14 اگست 1947ء

قوموں کی زندگی میں ایسے یادگار دن نفش ہوجاتے ہیں۔ جنہیں عرصہ بیت جانے پر بھی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ یہ وہ تاریخی دن ہوتے ہیں۔ جن کے سامنے موت بھی بے بس دکھائي دیتی ہے۔ 14 اگست 1947ء کا دن بھی بڑی منفرد اہمیت کا حامل دن تھا۔ جیسے قیام سے لے کر آج تک یاد رکھا جاتا ہے۔ اور تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کا پر زور مطالبہ تھا کہ ہند کے وہ علاقے جہاں اکثریت مسلم کی ہیں۔ انہیں ہندوستان سے الگ کرکے آزاد خود مختار ریاست بنائی جائے اور اسکا آئين اور نظام اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہوں۔ اور کسی قسم کی مداخلت نہ ہوں۔ بس پھر کیا تھا۔ قدرت نے اس قوم کو ایسے عظیم رہنما سے نوازہ کہ عظیم پر خلوص شخصیت دین محمد کا سپاہی بانی پاکستان قائد اعظم محمد جناح نے پوری قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے ڈٹ گے۔ کامل ایمان پختہ یقین سے بھرپور مسلمانوں کے تصور اور عزم کو قدرت نے پزیرائی بخشی اور پاکستان دنیا کے نقشہ پر ابھرا۔ یہ معرکہ کوئی معمولی نوعیت کا نہیں تھا۔ یہ معرکہ ہر لہاظ سے نا ممکن تھا۔ لیکن قوم کے عزم راسخ اور یقین محکم نے ایک پر خلوص قیادت کے زیر اثر اس خواب کو حقیقی تعبیر بخشی۔
{قا‏ئداعظم کا فرمان}
کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا۔ بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں۔

{اسلامیہ کالج پشاور 13 جنوری 1948ء}
اسی دن کی بدولت اقوام عالم نے پاکستان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا۔ مادر وطن کی آزادی کی تاریخ بڑی طویل صبرآزما اور خون سے رنگین ہے۔ مسلمانوں نے اس سر زمین کو حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ آزادی کا حصول آسان معرکہ نہیں ہوتا اسکے لیے قربانی اور ایثار پیش کرنا ہی پڑتا ہے۔ مگر حصول پاکستان کے لیے ہمارے آبائو اجداد نے جس قسم کی قربانیاں دیں ہیں۔ اسکی مثال اقوام عالم کی تاریخ میں بہت کم ملیں گی۔ کیونکہ ہماری آزادی کا باب خون سے رنگين ہے۔ خون میں لت پت ڈھیروں قافلے لاشیں لیے اپنا تن من دھن قربان کرکے اپنے غموں کو فراموش کرکے نعرہ تکبر اللہ ہو اکبر صدائيں اور پاکستان زندہ باد کے نعروں کے ساتھ جوش و جذبے سے سرشار ہو کر اس نئی مملکت میں داخل ہورہے تھے۔ ہند کے مسلمان غلامی کی ذلت سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ غلامی کے حلوے سے آزادی کی سوکھی روٹی بہتر ہوتی ہے۔ یہ آزادی ہند کے مسلمانوں نے بڑی ہمت پختہ عزم حوصلے اور جدوجہد کے بعد حاصل کیں۔ تھیں۔ آزادی کا یہ قافلہ بڑی کٹھن منزلوں سے گزر کر منزل مقصود تک پہنچا تھا۔ ہر سال یوم پاکستان کے موقع پر جب بھی آزادی کی داستان رقم کیں جاتی ہیں۔ قلم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ آںکھوں میں ساون بھادو کی جھڑی لگ جاتی ہیں۔ 14 اگست 1947ء کو منظر دل و دماغ میں فلم کی مانند چلنے لگتا ہے۔ آزادی کی شمع پر لاکھوں پروانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ جیسے وطن عزیز کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
{قا‏ئداعظم کا فرمان}
قدرت نے آپ کو ہر نعمت سے نوازہ ہے۔ آپ کے پاس لا محدود وسائل موجود ہیں۔ آپکی ریاست کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اسکی تعمیر کریں۔ بلکہ جدو جہد اور عمدہ سے عمدہ تعمیر کریں۔ سو آگے بڑھتے اور بڑھتے ہی جاہیے
{پاکستان کی پہلی سالگیرہ پر پیغام 1948ء}

