نور اعلیٰ نور - قسط ۲۰

’’بھئی اگر آپ سے نہیں سنبھالا جا رہا ملک تو اپنے کسی helperسے helpلے سکتے ہیں‘‘۔ذولفقار کی بہن سدرہ نے نہایت نا تجربہ کرانہ انداز میں کمینٹ دیا۔
’’آپ کو کچھ پتا نہیں ہے…… پتا نہیں کیوں آپ کو یہاں لا کر بٹھا دیا گیا ہے……‘‘ ذولفقار منہ بناتے ہوئے بولا۔
’’آپ امریکہ کو اپنا ہیلپر سمجھتی ہیں؟؟؟ اس سے ذیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہو گی……‘‘
’’ان حالات میں بھی کوئی امریکہ کو اپنا خیر خواہ سمجھ سکتا ہے!!!‘‘
’’حیرت ہے!!!‘‘
ایک مشہور ٹی وی چینل کے سیاسی ٹالک شو میں ذولفقار، سدرہ اور کچھ اور جانے مانے افراد کو مدعو کیا گیا تھا۔ جیسا کہ ایسے پروگرامز میں ہوتا ہے…… ایک دھواں دار ماحول بنا ہوا تھا……ایک دوسرے پر جملے کسنا، کوسنا، نت نئی اچھوتی باتیں، الزام تراشی سب کچھ جاری تھا…… سلجھے ہوئے لوگوں نے تو اب اس قسم کے پروگرامز دیکھنا ہی چھوڑ دئیے تھے۔

’’اب تو سب کچھ اتنا واضع ہے …… اندر ہی اندر باتیں چل رہی ہیں ملک کے ایٹمی اثاثے UNO اور NATOکے سپرد کرنے کی……‘‘ ’’ ملک کو اتنا unstable کر دیا جائے کہ انہیں بہانہ مل جائے……‘‘ ذولفقار بولا جا رہا تھا۔
’’ہاں تو آپ سے نہیں حفاظت ہو رہی اپنے ایٹمی اثاثوں کی تو اُنہیں دے دیں نا……‘‘ سدرہ نے پھر بیچ میں چھلانگ لگائی اور شور مچایا۔
’’جب terrorists کے ہاتھوں میں آ جائیں گے تو پھر منہ دیکھتے رہیں گے……‘‘ سدرہ کو جو بھی پٹیاں اس کے این جی او میں پڑھائی جاتیں تھیں وہ سب پر کھل رہیں تھیں۔
’’اُف……بہت ہو گیا!!!‘‘ذولفقار کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’اپنے ملک کے ہتھیار دشمن ملک کے سپرد کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں……‘‘۔ ذولفقار کو اپنی بہن سدرہ سے گھن آنے لگی۔
’’یہی تو ان کا اصل مقصد ہے‘‘
’’وہ دشمن نہیں ہیں …… ہمارے اتحادی ہیں‘‘ سدرہ نے پھر چنگھاڑ لگائی۔
’’ آپ کو تو دوست دشمن کی پہچان نہیں ہے …… آپ سے میں کیا بات کروں‘‘ ذولفقار چِڑ گیاتھا۔ اسے اندر ہی اندر اس ٹی وی شو کے پروڈیوسر پر بہت غصے آرہا تھا جس نے اسے اور اس کی بہن کو آمنے سامنے کر دیا تھا۔

’’ٹھیک کہہ رہے ہیں ذولفقار صاحب…… آپ نے بس اپنے شو کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے گھر کے دو افراد کو آمنے سامنے بٹھا دیا ہے…… کہ لوگ دیکھیں گے…… مزے لیں گے …… کچھ چٹ پٹی بات ہو جائے گی‘‘۔ایک اور مہمان نے میزبان کو مخاطب کر کے صاف صاف بات کھول دی۔
’’ورنہ سدرہ بی بی تو ایک ماڈل ہیں ، کم عمر ہیں ، ان کا کوئی تجربہ نہیں……‘‘
’’ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں انہیں ایک امریکی این جی او سے منسلک ہوئے ہوئے اور آپ لوگوں نے انہیں یہاں لا کر بٹھا دیا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا۔

