حالات کی سنگینی کو محسوس کریں اور مسٹر مودی کے چہرے سے نقاب اٹھائیں!

بہار قانون ساز کونسل اب شرفاء اورقابل احترام شخصیتوں کی جگہہ نہیں رہی!

ہم نے دشمنوں کے ارادوں کو محسوس کیا،انکی طاقت کا اندازہ لگایا اور اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لیا…… اب ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کا منصوبہ ترتیب دینا ہے۔

بات کو آگے بڑھانے سے چند باتیں ذہن نشیں کر لینی ہوگی۔ ہمارے دوست ایم ٹی خان میری تحریر پڑھنے کے بعد بگڑتے ہوئے فون کرتے ہیں اور بھاجپا آرایس ا یس کا ذکر کرنے پر ناراضگی جتا تے ہیں۔ میں بھاجپا اور آر ایس ایس کے خلاف ۱۹۶۴ سے سرگرم ہوں۔محترمہ سبھدرا جوشی اور ڈی آر گوئل فرقہ واریت مخالف کمیٹی کے بینر کے تلے جب تک زندہ رہے عوام کو بیدار کرتے رہے۔میں کئی برسوں تک بہارکمیٹی کا جنرل سیکریٹری بنا رہا۔گوئل صاحب نے آر ایس ایس کو قریب سے دیکھا تھا کیونکہ وہ آر ایس ایس کی شاخوں سے نکل کر مخالفت پر اتر آئے،سنگھ کی سازشوں کا پردہ فاش کرنے کے لیے کئی کتابیں لکھیں۔
٭ آر ایس ایس کی بنیاد ہی ہندو سماج کو جنونی بنانے کیلئے رکھی گئی تھی۔یہ تنظیم ہندو ہندی ہندوستان کا خواب دیکھتی رہتی ہے۔یہی اس کا بنیادی مقصد اورہدف ہے۔
٭ آر ایس ایس ہندوستاں ن کی سب سے خطرناک تنظیم جس کے سامنے دنیا کی تمام دہشت گرد تنظیمیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔آر ایس ایس کے لیے فساد کرانا،افواہ پھیلانا،جھوٹ کو سچ بنا دینااور نفرت کی کھیتی کرنا اسکا معمول ہے،اس کیلئے معمولی سی بات ہے۔مودی کو ہندوستان پر مسلط کرنے میں آر ایس ایس پوری طرح کامیاب رہی۔مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا اور میڈیا کی طاقت سے خود کو صاف ستھرا بنوا لیا،یہی نہیں آر ایس ایس نے مسلمانوں کے درمیان کام کرنا شروع کردیا۔اسکی نظر ان تمام مسلم رضاکاروں پر ہے جن کے ایمان کی طاقت کمزور ہے اور آسانی سے اپنے قدموں پر کلہاڑی چلانے کی حماقت کرنا جانتے ہیں۔
٭ شیو سینا، ہندو مہا سبھا،بجرنگ دل جیسی تنظیمیں ایمر جنسی کے دوران مضبوط کی گئیں تاکہ آ ایس ایس پر پابندی لگا دی جائے تو یہ تنظیمیں کام کرتی رہیں۔
٭ کانگریس کے زوال کے لیے خود کانگریس ذمہ دار ہے،عوام سے دور ہوئی،اقلیتوں کو دھوکہ دیا،ملک میں فرقہ پرستی کا فروغ دینے کی حماقت کی۔ بائیں بازو کی جماعتیں آپس میں جھگڑکر خودہی سمٹ کر مختصرہو گئیں۔سوسلسٹ دانستہ طور پراین ڈی اے کو فروغ دینے میں لگے رہے۔جارج فرنانڈیزاور شرد یادو اسکی بدترین مثال ہیں۔نتیش کمار۱۷ برسوں تک بھاجپا کی گود میں جگالی کرتے رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نتیش حکومت آج بھی بھگوایجنڈہ پر ہی رواں دواں ہے۔
٭ جماعت اسلامی کے ترجمان دعوت میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے مسلم قائدین پر اعتراض کرنے رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ میرے خیال سے ہمیں اس حقیقت کا اعتراف اس ترمیم کے ساتھ کرنا چاہیے کہ انگلی سیاسی لیڈروں پر اٹھائی جا رہی ہیں جو قوم کے نام سودہ کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔
ہمارے اہداف کیا ہو سکتے ہیں؟
٭ ملک کو فرقہ وارانہ فسادات کے خدشہ سے نجات۔
٭ مسلم اداروں کا تحفظ۔
٭ بے گناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری پر روک۔
٭ اردو زبان کا فروغ اور عربی و فارسی زبان کو ختم کرنیکی سازشوں کی ناکامی۔
٭ جیلوں میں بند بے گناہ مسلم نوجوانوں کی رہائی۔
٭ مختلف بحالیوں میں مسلمانوں کے ساتھ کیے جا رہے امتیازی سلوک پر روک۔
٭ مسلم معاشرے میں پھیل رہے خرافات اور پھیلائی جا رہیں جوا،شراب اور دیگر نشے کی عادتوں کو ختم کرنے کی مہم
٭ مسلکی شدت پسند مولویوں کے خلاف سخت کاروائی تاکہ اتحاد مسلمین برقرار رہے۔
٭ ذات برادی کی لعنت کو کم کرنے کی کوشش٭ہمارے بچے اسکول جائیں اسکی گارنٹی کرنا۔
٭ ایک صالح معاشرہ کی تعمیر کی مخلصانہ کوشش۔

درج بالا اہداف کی حصولیابی کیا ممکن ہے؟ اجتماعیت کی طاقت کا استعمال ممکن ہے؟اگر آپ ممکن سمجھتے ہیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ کیا آپ کے اندر کوئی جذبہ موجزن ہے؟اگر آپ کے اندر کوئی احساس ہے تو مجھ سے بات کریں!

