وادیٔ کشمیرسے یکجہتی کا پیغام

سیاسی تجزیہ نگاروں کی متفقہ رائے تھی کہ افغانستان میں مداخلت کے بعدروسی استعمار کی ٹوٹ پھوٹ کے بعدامریکاکا دنیاکی واحدسپرپاوربننے کادیرینہ خواب شرمندۂ تعبیرہو گیاہے اوراب وہ تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایسی غلطیاں نہیں دہرائے گا جس کی بناء پراسے بھی ہزیمت اٹھانی پڑے لیکن طاقت کانشہ اسے افغانستان کے انہی میدانوں میں رسوا ہونے کیلئے لے آیااورہزاروں تابوتوں اورکھربوں ڈالرکے نقصان کے بعدانہی بوریانشینوں مجاہدوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہاہے لیکن حیرت تواس بات کی ہے کہ برہمن بھی اس خطے میں خودکو ایک نئی استعماری قوت سمجھتے ہوئے اکھنڈبھارت کاخواب دیکھ رہا ہے لیکن نجانے وہ یہ کیوں بھول رہاہے کہ اس خطے میں چین ان دواستعماری قوتوں (امریکااوربھارت) کیلئے ایک ایساطاقتورکھلاڑی کے طورپرابھراہے کہ جس نے عالمی سیاست میں توازن پیداکرنے کیلئے خود کوانتہائی محتاط اندازمیں میدان میں اتاردیا ہے۔امریکی استعمار نے اپنے بغل بچہ استعماربھارت کوجدید ترین''خدشات'' کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ بہتررویہ اپنانے کاانتباہ کیاتو اوباماکے مودی بھائی نے عین اشتعال کے عروج پرسے الٹی زقندلگاکر''پیارو محبت ''کی باتیں شروع کردی ہیں۔دونوں ہمسایہ ممالک کے اندرموجودہ استعمارنوازوں نے بھی یوٹرن لے لیاہے۔اصل سبب دورکیے بغیر تعلقات بہتر بنانے کی باتیں کرنے والے پھربے تکان بول رہے ہیں۔بانکی مون بھی متاثر ہوئے اوربیان دے ڈالاکہ پاکستان اوربھارت مسئلہ کشمیرکے مابین بہترتعلقات کی شرطِ اوّل ولازم متنازع کشمیرکاحل ہے مگرہم بانکی مون اوردلچسپی رکھنے والے دیگرحضرات گرامی کی خدمت میں چندحقائق پیش کرتے ہیں جو تنازع کشمیرکے حل کیلئے مطلوب اقدامات بے نقاب کریں گے۔ان اقدامات کا سہرابھارت سرکارکے سربندھتاہے ۔

جموں وکشمیرمیں پیپلزڈیموکریٹک فرنٹ اوربھارتیہ جنتاپارٹی کی مخلوط حکومت کے پہلے تین ماہ عدمِ اعتماد، غیریقینی اورافراتفری سے ہواہے۔دونوں جماعتوں کے درمیان وسیع نظریاتی اختلافات کے باعث تضادات ہونالازمی تھے مگربھارتی انتہاپسندوں کہ شہہ پرجس طرح اس خطے میں مسلم اکثریتی آبادی کو نیچادکھانے اورانہیں احساسِ کمتری میں مبتلاکرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔اس کاانجام مخلوط حکومت کے علاوہ پورے خطے کیلئے خطرناک ہوگا۔چاہے بھارتی آئین دفعہ٣٧٠(کشمیرکی خصوصی پوزیشن)ختم کرنے کا مطالبہ ہویاکشمیرکے قلب میں مخصوص ہندوبستیاں بسانے کامعاملہ ،بی جے پی اوراس کے لیڈراپنے بیانات اورعملی اقدامات کے ذریعے سے اکثریتی فرقہ کے سینوں میں میخ گاڑنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔

یہ بات سرینگرمیں زبان زدِ عام وخاص ہے کہ یہ وہ مفتی سعیدنہیں جنہوں نے ٢٠٠٣ء سے ٢٠٠٦ء کے درمیان دہلی کے روایتی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کی بجائے ایک پراعتماداورکشمیری عوام کے مفادات اورترجیحات کے ترجمان کے طورپرایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔حدیہ ہے کہ کشمیرمیں ایک سپر اسپیشلٹی ہاسپٹل انسٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزکاقیام بھی ہندوانتہاپسندوں کوگوارہ نہیںہے۔ابھی ان تنازعات کاواویلاختم نہیں ہواتھاکہ تشویشناک خبریں آناشروع ہوئیں کہ جموں خطہ میں جنگلاتی اراضی سے قبضہ چھڑانے کی آڑمیں مسلمانوں کوجبراً اپنے گھروں سے بے دخل کیاجارہاہے۔جموں میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے مسلمان گوجروں اوربکروالوں کی بستیوں کوٹھنڈی ،نجوں چھنی،گول گجرال، سدھرا ،ریکا،کروڑاوراس کے گرد و نواح سے ہٹایاجارہاہے۔یہ زمینیں مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم نامہ کے تحت ١٩٣٠ء میں ان لوگوں کودی گئیں تھیں۔