’’ایسی کوئی بات نہیں……میں بھی اس ملک کی شہری ہوں اور اچھی طرح جانتی ہوں جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اور کروایا جا رہا ہے……‘‘سدرہ نے اونچی آواز میں پھر ٹَر ٹَر شروع کر دی۔
’’……اور میں خود نہیں آئی یہاں…… نہ مجھے کوئی شوق ہے…… مجھے بلایا گیا ہے تو میں آئی ہوں……‘‘

یہ جملے بازی ایسے ہی چلتی رہی اور جیسے کہ عام طور پر سیاسی ٹی وی شوز پر ہوتا ہے ، پروگرام کا وقت کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

سعد اپنے کمرے میں بیٹھا اپنی پڑھائی میں مصروف تھا۔ وہ ایک سنجیدہ اور پڑھاکو لڑکا تھا۔ کل یونیورسٹی میں کوئی ٹیسٹ ہونا تھا جس کی تیاری میں وہ لگا تھا……کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ وہ بہت توجہ سے اپنے نوٹس پڑھ رہا تھا اور ایک دوسری کاپی میں کچھ لکھتا جا رہا تھا۔

گھر کی پہلی منزل پر اس کا روم تھا اور جہاں اسکا اسٹڈی ٹیبل رکھا تھا وہاں سے نیچے گھر کا مین گیٹ آرام سے دکھائی دیتا تھا۔

……اچانک اس کی نظر اپنی کھڑکی سے نیچے گھر کے مین گیٹ پر پڑی…… اس کے بڑے بھائی میجر اشرف گھر کے باہر نکلے، ادھر ادھر سڑک پر دیکھا پھر تھوڑی دیر وہیں رک کر دوبارہ اندر چلے گئے۔ سعد بھی پھر اپنی پڑھائی پر متوجہ ہو گیا۔

رات کا وقت تھا …… اور یہ آرمی والوں کا علاقہ تھا لہذا یہاں عام گاڑیوں کی آمد و رفت اس وقت کم ہی رہتی تھی۔کچھ دیر بعد ایک گاڑی شور مچاتی ہوئی آئی اور آہستہ سے ان کے گھر کے سامنے سے گزر گئی۔میجر اشرف تیز تیز قدم چلتے پھر گھر سے باہرنکلے اور دور جاتی گاڑی کو پیچھے سے مایوس کن نظروں سے دیکھنے لگے۔وہ بڑی بیزاری سے واپس گھر میں داخل ہوئے…… سعد یہ سارا تماشہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا۔ اسے کچھ تشویش سی ہوئی اور وہ اٹھ کر کھڑکی کے ساتھ پردے کو پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔باہر کی اسٹریٹ لائٹ سیدھی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی…… وہ پردے کی اوٹ میں کھڑا ہو کر باہر دیکھنے لگا…… کچھ دیر تک وہ یوں ہی کھڑا رہا……

’’سعد!!!‘‘ سعد کا دل اچھل کر رہ گیا۔ ایک بھاری آواز نے اسے پکارا۔وہ فوراََ پلٹا۔
’’ کیا کر رہے ہو؟؟؟‘‘
’’ کتابیں پھیلا کے تم لوگ …… کھڑکی میں کھڑے ہو جاتے ہو؟؟؟‘‘ میجر اشرف اس کے کمرے کے دروازے پر کھڑے تھے۔
’’ام م م…… نہیں …… ‘‘ اس نے تھوڑی سی بٹاوٹی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پرپیدا کی اور بولا۔ ’’ نہیں …… بس ایسے ہی تھوڑا……‘‘
’’ کافی دیر سے بیٹھا پڑھ ہی رہا تھا بس ابھی……‘‘
’’ اچھا سنو……‘‘ میجر اشرف نے بات کاٹ دی۔ ’’ مجھے زراکہیں جانا ہے…… ایک بندہ آئے گا گھر سلطان نام کا …… میرے لئے کچھ لے کر……ایک پیکٹ ہو گا …… وہ لے کر رکھ لینا‘‘
’’ میں صبح تم سے لے لو گا‘‘۔ ’’ او۔کے‘‘ میجر اشرف نے جلدی سے بات ختم کی۔ وہ واقعی جلدی میں لگ رہے تھے۔
’’ ٹھیک ہے‘‘ سعد نے کہا۔
’’ سلطان نام ہو گا …… ہیں!!!‘‘ وہ یہ کہتے ہوئے پلٹے اور سیڈھیاں اترتے ہوئے نیچے چلے گئے۔
سعد پھر سے اپنی پڑھائی میں مصروف ہو گیا۔ کافی دیر گزر گئی تھی مگر کوئی بھی نہ آیا۔اب تو اسے نیند سی آنے لگی تھی۔

