بھارت کے بھگت

قیام پاکستان کیلئے ہم ایک متحداورمنظم قوم بن گئے تھے اورہمارے پاس محمدعلی جناحؒ کی صورت میں ایک متفقہ قائد تھا ۔کوئی قوم اپناقائدپیدانہیں کرتی بلکہ ہجوم میں سے قائدابھرتااوراس ہجوم کوایک قوم بنادیتا ہے ۔پاکستان معرض وجودمیں آیاتوہمارامحبوب ومدبرقائدؒ ہم سے جداہوگیا جبکہ اقتدارپرست '' بونوں''نے مادروطن کوتختہ مشق بناتے ہوئے ہماراشیرازہ بکھیردیا ۔ہوس اورنفس کے پجاریوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدبنالی اوردشمن کامقابلہ کرنے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے جبکہ عوام کوبھی اس آگ میں جھونک دیا۔ہرکوئی اقتداراوراختیار تک رسائی کیلئے چورراستہ تلاش کرتارہا۔کسی نے مذہب توکسی نے مسلک کی بنیادپرجماعت بنالی ۔کوئی برادری توکوئی زبان کے نام پرسیاست چمکا نے لگا۔کسی نے صوبائیت توکسی نے منافرت کاعلم اٹھا لیا۔کوئی دائیں بازوتوکوئی بائیں بازوکالبادہ اوڑھ کرعوام کے جذبات سے کھیلتا اورانہیں کچلتارہا ۔ جوبھی اقتدارمیں آیاوہ پاکستان کے وسائل کوشیرمادرسمجھتارہا ،عوام نے بھی شخصیت پرستی کواپنامقصدحیات بنالیااورچندسرمایہ دارخاندانوں کی غلامی قبول کرلی ۔جوہزاروں لوگ دہشت گردی کے نتیجہ میں لقمہ اجل بنے اگروہ اس سرمایہ دارانہ اورآمرانہ نظام کیخلاف جدوجہدکرتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے تویقیناان کے آنیوالے بچوں کامستقبل روشن ہوجاتا ۔قیام پاکستان کیلئے ہمارے باپ دادانے خون بہایاتھااگر استحکام پاکستان کیلئے ہم نے خون نہ بہایاتو شدت پسند آدم خور ہمارے بچوں کاخون بہاتے رہیں گے۔محمدعلی جناح ؒ کے انتقال سے اب تک عوام کااستعمال اوران کااستحصال کیا جارہا ہے جبکہ عوام بھی اس گلے سڑے نظام کے عادی ہوگئے ہیں ۔پاکستان میں کبھی حکومت گرانے اورکبھی حکومت بنانے کیلئے کئی سیاسی اتحاد بنے جبکہ مخلص اورمدبرقیادت نہ ہونے کے سبب عوام سیاسی طورپریتیم اور تقسیم درتقسیم ہوتے چلے گئے ۔چندسیاسی خاندانوں کوبار بارآزمانے اوران کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے باوجود نوے فیصد عوام کوشعورنہیں آیا اور سترسے پچاسی فیصد پاکستانیوں کوقیامت تک شعورنہیں آئے گا۔ملک پرقابض چند سرمایہ دارخاندان نسل درنسل برسر اقتدار آتے رہیں گے ۔ ہرانتخابات میں سیاسی پارٹیوں نے اپنااپنانیا منشورپیش کیا مگر چہرے پرانے ہیں۔آج تک پاکستان میں بدعنوان عناصر کابے رحم احتساب ہوااورنہ شفاف انتخاب کے نتیجہ میں کوئی حکو مت بنی ۔قومی معیشت کی طرح بیچارے عوام کو بھی بدحالی کاسامنا رہاجبکہ حکمران طبقہ ترقی اورخوشحالی کے تخت پربراجمان ہوگیا ۔مگر اس کے باوجودمیں پاکستان اورپاکستانیوں کے روشن مستقبل کیلئے پرامید ہوں مگرانہیں ووٹ کی پرچی سے ان نظام کے پرخچے اڑاناہوں گے۔

