دعاّ ہے قصور کا واقعہ ہی ہمیں باشعور قوم بنا دے

لاہور میں کئی سالوں پہلے اقبال نامی نفسیاتی مریض( جلاد) کی جانب سے بچوں کے ساتھ شرمناک سلوک اور انہیں قتل کردینے والے انکشاف کے بعد پاکستان کی تاریخ کا یہ دوسرا شرمناک واقعہ ہے۔اس وقت الیکٹرونک میڈیا عام نہیں تھا لیکن اب ضلع قصورکے گاؤں حسین والا میں ہونے والے انسانیت سوز،شیطانیت کا شکار ہونے والے بچوں کا ذکر 24 گھنٹے ٹی وی پر ہو رہا ہے اس حیا سوز اور ظالمانہ خبر کو کیسے میں اپنے بچوں کے ساتھ ٹی وی پر دیکھوں اس لیے انہیں سامنے سے اُٹھا دیتا ہوں یا ٹی وی بند کر دیا کرتا ہوں جب کہ میں جانتا ہوں میرے اس رویے سے بچوں کے ذہن میں جو سوالات جنم لے رہے ہیں وہ بھی انکی تربیت پر اثر انداز ہوں گے ۔آخر ہم کب شعور کی اس منزل پر پہنچیں گے جب ہم خود اخلاقیات،سماجیات کی اعلیٰ اقدار پرعمل کریں؟کیا ہمیں ذرا بھی ادراک نہیں کہ اس قسم کے واقعات بچوں پر کیا اثرات مرتب کریں گے ۔ چند سال پہلے دہشتگردی کی خوفناک ویڈیوز اور تصاویر دکھانے اور چھا پنے پر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر پابندی لگائی گئی تھی کیا اس واقعہ کے بعد بغیر پریس ایڈوائس ریٹنگ کا کھیل بند نہیں ہوسکتا ؟اب یہ خبر بچے بچے کی زبان پر ہے جس بچے کو ہم جنسی کا پتہ نہیں تھا آج وہ بچہ بھی ہم جنسی کی بات کرتا ہے یہ ہمارے میڈیا کی مہربانیاں ہیں آخر ہم کس سمت کی جانب گامزن ہیں؟ جہاں یہ واقعہ ہو اہے وہ نگری تو بابا بلھے شاہ کی ہے جنہوں نے اپنی زندگی انسانیت کا درس د ینے میں وقف کر دی ، سیاست دانوں کو بھی میدان سیاست میں ایک اور نئی گیند مل گئی خوب تھوک لگا کر چمکا کر دوسرے کو آؤٹ کرنے کوشش جاری ہے، حکومت اپنی ذمہ داریاں ایک بار پھر جوڈیشل کمیشن کے سر ڈالنا چاہتی تھی جسے درست طور پر عدالت عالیہ لاہور نے مسترد کردیا۔ یہ واقعہ پنجاب میں آشکار ہوا اس لیے پنجاب حکومت اور مسلم لیگ(ن) معتوب قرار دی جاسکتی ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ سندھ میں’’ کارو کاری‘‘ سرائیکی و بلوچ پٹی پر ’’ونی‘‘ اور کے پی کے میں جرگہ کے نام پر جو ظلم کیا جاتا ہے اسکا عشر عشیر بھی میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتا پوائنٹ اسکورنگ کیلئے ایسے ایشوز اچھے ہیں لیکن جس جانب ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے اس جانب کوئی دیکھنے کو تیار نہیں ہے دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ظلم پنپ رہاہے ظالم مضبوط ہو رہا ہے ہم اپنے مذہبی اور معاشرتی اقدار کے اعتبار سے کتنا گر چکے ہیں کونسی برائی ہم میں موجود نہیں ہے ریاستی قانون کو ہم گھاس نہیں ڈالتے مذہبی اعتبار سے ہم دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ کیا ہم جنگل میں رہ رہے ہیں ؟جہاں کوئی قانون نہیں ہوتا جہاں کسی کو کسی کی تمیز نہیں ہوتی ۔یہ واقعہ قصور کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ ہر حوالے سے ہم بھول رہے ہیں کہ ہم ا خلاقی زوال پذیری کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں اس صورتحال میں اگر ہم تاریخ کے اوراق کو کھولنے کی جسارت کریں تو ایسی قوموں کے لئے اﷲ کا عذاب لازمی ہوتا رہا ہے جیسے قوم لوط کے لئے اﷲ کا عذاب اس قوم پر پتھروں کی بارش ہوئی اور قوم لوط کا نام و نشان تک باقی نہ رہا اور آج ہم ماضی کی تباہ شدہ تہذیبوں کے لوگوں سے عبرت پکڑنے کے لئے تیا ر نہیں ہیں ۔کیوں؟ کیا نشاتہ ثانیہ پر فخر صرف زبان درازی کی حد تک ہے؟ترقی یافتہ دنیا نے جس علم سے ترقی کی منازل طے کیں جس کا ذکر کرتے ہم نہیں تھکتے کیا صرف ذکر کیلئے ہے؟ اور یہ کہ ہم جس امّت کا حصہ ہیں وہ صرف منبروں تک محدود ہے ،اﷲ کی کتاب اور رسول ﷺ کی سنّت صرف بحث جیتنے کیلئے ہے؟ یہ سوالات ہیں جن پر ہمارے مستقبل کا دارو مدار ہے ۔
اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا ہے

Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91963 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More