سعد اپنی کرسی سے اٹھ کر پھر سے کھڑکی کی طرف بڑھا اور وہاں سے باہر سڑک پر دیکھنے لگا۔باہر بالکل خاموشی تھی۔رات کے ایک بج چکے تھے۔اس نے اپنی کاپیاں کتابیں سمیٹیں اور سونے کی تیاری کرنے لگا۔
’’ایسا نہ ہو میں سو جاؤں اور پھر یہ سلطان صاحب تشریف لے آئیں؟؟؟‘‘ سعد نے اپنے آپ سے کہا ۔ بہرحال وہ لیٹ گیا کہ جب بیل بجے گی تو اٹھ جائے گا۔
تقریباََ آدھے گھنٹے بعد بیل بجی۔ نیچے اس کی بھابھی اور امی سو رہے تھے۔فوراََ ہی اس کی آنکھ کھل گئی۔وہ لپک کر کھڑکی کی طرف بڑھا۔باہر گیٹ کے سامنے ایک سفید رنگ کی بڑی سی گاڑی کھڑی تھی اور کوئی شخص دروازے کے سامنے کھڑا کسی کے باہر آنے کا انتظار کر رہا تھا۔

سعد جلدی جلدی سیڑھیاں پھلانگتا باہر کو بھاگا۔
’’ السلام علیکم‘‘ سعد نے دروازہ کھولتے ہی اپنا ہاتھ مصافحہ کے لئے پڑھا دیا۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب مایوسی اور حیرانی نمودار ہوئی۔
’’وا لے کَم سلام‘‘ اس شخص نے عجیب سے انداز میں و علیکم السلام کہا۔ وہ بہت سوکھا سا کالی رنگت کا شخص تھا۔ درمیانہ سا قد…… اس نے کالے رنگ کی پرانے اسٹائیل کی پینٹس اور گہرے نیلے رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ سعد اس کا حلیہ دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہو گیا۔
’’آپ سعد صاحب ہیں نا!‘‘ اس نے سعد سے پوچھا۔
’’جی جی میں سعد ہی ہوں…… میجر اشرف کا بھائی……‘‘
’’ام م م…… ٹھیک ہے‘‘ وہ دائیں سے بائیں سر ہلا نے لگا جیسے کوئی بات سمجھ آگئی ہو۔
’’میں سلمان‘‘
’’آپ کو بتایا ہو گا انہوں نے!!!‘‘
’’سلمان‘‘ سعد کے منہ سے حیرت سے نکلا۔ کیونکہ میجر اشرف نے اسے سلطان نام بتایا تھا۔
’’شاید انہوں نے توسلطان نام بتایا تھا……‘‘ سعد کا یہ جواب سن کر دونوں کوکچھ دیر کے لئے چپ سی لگ گئی۔
’’ایں…… شاید…… نہیں…… میرا نام سلمان ہے‘‘
’’ام م م …… اچھا……‘‘ سعد کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
’’ہو سکتا ہے انہوں نے سلمان ہی کہا ہو مجھ سے سننے میں غلطی ہو گئی……‘‘ سلمان اور سلطان ملتے جلتے نام تھے۔مگر اسے پورا یقین نہیں آ رہا تھا…… کیونکہ میجر اشرف نے سلطان ہی نام بتایا تھا۔