دراصل جموں کاپوارانیاشہرہی جنگلاتی اراضی پرقائم ہے اورصرف مسلم اقلیتی کونشانہ بنانے کامطلب مسلمانوں کواس خطے سے بے دخل کرناہے جہاں وہ پچھلے ساٹھ برسوں سے جاثیہ پرچلے گئے ہیں۔ ایک طرف جہاں ان غریب اوربیکس مسلمانوں کوبے دخل کیاجارہاہے وہیں دوسری طرف مغربی پاکستان کے ہندومہاجرین کی آبادکاری اوروادی میں پنڈتوں کی علیحدہ کالونیوں کے قیام کیلئے حکومت خاصی سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔جموں کے دیگر مسلم اکثریتی خطوں،چناب ویلی اورپیرپنجال میں ایک دہائی سے زائدسیکیورٹی ایجنسیوں کی شہہ پر ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں (وی ٹی سی) نے اکثریتی طبقے کا جینادوبھرکر رکھا ہے۔عسکریت سے نمٹنے کیلئے ان علاقوں میں سویلین افراد پر مشتمل فورس بنائی گئی جونہ سرکار کے تابع ہے اورنہ ہی کسی کوجوابدہ اوران میں صرف ہندواقلیتی افرادکوبھرتی کیاگیاہے۔ان خطوں میں اس فورس کے ذریعے سے اغواء برائے تاوان،زیادتیوں کی وارداتیں عام ہیں اورظاہرہے اس کاخمیازہ مسلم اکثریتی آبادی کوبھگتناپڑرہاہے۔

مسلم آبادی کواحساس محرومی کاشکارکرنے کیلئے اب تاریخ بھی مسخ کی جا رہی ہے تاکہ یہ باورکرایاجائے کہ جموں کے نجات دہندہ ڈوگرہ حکمران ہی تھے۔رکھورمیں جیاپوتاکے مقام پرکئی برسوں سے مہاراجہ گلاب سنگھ کاجنم دن منایاجاتاہے۔ان کاایک مجسمہ بھی نصب کیاگیا ہے ،شعوری طورپرکوشش کی جارہی ہے کہ گلاب سنگھ اوران کے جانشین راجگان کوتاریخ کا ہیروبنا کر پیش کیاجائے تاکہ جموں کے اصل ہیروؤں کی یادوں کولوگوں کے اذہان سے محوکردیاجائے ۔یہ کوشش ڈاکٹرکرن سنگھ اوران کے کاسہ بردارمتواترکر رہے ہیں تاکہ ان کو ہیروؤں کاوارث قراردیکر اس خطے میں جاگیردارانہ نظریات کا احیائے نوہو۔

یہ بھی کوشش ہورہی ہے کہ گلاب سنگھ کے جنم دن ٧اکتوبرکوسرکاری چھٹی ڈیکلیئرکرائی جائے۔مہاراجہ رنبیرسنگھ کے بت نصب کرنے کابھی اقدام کیاجا رہاہے۔ (بانکی مون اپنے مطلوب اقدامات میں اس قدم کوبطورخاص ذہن نشین کرلیں) مہاراجہ ہری سنگھ کاجنم دن منانے کی روش چل پڑی ہے۔اس خاندان کے مہاراجوں میں سے صرف مہاراجہ پرتاب سنگھ کوباقی رکھاگیاہے۔معلوم نہیں کن وجوہ کی بناءپران کو چھوڑکرباقی اس خاندان کے سارے مہاراجوں کوہیروقراردیاجارہاہے اورانتہائی افسوس ہے کہ جموں کے باشعورسیاسی کارکنوں، سماجی تنظیموں ،تاریخ کے ماہرین اوردانشوروں ۔ترقی پسندوں، ادیبوں،شاعروں اورمحقیقین نے تاریخ کومسخ کرنے کے واقعات اورجاگیردارنہ نظریات کے احیائے نوپرمجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ان کاکہناہے کہ جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے مہاراجوں،جبر وتشدد کرنے والے مطلق العنان راجواڑوں اور عوامی مفادات بیچ کراقتدار حاصل کرنے والے حاکموں کوتاریخ سازہیرو قرار دیناتاریخ کے ساتھ سب سے بری ناانصافی ہے۔انہوں نے اس ریاست میں راج کن وسائل اور ذرائع سے حاصل کیا،وہ تاریخ میں درج ہے۔

