معاشرے کی بے حسی کا شکار معصوم بچے

تحریر :سمیرا بابر ( کراچی)
پاکستان کے کروڑوں آبادی والے ملک میں بچوں کے ساتھ بے حسی عروج پر ہیں. معصوم بچے جن کا بچپن حسین اور خوبصورت ہونا چاہیے تھا وہ بچے اپنے نازک کندھوں پر گھر بھر کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں .وہ بچے جن کے نازک ہاتھوں میں کتابیں اور کھلونے ہونے چاہیے تھے. وہ ہاتھ بچپن میں ہی محنت مزدوری سے آشنا ہوگئے ہیں. مختلف جگہوں پر یہ چھوٹے بچے کام کررہے ہیں. ہوٹل . ورکشاپ. بھٹے. اور مختلف اشیاء کے ٹھیلے لگانا... یہ بچے ہر جگہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے یہ بوجھ ڈوھ رہے ہیں. معصوم بچپن گنوارہے ہیں. 11ملین بچے اس ملک میں لیبر چائلڈ ہیں. 14سے5 سال کی عمر کے کڑوڑ 3 2.4000 (73 پر بواء ز ) 9سے 5 کی عمر کے 3.8 ملین بچے جن کا مستقبل اندھیروں میں جکڑا ہوا ہیں. جس ملک کے کروڑوں بچے اسکول جانے کے بجائے محنت مزدوری کرتے ہو وہ ملک کیسے ترقی کرے گا. ان بچوں کی گنتی کرنا مشکل ہیں جنہوں نے آج تک اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی ان کے اندر بیٹھنا تو دور کی بات ہیں. ہمارے ملک میں یہ حق بھی امیروں کے بچوں کے پاس ہیں. اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ان پر ہی فرض کردیا گیا ہیں باھر ممالک کی مہنگی یونیورسٹیوں میں پڑھنا ان پر ہی لاگو ہوگیا ہیں.ہمارے ملک کے نجانے کتنے بچے اپنے علاقے کے اسکولوں میں بھی پڑھ نہیں پاتے .ہمارے بچے ہمارے ملک کے معمار ہیں ان ہی کی بدولت ہمارا ملک ترقی کر سکتا ہیں. اگر ان کی پڑھائی پر مناسب اقدامات کئے جائے تو ان کا مستقبل سنور سکتا ہیں یہ بچے تعلیم کی بدولت ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں. ہمارے ملک کے پھول مرجھا گئے ہیں اس بے حسی کی نظر ہورہے ہیں ان کا بچپن دردناک تکلیفوں میں جکڑا ہوا ہیں بچوں کا بنیادی حق ہیں تعلیم حاصل کرنا انہیں ان کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا... 17 وی صدی سے 19وی صدی تک کے عرصے تک ورک ہاوس (کارخانوں ) میں بچوں کو بھیجا جاتا ہے مغربی ممالک میں بھی یہ زہر پھیلا ہوا ہیں یہ زہر مغربی ممالک کے بچوں کا بھی مستقبل چاٹ رہا ہیں ان سے کام پچھلے دور میں بھی لیا جاتا رہا ہیں اور آج تک لیا جاتا ہیں ماں کی گود سے نکل کر یہ بچے معاشرے کی بے حسی کا شکار ہورہے ہیں ہمارے حکمران ٹھنڈے کمروں سے نکل کر ان بچوں کے چہرے پڑھنے کی کوشش تو کرے یہ بچے محنت مزدوری کر کے کیسے وہ قرض چکارہے ہیں جو ان پر واجب ہی نہیں .ہمارے ملک میں تعلیم کی سہولیات غریب بچوں کے لئے خواب سے ذیادہ کچھ نہیں جو نجانے کب پایا تکمیل کو پہنچے گا گاؤں دیہاتوں میں دن رات ان بچوں سے کم اجرت پر کام لیا جاتا ہیں. ہماری حکومت کی کمزوری ہیں جہاں پھولوں کو علم کی روشنی سے روشناس ہونا چاہیے تھا وہ پھول مشقت کے عذاب سے دوچار ہیں یہ چھوٹے اپنے گھر کے بڑے بنے ہوئے ہیں . آج تک ہمارے ملک میں چائلڑ لیبر پر کوء قانون پاس نہیں ہو سکا...پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ اور بہتری کے لئے کام کرنے والی مزدور تنظیمیں .لیبر فیڈریس .یونیز این جی اوز اور بالخصوص مزدوروں کے حقوق کی علمدار آئے ایل او کے ہوتے ہوئے ملک کے معماروں کی زندگی ان لوگوں پر طمانچہ ہیں. بچوں کی مزدوری کے خاتمے پر کروڑوں روپے پھونکنے کے باوجود آء ایل او اور وزارت محکمہ کے ادارے جبری مشقت کے خاتمے کے ہدف تک بھی نہ پہنچ سکے ... آہین کی شق 11 کے تحت ہر قسم کی مشقت اور انسانوں کی خریدو فروخت ممنوں ہیں 1780 سے 1890 تک کے عرصے میں مشقت کا سلسلہ عروج پر تھا-
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1041373 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.