ظلت اور ضیاء

حبیب جالب کے نام سے کون ہے جو کہ آشنا نہیں ہوگا حبیب جالب نے اپنی ایک نظم میں لکھا
ظلمت کو ضیا ء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو ۔۔۔گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا
ایک حشر بپا ہے ہر گھر گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطت دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا ء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اہل پاکستان بھی اگر پاکستان کی بد امنی اور ظلمت کے کے مسئلہ کو غور سے دیکھیں تو ہم چاہتے ہوئے تھے اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے ہیں ہیں کہ آج جس قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اس کو آگ کو لگانے اور اس میں پیٹرول ڈالنے اور اپنے لوگوں کو چن چن کر ڈالنے کے کام کا آغاز کسی اور نے نہیں کیا تھا بلکہ اس ظلمت کے دور کا آغاز ایک ایسے آدمی نے کیا تھا جس کا نام تو ضیاء تھا مگر کام ظمت کا کیا اس نے
اس قتل و غارت گری کی ابتداء اسی دن ہو گئی تھی۔
ضیاء نے جب حکومت پر قبضہ کیا تو اس نے پورے پاکستان کے سامنے قرآن کی آیتیں پڑھ پڑھ کر اس بات کا اعلان کیا کہ آئندہ 90 دن کے اندر اندر انتخابات کروا کے خود کو اقتدار سے علیحدہ کر لے گا مگر اس کے تمام وعدے جھوٹ تھے۔
اس کے بعد ضیاء الحق کا دس سالہ دور حکومت شروع ہوا اس دور کے آثار اور اس دور کی تاریک باقیات آج بھی پاکستان میں موجود ہیں پاکستان میں بن امنی کو دور اسی وقت شروع ہو گیا تھا جس دن ضیاء الحق نے اپنا پورا زور اس بات پر لگا دیا تھا کہ افغانستان سے ہم نے روس کو نکالنا ہے اس امریکہ کا ساتھ دینا ہے ۔
جب روس کو امریکہ نے افغانستان سے نکالنے کے کام کا آغاز کیا ۔ پوری دنیا سے جہادیوں کو پاکستان مدعو کیا جاتا ان کو افغانستان بھیجا جاتا ان کو اسلحہ سے لیس کیا جاتا ان کو مالی سپورٹ بھی کی جاتی تھی اور ستم ضرفی تو دیکھے کہ افغانستان کی سرحد کے اوپر ضیاء الحق نے عالم اسلام کو وہ نظارہ بھی دیکھلایا کہ ایک عیسائی ملک کا سفیر یعنی امریکہ کا سفیر مسلمانوں کے مجاہدین کو جہاد کرنے کی طرف ترغیب دلا رہا تھا ۔ اور پھر ان مجاہدین کی مالی معاویت کرنے میں بھی امریکہ ہی آگے آگے تھا اور شاید یہ تاریخ کا پہلا جہاد ہوگا جس جو کہ غیروں کے کہنے اور غیروں کے فائدہ کے لئے کیا جارہا تھا ۔
ہمارے صدر صاحب میں اس جہاد کی کامیابی کا اتنا شوق تھا کہ اس کا ندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب افغان جہاد کے دوران پہاڑوں پر اسلحہ پہنچانے میں مشکل پیش آئی توکو شش کی گئی کہ پاکستانی گدھے سامنا اٹھا کر بلند و بالا پہاڑوں پر آسانی کے ساتھ نہیں چڑھ سکتے اور تھک جاتے ہیں ۔ تو یہ بات علم میں آئی کہ اسرائیل( جی جی وہی اسرائیل جیسے ہم عالم اسلام کا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں) کے گدھے اس کا کام میں مہارت رکھتے ہیں وہ آسانی سے پہاڑوں پر ڈھیر سامان لے کر چڑھ سکتے ہیں تو اسرائیل سے گدھوں کو باقاعدہ جہازوں پر بھر بھر کر لایا گیا اور مجاہدین کو دئے گے تا کہ ان کا جہاد میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نا کرنا پڑے۔
سواری اسرائیل نے دی مالی امداد ڈالرز میں کی گئی اور اسلحہ اتنا دیا گیا کہ وہی مجاہدین آج بھی استعمال کر رہے ہیں۔
اور آج اگر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے تو سیاسی مبصرین اور آئنی ماہرین کا خیال ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی ایک ڈکٹیٹر ضیاء کے دور میں کی گئی تھی۔
کہتے ہیں کہ انسان کے دماغ میں جس دن تکبر کا کیڑا آجائے تو وہ اپنے آپ کو بلند و بالا خیال کرنے اور طاقتور بنانے کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
تکبر کی ایک مثال ہم کو لوئی میں ملتی ہے لوئی14 جو کہ انقلاب فرانس سے قبل روس کا بادشاہ تھا ایک دن اس کے دماغ میں یہ بات آئی کہ میں اتنا بڑا بادشاہ ہو چاہیے یہ کہ سورج میرے قدموں سے طلوع اس نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے اس نے اپنے بیڈ روم کو اس طرح سیٹ کیا کہ سوتے وقت اس کے پاؤں مشرق کی طرف ہوتے اور صبح کے وقت اس کے کمرے کے پردے ہٹا دئے جاتے تھے اور سورج ہر روز اس کے قدموں میں طلوع ہوتا تھا ۔
ایسا ہی تکبر ضیاء کے ذہن میں تھا اس نے اپنے دور کو طوالت دینے اور ایک مطلق العنان بادشاہ کے روپ میں اپنے آپ کو قائم رکھنے کے لئے ، فرقہ پرستی کا آغاز کیا، مختلف فرقوں کو ٹارگٹ کیا ۔ضیاء الحق کے دور میں صحافیوں کو بھی نا بخشا گیا ان کو بھی کوڑے مارے گئے اور جیلوں میں ڈالا گیا ۔ضیاء الحق نے اپنے دور میں اپنے سیاسی مخالفین کو بھی نا بخشا ان کو بھی پابند سلا سل کی اور تشدد کو نشانہ بنایا گیا ۔
ضیاء کے تکبر کا یہ عالم تھا کہ اپنے دور کے آخری دور میں اس نے ایک پریس کا نفرس کی جس میں اس نے کہا کہ آیندہ ہونے والے 5 انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے ضیاء الحق کی یہ بات سن کر ایک صحافی نے سوال کیا جناب یہ پانچ انتخابات جن کا ذکر آپ فرما رہے ہیں یہ کروائے گا کون؟ ضیاء الحق نے اپنے سینہ پہ ہاتھ رکھ کر کہا ’’ آپ کا یہ خادم ‘‘
مگر جس طرح لوئی کے بعد انقلاب فرانس آگیا اسی طرح اس پریس کانفرنس کے چند دن بعد ہی ضیاء الحق کا تیارہ آسمان و زمیں کے
دورمیان ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ اور اس کا کچھ بھی نا بچا اور اب پاکستان میں ضیاء کے بعد سے آٹھ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہو چکے ہیں۔
ضیاء تو چلا گیا مگر ضیاء کے کئے ہوئے کام آج بھی پاکستان میں تاریکی پھیلا رہے ہیں جب تک ہم ضیاء کی باقیات کا خاتمہ نہیں کرتے پاکستان میں یہ ظلم و بربریت کی داستان فرقہ واریت جاری رہی گی۔
Nadeem Ahmed Farrukh
About the Author: Nadeem Ahmed Farrukh Read More Articles by Nadeem Ahmed Farrukh: 33 Articles with 27984 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.