مہاراجہ گلاب سنگھ نے پہلے جموں کے عوام،پھرلاہورکے سکھ دربارسے بے وفائی کرکے جبروتشددکےذریعے سے جموں وکشمیرکی ریاست کااقتدارحاصل کیااوران کے لواحقین جانشین بن کر لوٹ کھسوٹ کرتے رہے توبھلاانہیں جموں کاہیروکیسے قراردیاجاسکتاہے؟جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پیش قدمی کرکے جموں کوفتح کرنے کی کوشش کی توجموں میں اس پرمدافعت ہوئی ۔جموں میں لاہوردربارکے خلاف زبردست گوریلالڑائی لڑی گئی جس کی قیادت میاں ڈیڈو اورکئی دوسرے ڈوگرہ سرفروش کر رہے تھے۔ راجہ گلاب سنگھ کے والد اور خودگلاب سنگھ نے ڈوگرہ سرفروشوں کوپیٹھ دکھا کر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیارکرکے ڈوگرہ مدافعتی جنگ سے دامن بچایا اورمہاراجہ رنجیت سنگھ کایجنٹ بن کر میاں ڈیڈواورکئی دوسرے ڈوگرہ جیالوں کوقتل کیا۔ ڈوگرہ کی مدافعت کوکچلنے،مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کوجموں میں وسعت دینے اور ڈوگرہ سرفروشوں کوقتل کرنے کے عوض راجہ گلاب سنگھ کو جموں کی باجگزار ریاست عطاہوئی۔

لاہوردربارکوخوش کرنے کیلئے میاں ڈیڈوکے علاوہ جسروڑ،بلادر،بسوہلی، بھمبر، ٹکری، کرمچی،کشتواڑ، بھدروا، سراج،کوٹلی،راجوری،پونچھ، میرپور اوردوسرے علاقوں کے راجگان کے سرقلم کردیئے گئے ،انہیں ملک بدرکیاگیا ،کھالوں میں بھوسہ بھرکردرختوں کے ساتھ لٹکایاگیااوروحشت وبربریت کاوہ دورجاری کیاگیاکہ پڑھ کرآج بھی ہیبت طاری ہوجاتی ہے لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعدجب ملکہ سلطنت کازوال شروع ہوااورانگریزوں نے پنجاب پرچڑھائی کی توجموں کے یہ ہیرو لاہور سے غداری کرکے انگریزوں سے مل گئے ۔ اس خدمت خاص کے عوض اور٧٥لاکھ روپے نانک شاہی کی رقم جو انگریزوں نے تاوانِ جنگ ڈالاتھا،کی ادائیگی کرکے بیع نامہ امرتسر کے ذریعے سے کشمیرکاصوبہ راجہ گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔

١٨٤٦ء سے ١٩٤٧ء تک جموں کے ہیروؤں کے اس خانوادے نے جموں و کشمیرکے عوام کے ساتھ جوسلوک کیا،وہ تاریخ میں رقم ہے۔کوئی اس قدرظلم واستحصال،جبروظلم کرنے والے خانوادے کوجموں کاہیروکیسے کہہ سکتاہے ؟جموں کے اصل ہیرومیاں ڈیڈوکیسری سنگھ،پونچھ کے راجہ علی خان، سبز علی خان ،شمس خان،بھمبرکے راجہ سلطان خان اورایسے ہی ان گنت لوگ ہیں ،جنہوں نے لاہوردربارکی توسیع پسندی اوراپنی آزادی کی حفاظت کیلئے جانیں قربان کردیں۔انگریزوں کے خلاف لڑائی میں دھومنتری بھاگ مل وغیرہ بے شمارمجاہدین آزادی ہیں جنہوں نے زبردست کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ۔ جدوجہد آزادی میں سرداربدھ سنگھ،راجہ اکبرخان،چوہدری غلام عباس وغیرہ کے نام بھی نمایاں ہیں جنہوں نے راجواڑہ شاہی کے خلاف مجاہدانہ لڑائی لڑی ۔عوامی نقطہ نظرسے اس سے بھی پہلے باواجیتوکانام آتاہے جنہوں نے جاگیر دارانہ ظلم وتشددکے خلاف جدوجہدکرتے ہوئے جان قربان کردی،یہی لوگ جموں کی تاریخ کے روشن ستارے ہیں مگرہندوانتہاپسندی کی آڑمیں خطے میں جاگیردارانہ نظریات کے احیائے نوکی تحریک شروع ہوچکی ہے۔راجگان کی تاریخ جموں کاہیروثابت کرنے کی مہم کاآغازہوچکاہے تاکہ جموں میں بسے مسلمانوں اورکشمیرکے اکثریتی فرقے کوایک بارپھربے طاقت اورسیاسی طور پربے وزن کیاجائے لیکن اب ایساکبھی نہ ہوسکے گاکیونکہ اس مرتبہ بروقت وادی کشمیرسے یکجہتی کے پیغام نے جموں کے مسلمانوں کوایک نیاولولہ عطاکیاہے!
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350589 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.