وہ شخص اپنی گاڑی کی طرف پلٹا۔ اندر گھُس کے اس نے کہیں سے ایک موٹا سا کاغذات سے بھرا لفافہ نکالااور سعد کے ہاتھ میں تھما دیا۔ لفافہ بند تھا۔اس شخص نے ایک ہی ہاتھ میں تین چار سونے کی انگوٹھیاں پہن رکھی تھیں۔ اور کلائی پر چند لال سے رنگ کی ڈوریاں بندھی تھیں۔ جن کا رنگ شاید پانی پڑنے سے ماند پڑ گیا تھا۔
’’یہ تو کوئی ہندو لگ رہا ہے!!!‘‘ سعد نے دل ہی دل میں سوچا اور لفافہ لیتے ہوئے کہا ’’تھینک یو‘‘۔
’’او۔ کے ۔ پھر آپ میجر صاحب کو یہ دے دیجئیے گا‘‘۔
’’او۔ کے…… میں دے دوں گا……‘‘ ’’انشاء اﷲ‘‘
سعد تشویشناک تاثرات کے ساتھ گھر کے اندر پلٹا۔
۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقارآج وقت سے پہلے ہی یونیورسٹی سے گھر واپس آگیا۔ وہ کافی تھک گیاتھا۔ آنے والے دنوں میں امتحانات شروع ہونے والے تھے۔ وہ سیدھا اپنے اسٹڈی روم کی طرف بڑھا۔
’’کیا ہوا؟؟؟ کیا ڈھونڈ رہی ہیں آپ؟؟؟‘‘ ذولفقار نے جونہی کمرے کا دروازہ کھولا سدرہ کو اندر کچھ ڈھونڈتا پایا۔
’’ہاہ!!!‘‘ سدرہ سہم کر پلٹی۔ ’’ نہیں وہ …… میری کچھ چیز گم ہو گئی تھی……‘‘ سدرہ نے ذولفقار سے نظریں چرائیں۔
’’میں نے کہا…… کہیں…… ماسی نے غلطی سے یہاں نہ لا کر رکھ دی ہو!!!‘‘ سدرہ نے جملہ توڑ توڑ کرمکمل کیا۔ وہ بات کرتے ہوئے جھجھک رہی تھی۔
’’کیا چیز گم ہو گئی ہے؟‘‘ ذولفقار کو سدرہ کی بات پر یقین نہیں ہوا۔ویسے بھی ان دونوں بہن بھائی کے مراسم کچھ اتنے اچھے نہ تھے۔
’’وہ……وہ……‘‘
’’یار …… کیا چیز تھی……‘‘ سدرہ سے کوئی بات نہیں بن رہی تھی۔اس کا چہرہ لال ہو گیا۔
’’میری ایک نوٹ بک تھی‘‘۔ آخرکار اس نے کچھ کہہ دیا۔
ذولفقار نے منہ بنایا اور آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ میں پکڑی کچھ کتابیں ٹیبل پر رکھ دیں۔ جیسے اسے اس کی بات پر یقین نہ آیا ہو۔
’’یہاں تو کوئی نوٹ بک وغیرہ نہیں ہے‘‘۔ اس نے ٹیبل پر پڑی کچھ چیزیں ادھر ادھر کر کے دیکھا۔
’’سب میری ہی بکس ہیں‘‘۔ ذولفقار نے پھر کہا۔
’’اچھا …… چلو……‘‘ سدرہ یہ کہتے ہوئے آہستہ سے کمرے سے باہر چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔

یہ اتوار کا دن تھا۔سعد، میجر اشرف اور سب گھر والے باہر گھرکے لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ کوئی گرماگرم بحث ہو رہی تھی۔
’’سارے اسلام کا ٹھیکہ پاکستان نے ہی لیا ہوا ہے!!!‘‘ میجر اشرف جوش میں تھے۔
’’جہاں اسلام آیا تھا انہیں کچھ فکر نہیں……وہ اپنی مستیوں میں گم ہیں……‘‘
’’آپ جائیں دبئی …… دیکھیں وہاں سارے عربیوں کو……‘‘۔ ’’ کیا کیا ان کی عیاشیاں ہیں……‘‘
میجر اشرف اکثر ایسے ہی تبصرے پاکستان اور اسلام کے بارے میں کرتے رہتے تھے۔وہ ابھی ابھی دبئی کا چکر لگا کر آئے تھے اور جب بھی باہر کہیں سے ہو کر آتے تو پاکستان اور مسلمانوں کو یوں ہی لعن طعن کرتے۔
’’کیا ماحول ہے دبئی کا……‘‘
’’Its a pride of Muslim world‘‘
’’یہاں ساری قوم …… فریبی، دھوکے باز ، جھوٹی ، کرپٹ……‘‘ ’’…… او ر کوئی چھوٹی سی بات ہو جائے تو مسلمان بننے کا ناٹک کرتے ہیں…… جلسے جلوس نکالتے ہیں……‘‘
میجر اشرف چپ ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ سعد بھی چپ چاپ بیٹھا ان کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ ان کے خیالات سے اچھی طرح واقف تھا۔
’’دیکھیں آپ وہاں جا کر…… آپ کو پتا چلے گا……‘‘ وہ پھر دبئی کی چکا چوند کر دینے والی زندگی کے گن گانے لگے۔
سعد نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر پھر اس کی ہمت نہ ہوئی۔ذیادہ تر ایسے مواقع پر سب میجر صاحب ہی کی سننے کو عافیت جانتے تھے۔
’’اسلام کوئی سیاسی نظام نہیں دے کر گیا‘‘۔
’’رسول اﷲ ﷺکا انتقال ہوااور اسی دن سے سب آپس میں لڑنے لگے ……‘‘
’’دو دن تک انہیں دفن نہیں کیا……‘‘

’’مگر یہ تو سب کو پتا ہے نا کہ اسلام قانون دے کر گیا ہے‘‘۔
’’آپ جمہوریت سے ہی وہ قانون نافذ کر دیں……‘‘ سعد نے آخر کار کچھ کہہ ہی دیا ۔
’Democracy is democracy. If you try to change its style it won't be the same any more‘‘
میجر اشرف فوراََ انگریزی میں آگئے۔ کیونکہ عام طور پر انگریزی بولنے سے ہمارے ہاں کے لوگ جلدی مغلوب ہو جاتے ہیں۔
’’تو دبئی میں کونسی ڈیموکریسی ہے؟؟؟‘‘ سعد نے پھر ایک تیر چلایا۔
اب تو میجر صاحب کا پارا چڑھ گیا۔ ’’اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے……‘‘
’’چھپانے کے لئے اِدھراُدھر کی باتیں نہ کریں‘‘۔ میجر اشرف نے عجیب سی بات کی۔انہیں کوئی اور جواب نہ سوجھا۔
’’یہ ساری قومیں…… امریکہ ، فرانس، جرمنی اور اب تو بھارت بھی……اسی جمہوریت کے سائے تلے ترقی کر گئے ہیں……‘‘
سعد کو پتا تھا کہ اب کچھ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ورنہ جنگِ عظیم اول و دوم میں ان ہی ممالک نے انسانیت کا جو خون بہایا وہ کس سے ڈھکا چھپا ہے…… پاکستان تو ویسے ہی جمہوریت کا بوجھ نہ اٹھا سکا اورپہلے ہی دو ٹکڑے ہو چکا۔ پاکستان جیسے ملک میں جمہوریت کو اور برداشت کرنے کا مطلب اسے پھرتوڑنے کی کوشش کے مترادف ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی کے لان میں ذولفقار ایک بینچ پر بیٹھا تھا اور اس کے ارد گروپانچ چھ لڑکوں کا مجمع سا لگا ہوا تھا۔
’’سر ! اکیس تاریخ کو ہے نا؟‘‘ ایک لڑکے نے سوال کیا
’’جی اکیس مارچ کو……‘‘ ذولفقار نے جواب دیا۔
’’ویسے موسم تو اچھا ہو گا وہاں……‘‘ ایک اور لڑکا خوش ہو کربولا۔
’’جی…… پنجاب میں تو اچھا موسم ہو گا، انشاء اﷲ…… مارچ کے مہینے میں وہاں اچھا موسم ہوتا ہے‘‘۔
اتنے میں ایک اور لڑکا تیز تیز قدم چلتا ذولفقار کے پاس آیا ۔ ’’سر میرا نام بھی لکھ لیں‘‘سعد پُر جوش انداز میں قریب آ کر بولا۔
’’آپ بھی جائیں گے سعد؟؟؟‘‘
’’جی سَر‘‘۔ سعد نے جواب دیا۔
’’گھر والوں کو بتا دیا ہے نا آپ نے؟؟؟‘‘ ذولفقار نے انکوائری کی۔
’’جی جی…… میں نے بتا دیا ہے انہیں سَر……‘‘ سعد نے تسلی دی۔
’’مجھے فون نمبر دے دیں والد صاحب کا……‘‘ ذولفقار تقریباََ تمام لڑکوں کے گھر والوں سے بات کر کے تسلی کرتا تھا۔
’’سَر! ابّو کا تو انتقال ہو چکا ہے…… میں آپ کی امی سے بات کرا دوں گا……‘‘ سعد نے جان بوجھ کر میجر اشرف کا نام نہ لیا۔
’’اچھا ۔ ٹھیک ہے‘‘
ذولفقار کی تنظیم کا سالانہ اجتماع اکیس مارچ کو منعقد ہو رہا تھا۔یونیورسٹی میں ذولفقار ہر دل عزیز توتھا ہی۔ بہت سے لوگ اس کی دعوت سے بھی متاثر تھے۔
ذولفقار یونیورسٹی کے لان میں بیٹھا طلبہ کے نام رجسٹر کر رہا تھا۔جو بھی اجتماع میں شرکت کاخواہشمند ہوتا وہ اسے اپنا نام لکھا دیتا۔
سعد بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھا جوتنظیم کی دعوت سے متاثر تھے اور اجتماع میں شرکت کرنا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔

میجر اشرف اپنا سامان پیک کر چکے تھے۔چار گھنٹے بعد ان کی فلائٹ تھی۔ وہ زرا جلدی میں تھے۔
’’کیا ہوا؟ کہاں جا رہے ہیں بھائی آپ؟؟‘‘ سعد کہیں باہر نکل رہا تھا اس نے حیرت سے میجر اشرف سے پوچھا۔ کیونکہ ابھی چند دن پہلے ہی وہ دبئی سے گھوم کے آئے تھے۔
’’یار میں لاہور جا رہا ہوں……‘‘
’’دو تین دن تک واپس آ جاؤں گا‘‘۔انہوں نے جلدی جلدی جواب دیا۔
’’اچھا‘‘ سعد نے بھی بے نیازی سے کہہ دیا۔
وہ پاکستان میں ادھر اْدھر آتے جاتے رہتے ہی تھے۔سعد کچھ دیر رک گیا کہ بھائی کو رخصت کر کے ہی باہر جائے۔
’’……اور کون ساتھ جا رہا ہے؟ بھابھی نہیں جا رہیں؟‘‘ میجر اشرف ہمیشہ اپنی فیملی کو اپنے ہمراہ ہی لے کر جایا کرتے تھے۔مگر اب کچھ عرصے سے انہوں نے اکیلے ہی آنا جانا شروع کر دیا تھا۔
’’نہیں …… وہ لوگ نہیں……‘‘ ۔ ’’ گھر کا خیال رکھنا ……‘‘۔ ’’میں نکل رہا ہوں‘‘۔
میجر اشرف نے جلدی جلدی بات ختم کی اور اپنا سامان اٹھا کر باہر نکلے۔
۔۔۔۔۔۔۔

دادا جان اب بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ کافی کمزور رہتے تھے۔ مگر الحمد ﷲ چلتے پھرتے تھے۔کسی کے محتاج نہ تھے۔سارا وقت اﷲ کے ذکر میں ہی صرف کرتے تھے۔ آج کئی دنوں بعد ذولفقار دادا جان سے ملنے حسن کے گھر آیا تھا۔