اسلام دین فطرت اورکامل ضابطہ حیات ہے ،قرآن مجید فرقان حمید میں انسانوں کیلئے ہرموضوع پررہنمائی دستیاب ہے ۔ جب کوئی مسلمان سفرپرنکلتا اوراپنے گھر سے مخصوص فاصلہ طے کرتاہے تواسے مسافر کی حیثیت سے پندرہ روزتک نمازقصر اداکر ناہوتی ہے جبکہ پندرہ دنوں بعدوہ مقیم بن جاتاہے لیکن اگر ہم اس ارادہ اور نیت کے ساتھ کسی دوسرے شہر جائیں کہ وہاں پندرہ روزسے زیادہ قیام کر ناہوتواس صورت میں منزل مقصود پرپہنچ کرہم مسافر سے مقیم کے طورپر پوری نمازاداکریں گے لہٰذاء اس اصول کے تحت تقسیم ہند کے وقت ہمارے باپ دادانے پاکستان میں مستقل بنیادوں پر قیام کرنے کی نیت سے اپنے عزیزواقارب اورمال واسباب سمیت ہجرت کی اسلئے وہ پاکستان کی سرزمین پرآجانے کے بعد مہاجر سے مقیم بن گئے ۔مہاجرین ہمارے افغان بھائی تھے جواپنے ملک میں کشت وخون کے سبب پناہ کیلئے عارضی طورپر پاکستان چلے آئے اورپھرواپس چلے گئے۔ہمارے ملک میں وہ مہاجرتھے جبکہ اپنے ملک چلے جانے کے بعدوہ مہاجرنہیں رہے۔اﷲ تعالیٰ کے حکم پرسرورکونین حضرت محمدؐ نے بھی مکہ شریف سے مدینہ منورہ ہجرت کی تھی جبکہ آپ ؐ نے زندگی میں ایک حج کیا مگرتاریخ میں انہیں کبھی حاجی اورمہاجرنہیں لکھاگیا ۔مکہ شریف پر اسلام کاپرچم لہرانے کے بعد آپ ؐ پھرمدینہ منورہ چلے آئے اور یہی شہرا ن کامسکن اورمدفن بنا ۔

تعجب ہے الطاف حسین برطانوی پاسپورٹ ملنے پرصرف بارہ سے چودہ سال میں وہاں کے شہری بن گئے جبکہ تقریباً68برسوں بعدبھی پاکستان میں ان کے کارکنان یہاں کے شہری نہیں بن سکے۔الطاف حسین نے برطانوی آئین وقانون کی پاسداری اورملکہ برطانیہ کے ساتھ وفاداری کاحلف اٹھایا مگر ان کے حامی پاکستان کے آئین وقانون کی دھجیاں بکھیرتے جبکہ الٹادشمن ملک بھارت کومددکیلئے پکارتے ہیں ۔ تقسیم ہند کے وقت ہجرت کرکے پاکستان آنیوالے کروڑوں لوگ پاکستان کے مختلف صوبوں اورشہروں میں آبادہوئے جبکہ ایم کیوایم کوآج تک کبھی مجموعی طورپر پچاس لاکھ ووٹ نہیں ملے۔اگرمہاجروں کے حقوق کی بات کی جائے تومیاں نوازشریف کاخاندان بھی بھارت سے آیااوروہ تیسری باراس ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔مہاجرہونے کی بنیادپرکبھی کسی کومحرومی کاسامنا نہیں رہا ۔ انڈیا کی تقسیم زبان یارنگ نہیں بلکہ دوقومی نظریہ کی بنیادپر ہوئی تھی،جوآزادی پسندتھے وہ خون کے دریاعبوراورمختلف خطرات کاسامناکرتے ہوئے پاکستان چلے آئے جبکہ وہاں رہ جانیوالے آج بھی اپنے عاقبت نااندیشانہ فیصلے کی قیمت چکارہے ہیں۔بھارت کے مسلمان شہریوں کوآج بھی وہاں بدترین تعصب ،تشدد،نفرت،شر ،شکوک وشبہات اورفسادات کاسامنا کرناپڑتا ہے۔وہ آزادہوتے ہوئے بھی آزاد ،محفوظ اورپرسکون نہیں ہیں۔ ایم کیوایم والے پاکستان میں پہلے درجے کے شہری ہیں جبکہ بھارتی مسلمان اچھوت ہندوؤں سے بدترزندگی گزاررہے ہیں ۔ پچھلے دنوں سندھ کی سرزمین سے کچھ جذباتی ہندوخاندان بھارت چلے گئے تھے مگرانہیں وہاں قبول نہیں کیا گیا تو ایم کیوایم کے افرادکوکس طرح برداشت کیا جائے گا۔بھارت فطری طورپر پاکستان کادشمن ہے اورقیامت تک دشمن رہے گا،ان دونوں ملکوں کے درمیان کبھی برابری کی بنیاد پرمثبت تعلقات استوارنہیں ہوسکتے مگربدقسمتی سے پاکستان کے سیاسی حکمران اس حقیقت کوتسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں،سوبھارت جوپاکستان کادشمن ہے وہ پاکستانیوں کادوست کس طرح ہوسکتا ہے،بھارتی حکمران پاکستان پروارکرنے کیلئے مقامی افرادکواستعمال کرتے ہیں ۔جوعناصربھارت سرکار کیلئے پاکستان کیخلاف استعمال ہورہے ہیں وہ بھارتی مسلمانوں کی حالت زارکویادرکھیں۔

حضرت علی ؓ نے فرمایاتھا''لفظ انسان کے غلام ہوتے ہیں مگرصرف بولنے سے پہلے تک،بولنے کے بعدانسان اپنے الفاظ کاغلام بن جاتاہے''۔ پاکستان کیخلاف زہراگلنا جس تھالی میں کھانااسی میں چھیدکرنے والی بات ہے۔دنیا کے کسی اورملک میں اس طرح نہیں ہوتا،ہرکوئی اپنے اپنے وطن پرجان چھڑکتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں آج بھی کچھ اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں جوتقسیم ہندکوسازش قراردینے سے بازنہیں آتے ۔الطاف حسین یقیناجان بچانے کیلئے اپنے کارکنون کو چھوڑکربرطانیہ چلے گئے تھے اوران کی جماعت تقریباً ہروفاقی اوربالخصوص سندھ حکومت کی اتحادی رہی اورپچھلے گیارہ بارسال سے سندھ کاگورنرالطاف حسین کاوفادارہے مگرموصوف کبھی پاکستان واپس نہیں آئے ۔ الطاف حسین برطانیہ کے شہری ہیں ،انہیں پاکستان اوراس کے قومی اداروں کوتنقیدکانشانہ بنانے کا حق کس نے دیا ۔انہوں نے تقریرکرتے ہوئے پاکستان اوراس کے وفاعی اداروں پرانگلی اٹھائی جبکہ ان سے محبت کاپیغام سردارایازصادق کی وساطت سے دیا۔سردارایازصادق کی زبان سے الطاف حسین کے جذبات کی ترجمانی ناقابل فہم ہے، اپنے توہین آمیز جملوں اورحملوں کی وضاحت الطاف حسین خودکیوں نہیں کرتے ۔کیاوہ برطانوی شہری ہونے کے باوجود لندن میں بیٹھ کربرطا نیہ کی افواج اوراس کے دفاعی اداروں پر اشتعال انگیزطرح حملے کرسکتے ہیں کیونکہ کچھ جملے حملے سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ۔پاکستان نے الطاف حسین کوکیا کچھ دیا اوربدلے میں الطاف حسین نے پاکستان کوکیا دیا ،یہ سب پرعیاں ہے۔ پاکستان نے الطاف حسین کوشہریت اورشہرت دی،اختیاراوراقتداردیا ۔کراچی پاکستان کامعاشی مرکز ہے وہاں حقوق اورحق پرستی کے نام پر جوکچھ ہوا وہ فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔پاکستان کے اندرپاکستان کاقومی پرچم نذرآتش کیا گیا ، گھٹیاجملے استعمال کرکے دوقومی نظریے پرحملے کئے گئے۔