ایک چھوٹا سوال آپ سے۔ شہر پٹنہ کو لیں…… پٹنہ میں تقریباََ ۲۷ وارڈہیں اورہر وارڈ میں ۲۰ افراد پر مشتمل اچھی سوجھ بوجھ رکھنے والے نوجوانوں کی ایک فعال کمیٹی موجود ہے۔ اس کمیٹی میں ۱۰ مسلم ۱۰ غیر مسلم نوجوان شامل ہیں اور کمیٹی ہر ممبر موبائل کی مدد سے ایک دوسرے جڑا ہے۔ یہ بھی تصور کر لیں کہ چند شر پسند عناصر پٹنہ کے کسی محلہ میں بلوا کرنے پر اتارو ہیں،آن کی آن میں ۱۵۵۰ ممبران یعنی۷۲×۲۰ افراد اس علاقے کو گھیر لیتے ہیں اور وہ امن و امان قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو امن قای ئم ہو گا؟ آ گے بڑھنے سے قبل آپ خود سے دریافت کریں اور جواب سے ہمیں اگاہ کریں۔

میرے خیال سے اور آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ فرقہ پرستی کا مقابلہ فرقہ پرستی سے، نفرت کا مقابلہ نفرت و عداوت سے اورتشدد کا مقابلہ تشدد سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اعتدال پسندی کو سختی سے اپنانا ہوگا۔ہمیں پروین تگڑیا اور ادتیہ ناتھ کے جواب اکبر الدین اویسی نہیں چاہیے۔ گاندھی کے ملک میں ہٹلر یا بال ٹھاکرے یاموہن بھاگوت نہیں چاہیے۔

میں نے بہار میں ہوئے بیشتر فسادات کی رپورٹنگ کی ہے اور جائزہ بھی لیا ہے۔ فساد کرانے والے عناصر مسلمانوں کی اس کمزوری سے واقف ہیں کہ مسلمان پل بھر میں مشتعل ہوجاتے ہیں اور لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ تقریباً سبھی فسادات کی ایک ہی کہانی ہے۔ مسلمانوں نے شروعات کی۔

ایسی فضا بنائی جاتی ہے اور ماحول تیار کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان مشتعل ہوکر آگے بڑھیں اور بعد میں ان کی پٹائی جائے۔ فسادیوں کا پہلا نشانہ جان سے زیادہ مسلمانوں کی جائیداد پر نظر رہتی ہے۔ فساد کے پس پشت اصل مقصد مسلمانوں کو معاشی طور پر تباہ و برباد کرنا ہوتا ہے۔

اب ذرا سوچئے کہ بھاگلپور کا فساد1989میں ہوا تھا۔اور آج بھی ایسے خاندان موجود ہیں جو سرکاری وظیفے کے منتظر ہیں۔ وہ نہ تو خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے اور نہ ہی ہم نے انہیں خودکفیل بنانے کی کوشش کی۔ خیرات، معاوضہ اور وظیفہ سے کوئی قوم آگے نہیں بڑھتی۔ اسے خود آگے بڑھنا ہوگا اور آگے بڑھنے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔

ہمیں ایسے نوجوان چاہئیں جن کے اندر دو صفات کا ہونا لازمی ہے…… اول ان کے اندر مشتعل ہونے کا مادہ نہیں ہونا چاہئے اور ہر حال میں اعتدال پسند ہونا چاہئے۔ دوم اپنے کردار کو عام بیماریوں سے الگ رکھنا ہوگا۔

ہماری کمزوری یہ بھی ہے کہ ہم سنتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ میں تجارت کرنیوالے جن لوگوں سے بھی ملتا ہوں ان سے ضرور کہتا ہوں کہ اپنی دوکان کا انشورنس کرا لیں لیکن میری آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی آواز بن جاتی ہے۔کبھی کبھی میں سوچنے لگتا ہوں کہ میں ایسی بات کیوں کہتا ہوں جس پر کوئی عمل کرنا نہیں چاہتا۔آپ کا جواب اگر مثبت ہوا اور آپ میں حوصلہ ہوا تو آئندہ ہم اس لائحہ عمل اور اسکیم کو پیش کریں گے جس سے ہم معاشرے میں انقلاب لا سکیں۔

Reyaz Azimabadi
About the Author: Reyaz Azimabadi Read More Articles by Reyaz Azimabadi : 6 Articles with 3534 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.