیر صاحب کے حضور حاضر ہوا' نذر نیاز پیش کرنے کے بعد' قرض سے مکتی کے لیے دعا کی گزارش کی۔ پیر صاحب نے' حسب روٹین اسے تعویز لکھار کے پاس بھیج دیا۔ میں نے سوچا' اگر پیر صاحب' احمے پانڈی کی دی ہوئی نذر نیاز' اپنی طرف سے میدان میں رکھ کر' بیٹھے لوگوں کو اس کی مدد کے لیے کہتے تو اس کا قرضہ اتر سکتا تھا۔ ممکن ہے' ایک آدمی ہی اسے قرضے سے نجات دلا دیتا۔ نذر نیاز اکٹھا کرنے اور تعویزکاری کا سلسلہ رات دیر گیے تک جاری رہا. اس کے بعد دعائے خیر کی گئی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گیے۔

مالک خانہ کا منجھلا بیٹا' میرا دوست تھا۔ رات کافی گزر گئی تھی۔ اس کے اصرار پر' میں ان کے ہاں ہی رک گیا۔ تھوڑی دیر بعد' پیر صاحب بھی اٹھے اور خواب گاہ میں تشریف لے گیے۔ میرا دوست مجھے پیر صاحب کی کرامات سنانے لگا۔ یہ واقعاتی اور داستانی پریڈ کوئی سوا دو بجے ختم ہوا۔ ندیم اٹھا اور ایک لحاف لے آیا۔ ہم اسی میں دبک کر سو رہے۔

میں صبح اٹھنے کا عادی ہوں۔ خیال تھا' آج جلد آنکھ کھل نہ پائے گی' لیکن میں اپنے روٹین کے مطابق' صبح سویرے ہی اٹھ گیا اور اپنے دوست کو بھی نماز کے لیے اٹھایا۔ ہم پیر صاحب کے کمرے کے سامنے سے گزرے' پیر صاحب باخراٹا استراحت فرما رہے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی' پیر صاحب ہم سے پہلے سوئے تھے' لیکن ابھی تک جاگے نہیں تھے۔ شاید نقدی کا نشہ طاری تھا۔ میں نے' پیر صاحب کے کمرے کے دروازے پر' جو تقریبا نیم وا تھا' بااحسن دستک دی۔ وہ بڑبڑا کر اٹھے اور مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔ پھر ایسے بیٹھ گیے' جیسے مراقبے میں چلے گیے ہوں۔ دو تین لمحوں کے بعد لحاف منہ سے ہٹایا اور سرد آہ بھرتے ہوئے فرمایا' میرا ایک مرید' جو سوات میں رہتا ہے' چٹان سے گر پڑا تھا اور مجھے پکار رہا تھا' میں اس کی مدد کے لیے وہاں جا پہنچا تھا۔ ان کی اس یاوہ گوئی سے' ان کی اخلاقی سطح کا اندازہ ہؤ گیا اور میں مسجد کی جانب بڑھ گیا۔

پیر صاحب کے ناشتے کا انتظام میرے سپرد تھا۔ میں نے سوچا' کیوں نا حضرت صاحب کا امتحان ہی لے لیا جائے' چناچہ میں نے چاولوں سے بھری پلیٹ کی تہہ میں' مرغ کی دوٹانگیں رکھ دیں۔ دہی ملی چٹنی کی کٹوری ساتھ میں مرغے کا شوربہ اور سادہ دو کمزور سی بوٹیاں بھی ڈال دیں۔ پیر صاحب میری دیکھنے لگے۔ پھر فرمایا:
بھئی یہ کیا۔

مجھے غصہ آمیز دکھ ہوا۔ حضرت سوات تک کی خبر رکھتے ہیں' لیکن اپنے سامنے پڑی پلیٹ کی تہہ کی خبر نہیں رکھتے۔ جی میں آیا' پیر صاحب کی خوب مرمت کروں' لیکن کچھ نہ کر سکا۔ اگر کچھ کرتا' تو میرا دوست اور اس کے گھر والے' مجھے اٹھنے بیٹھنے کے قابل نہ رہنے دیتے۔ مجھے افسوس ہوا کہ ایسے ناہنجار لوگوں نے' حقیقی شیوخ کو بھی شکوک کی گرفت میں دے دیا ہے اور اس اعلی کردار شعبے کو کمائی کا ذریعہ بنا کر رکھ دیا ہے۔
1969
 

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 184 Articles with 193833 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.