کئی'' بونے ''بابائے قوم ؒ کیخلاف ہرزہ سرائی کرتے رہے مگرکسی کوسزانہیں ملی ۔اگرکوئی بدبخت ہماری ماں کوگالی دے توہم مرنے مارنے پرتل جاتے ہیں لیکن اگرکوئی ہماری مادروطن کوگالی دے توہم رسمی مذمت پراکتفاکرتے ہیں ۔بی بی سی کی حالیہ رپورٹ کوبے بنیادقراردیاجاسکتا ہے مگرالطاف حسین کے ''اقبال''کومستردنہیں کیا جاسکتا۔

مختلف طبقات کی طرف سے ماضی میں بھی متحدہ کی پرتشدد سرگرمیوں پرشکوک وشبہات اورغم وغصہ کااظہارکیا جاتارہا ہے مگر الطاف حسین کی حالیہ متنازعہ تقریر میں ان کاپاکستان بارے خبث باطن اوربھارت سے تعلق پوری طرح بے نقاب ہوگیا۔اس کے بعدریاست موصوف کی معذرت یا اس حساس ایشوپرمزیدکسی مصلحت کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ جوبھارت کے بھگت ہیں وہ شوق سے واپس چلے جائیں ۔ بھارتی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مہاجرو ں کانام استعمال اوران کااستحصال کرنیوالے صرف ان کے نہیں پاکستان کے بھی دشمن ہیں۔ متحدہ کے اسمبلی ارکان اورکارکنان کے پاس اس ملک کی شہریت ہے اورانہیں کراچی میں اہلیان لاہور کے مساوی حقوق دستیاب ہیں ۔ ہمارے باپ دادابھی ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے مگروہ کبھی الطاف حسین کے حامی نہیں رہے اورنہ ہم ان کے فلسفہ سیاست سے متفق ہیں۔ جوبھارت کواپنادوست اورہمدردسمجھتا ہے اس سے بڑاکوئی نادان نہیں ۔ الطاف کی تقریر پرحکومت کاری ایکشن اورایکشن تسلی بخش نہیں،کیونکہ یہ زہرافشانی محض قابل مذمت نہیں بلکہ قابل گرفت ہے۔دشمن ملک کیلئے کام کرنیوالے عناصر کراچی یالندن سمیت دنیا میں جہاں بھی روپوش ہوں انہیں قرارواقعی سزادی جائے ۔ ماضی کی طرح اس باربھی رسوائی اورپسپائی پاکستان کے دشمنوں کامقدر بنے گی ۔سقوط ڈھاکہ کی سازش میں شریک کرداروں کاشرمناک انجام ہرگز فراموش نہ کیا جائے۔ بھارت کے وظیفہ خور نمک حلالی کیلئے پاکستان کی سا لمیت پرضرب لگاتے ہیں مگر وہ اس سرزمین کاکچھ نہیں بگاڑسکتے ۔ 68برس بعدبھی خودکومہاجرکہنا منافرت اورمنافقت کی انتہاہے۔الطاف حسین کی ہرزہ سرائی غیورپاکستانیوں کی حمیت کوللکارنے کے مترادف ہے۔کوئی پاکستانیوں کو گولی مارے یاگالی دے تو وہ چپ رہ سکتے ہیں مگروہ اپنے مادروطن کوگالی برداشت نہیں کرسکتے۔پاکستان نے ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں آنیوالے ہربچے کو کسی تعصب کے بغیراپنے سینے سے لگایااوراپنادودھ پلایا مگرکچھ نافرمان اورشیطان اسی ماں کوخون چوس رہے ہیں۔

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126522 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.