آزادی کی قدرو قیمت وہی لوگ جانتے ہیں۔ جنہوں نے غلامی کے اندھیرے اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھے ہوں۔ جنہوں نے ظلم و ستم کے دریا عبور کیے ہوں جنہوں نے آزادی کی جستجو میں خون اور آگ کے سمندر پار کیے ہوں۔ جنہوں نے چراغ آزادی اپنے خون سے روشن کیے ہوں۔ وہی آزادی کی قدرو منزل کو جانتے ہیں۔ اور وہی لوگ غلامی کی لغت کو بھی جانتے ہیں۔ سونی دھرتی کی حفاظت بھی اپنے خون سے کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ حصول پاکستان کے لیے جس قدر جدو جہد محنت اور عمل کیا گیا تھا وہ آج تک پوری دنیا جانتی ہیں۔ اور یہی نہیں قیام پاکستان کے بعد دشمن ملک بھی پاکستان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے۔ اور ہمارے آبائو اجداد دنیا میں ایک نئی مملکت قائم کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ حصول پاکستان کے لیے ہند کے مسلمانوں کی ہمت جرات بے مثال قربانی ایثار سیاسی حکمت عملی سیاسی بصیرت علماء دین کی فہم و فراست اولیاء کرام کی کرامات اور قائداعظم کی دانش و بصریت علامہ اقبال کا تفکر مسلم قوم کا نصب العین یقین و محکم شامل تھا۔ تحریک آزادی میں ایسے عظیم دانشمند انسان تھے جنہوں نے اپنی انتھک شب و روز کی محنت لگن اور کاوشوں سے آزادی کے سفر کو منزل مقصود پر پہنچایا۔
{قا‏ئداعظم کا فرمان}
ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے۔ اتنی ہی زیادہ پاکیزہ خالص اور مضبوط قوم کی حثیت سے ابھریں گے جیسے سونا آگ میں تب کر کندن بن جاتا ہے،
{24 اکتوبر 1947ء}

یہ آزادی ایک خاص مقصد نصب العین اور نظریہ کے تحت حاصل کیں تھیں۔ کہ مسلمان قوم دیگر غیر مسلم اقوام سے الگ رہے اور ہمارا مذہب ہماری تہزیب ہمارا تمدن ہماری زبان لباس اخلاق اور رسم و رواج اسلاف وغیرہ دوسری قوموں سے ہمیشہ جدا رہے۔ لہزہ مسلمان کبھی بھی غیر مسلم اقوام کے ساتھ نہیں رہے سکتے۔ اور نہ مرغم ہوسکتے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو ایک الگ وطن چاہیے تھا جس میں وہ اسلامی ضابطہ حیات کے تحت اپنی زندگی گزار سکے۔ اور ان پر کسی کی بالا دستی نہ ہوں۔ آج اللہ کے فضل سے پاکستان تمام قدرتی نعمتوں دولتوں سے مالا مال ہیں۔ ہر جانب دولت کی ریل پیل کارخانے صنعتیں کوٹھیاں محل سر فلک عماریتں بڑے بڑے تجارتی مراکز زریخیز زمینیں ہھری بھری فصلیں بہتے دریا سمندر آبشاریں اور قدرت کے حیسن نظارے ہیں۔ اگر نہیں ہے تو آج اس قوم میں جذبہ انسانیت احترام نہیں ہے اتحاد اتفاق نہیں ہے روح نہیں ہے۔ دل نہیں ہے احساس مروت نہیں ہے۔ جو پاکستان کے وجود میں آتے وقت ہمارا اہم اثاثہ تھا۔ ہماری پہچان اور شناخت تھی، ہمارے اکابرین اور عظیم قیادت نے جو خواب دیکھا تھا۔ اس ملک کو خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔
قا‏‏ئداعظم کا فرمان
میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سر بلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مرو کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہوں کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کیں۔ اور مسلمانوں کی آزادی تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔
{خطاب آل انڈیا مسلم لیگ کونسل21 اکتوبر 1939ء}

ایسے اسلام کا گہوارہ بنائيں گے۔ ایک اللہ ایک رسول اور ایک قرآن کے نام پر اسلام کا مضبوط قلعہ بنائيں گے۔ مگر اس مادر وطن کی بد قسمتی رہی کہ قیام کے چند سال بعد ہی یہاں فرقہ واریت کا بازار گرم ہونے لگا سیاسی اور انتہا پسند جماعیتں منظر عام پر آنے لگی۔ اسلام کے نام نہاد لیڈروں نے اسلام پھیلانے کے بجائے اسلام کو بطور ہتھیار بنادیا۔ غربت اور افلاس کو پیدا کرکے عوام کو جرائم کی راہ دیکھائی۔۔ ملکی دولت اور اثاثہ جاگیر داروں سرمایا داروں کے گھروں کی لونڈی بن گیا۔ یہی خاندانی طبقہ آج تک ملک پر قابض ہیں۔ غریب آج غربت کی چکی میں مکمل پس چکا ہے۔ یہ پاکستان آج غریب کا نہیں امیر کا پاکستان ہے۔ غریب ساری زندگی بھی محنت سے اپنا گھر نہیں بنا سکتا۔ جبکہ جاگیر داروں کی ہر صوبے ہر شہر میں محل کوٹھیاں ہیں۔ محنت غریب کرتا ہے۔ پھل اسکا جاگیر دار کھاتا ہے۔ اس ملک میں آج لا تعداد میر قاسم اور میر جعفر موجود ہیں۔ جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے ملکی سلامتی کو دائوں پر لگارہے ہیں۔ 68 ویں یوم آزادی کے موقع پر اللہ پاک اس پاک سر زمین کو تا قیامت تک قائم و دائم رکھے آمین۔
{قائداعظم کا فرمان}
مجھ سے اکثر پوچھا جاتا تھا کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا۔ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں مسلمانوں کے طرز حکومت کا تعین تو آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا تھا۔ الحمد اللہ قرآن کریم ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک رہے گا۔
{ آل انڈیا 15 اکتوبر 1942ء}
 
mohsin noor
About the Author: mohsin noor Read More Articles by mohsin noor: 273 Articles with 244289 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.