ظاہر ہے اب ذولفقار اور حسن کی زندگی ویسی پہلے جیسی تو رہی نہ تھی۔ دونوں اپنی اپنی زندگی میں مگن تھے۔مگر اب چونکہ رشتہ داری بھی ہو چکی تھی لہذا اب یہ رشتہ اٹوٹ تھا۔ذولفقار کا بھائی وحید زرا کاروباری ذہن کا مالک تھا اور اپنا ایک کپڑوں کا اسٹور چلاتا تھا۔

’’بیٹا! میری زندگی کے دن تو اب پورے ہونے کو ہیں‘‘
’’اﷲ جانے کب بُلاوا آ جائے……‘‘ دادا جان شام کو ذولفقار اور حسن کے ہمراہ چھت پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
’’مجھ سے تو اﷲ نے وہ کام نہ لیا جو شاید تم سے لے لے‘‘۔
’’میری زندگی تو دعوت و تبلیغ میں ہی گزر گئی…… اگلا مرحلہ تو آیا ہی نہیں……‘‘ دادا جان افسوس سے کہنے لگے۔
’’نہ جانے تمہیں بھی اب کتنا کام کرنا ہو گا……‘‘
’’آخری دور ہے……‘‘
’’رسول اﷲ ﷺ فرما گئے کہ وہ اور قیامت ایسے ہیں جیسے یہ دو انگلیاں……‘‘ انہوں نے اپنے ایک ہاتھ کی دو انگلیاں ملائیں۔یعنی رسول اﷲ ﷺ کی بعثت کے بعد قیامت بہت قریب ہے۔اور اب تو رسول اﷲ ﷺ کے انتقال کو بھی چودہ سو سال گزر چکے ہیں۔
’’آخری وقت چل رہا ہے……’’ دادا جان نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ ذولفقار اور حسن خاموشی سے ان کی باتوں پر سر ہلا رہے تھے۔

’’یہ گھڑی محشر کی ہے ،تو عرصہء محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے ‘‘
’’بحر و بر میں فساد برپا ہو گیا ہے……‘‘انہوں نے قرآن مجید کی ایک آیت کا ترجمہ پڑھا۔
’’ساری دنیا اﷲ کی ہے مگر افسوس کے آج اس دنیا کا ایک انچ بھی ایسا نہ بچا جس پر اﷲ کی حکومت ایسے قائم ہو جیسے رسول اﷲﷺ کی زندگی میں قائم تھی……‘‘
’’ہائے افسوس !‘‘ وہ پھر افسوس کرنے لگے۔
ذولفقار کی آنکھوں میں بھی نمی آ گئی۔ بات حق تھی۔
آج دنیا مسلمانوں سے تو بھری پڑی ہے۔ مگر دلوں میں ایمان نہیں۔ اِلاما شا اﷲ
’’تم جس جدوجہد میں لگے ہو لگے رہو…… کِسے پتہ اﷲ تمہیں امام المہدی کے ہاتھ بعت کرنے کی سعادت دے دے۔‘‘ دادا جان نے ذولفقار سے کہا۔
’’……یا عیسی ؑ کا دیدار کرائے……‘‘ذولفقار کسی اور ہی دنیا میں کھو گیا۔وہ اسی تصور کی تصویر بنانے لگا کہ وہ اپنی زندگی میں عیسیؑ رسول اﷲ سے بھی مل سکتا ہے!!! اس کا دل عجیب کیفیت سے سر شار ہو گیا۔
’’……اور اﷲ کا دیدار تو بہرحال نیکواروں کو نصیب ہونا ہی ہے‘‘۔ دادا جان نے آخری بات کہی اور چپ ہو گئے۔
واقعی، ایک مومن کا مقصد تو اپنا تن من دھن اﷲ کے لئے وقف کرنا ہوتا ہے۔ اس کی عمل کا حقیقی اجر تو اسے آخرت میں ہی ملے گا۔لہذا اس کا کام ہے اﷲ کی راہ میں لگے رہنا، کام کرتے رہنا، بولتے رہنا، جہاد کرتے رہنا، نتیجہ اﷲ کے حوالے……

اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ آذاں ،لا الہ الا اﷲ
۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78760 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More