حفاظتی تدبیر

کنور زندگی میں پہلی مرتبہ' باپ کے ساتھ مسجد میں' عید نماز پڑھنے جا رہا تھا۔ وہ صبح سویرے ہی اٹھ کر' تیار ہو گیا تھا۔ بڑا ہو جانے کا احساس' اسے طمانیت بخش رہا تھا۔ وہ وقت وغیرہ کے فلسفے سے آگاہ نہ تھا۔ اسی لیے بضد تھا' کہ ابھی اور اسی وقت مسجد چلتے ہیں۔ صفدر بار بار سمجھا رہا تھا' کہ بیٹا ابھی وقت نہیں ہوا۔ جب وقت ہو گیا تو جائیں گے...... تمہیں ساتھ لے کر جاؤں گا...... چھوڑ کر نہیں جاتا' فکر نہ کرو۔

وہ جماعت کے وقت مسجد میں داخل ہوتا تھا۔ اس کا یہ عقیدہ راسخ ہو گیا تھا' کہ مولوی تفریق کے دروازے کھولتا ہے' اس لیے مولوی کی سننا ہی جرم ہے۔ اس مرتبہ' وہ کنور کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے' جماعت سے کافی پہلے' مسجد کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے سوچا' شہر کے بڑے مولوی کے پیچھے' نماز پڑھتا ہوں۔ وہاں کام کی باتیں ہوں گی اور انسانی تقسیم کی نفی کی جائے۔ چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں' بڑے میاں سبحان الله۔ اس نے مسجد کے دروازے کے اندر' ایک قدم رکھا ہی تھا کہ یہ کلمات کان میں پڑے۔
مسلمان مولوی سے چھری پھیرانا' کسی وہابی مولوی سے چھری نہ پھرانا۔
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مصداق' نہ آگے جا سکتا تھا' نہ پیچھے مڑ سکتا تھا۔ دریں اثنا' کنور نے اس کا ہاتھ کھینچا اور اسے مسجد میں داخل ہونا ہی پڑا۔
کنور نے ساتھ ہی سوال جڑ دیا: ابو یہ وہابی مولوی کیا ہوتا ہے۔
اس نے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا: چپ' مسجد میں نہیں بولتے۔
تو پھر یہ مولوی کیوں بول رہا ہے۔
یہاں صرف مولوی ہی بول سکتا ہے۔
ابو یہ انصاف تو نہ ہوا نا
انصاف کے بچے' چپ ہو جاؤ۔ مسجد سے باہر جانے کے بعد' جو پوچھنا ہے پوچھ لینا۔

حضورکریم نے اعتدال کو اصول ٹھہرایا. سکون اور آرام سے گفتگو کرنے کو' مستحسن قرار دیا۔ بڑا مولوی چنگھاڑ رہا تھا۔ جوش پیدا کرنے کے لیے' نثر بھی گا رہا تھا۔ اسے مسجد میں ہر لمحہ' قیامت سے بڑھ کر' محسوس ہونے لگا۔ خدا کے گھر میں گھٹن' بےشک یہ بات' حیرت سے خالی نہ تھی۔ ادھر کنور بھی بےچینی کے عالم میں تھا۔ نہ بول سکتا تھا اور نہ کھیل سکتا تھا۔ جماعت کھڑی ہونے میں ابھی بائیس منٹ باقی تھے۔ کنور کو جتنی جلدی آنے میں تھی' اتنی ہی جانے کی لگ گئی۔
آخر اس نے اپنے ابو کے کان میں کہا : ابو اب چلیں.
صفدر خود بےچین گھڑیاں گزار رہا تھا' اس نے کنور سے کہا' تم مسجد سے باہر نکلو' میں تمہارے پیچھے آتا ہوں۔ کنور جلدی سے' مسجد سے باہر نکل گیا۔ صفدر بھی دوڑ کر' اس کے پیچھے چلا گیا۔ واپسی پر کنور نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اس کا خیال تھا' کہ مسجد سے باہر نکلتے ہی'کنور سب کچھ بھول جائے گا' مگر کہاں۔ وہ وہابی مولوی کے معنی' ہر صورت میں جاننے کا خواہاں تھا۔ کنور کے کسی سوال کا' اس کے پاس جواب نہ تھا۔ جانے آج کل کے یہ بچے بھی کس طرح کے ہو گیے ہیں' اپنی عمر کے سوال ہی نہیں کرتے۔

اس نے سوچا' مولوی چھوٹا ہو یا بڑا' یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ان کی ذہنیت میں رائی بھر فرق نہیں۔ لڑاؤ اور پیٹ بھر کھاؤ' اگر یہ طور نہ بھی اختیار کیا جاتا' تو بھی وافر سے زیادہ انہیں میسر آ جاتا۔ ختم وغیرہ سے ہٹ کر' شادی مرگ پر نقدی کے علاوہ' کھانے پینے کو بہت کچھ میسر آتا رہتا ہے۔ ساتے چالیے اور قل اس سے قطعی ہٹ کر ہیں۔ عیدین پر گھر گھر جا کر' مولوی کا حصہ طلب کیا جاتا ہے۔کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرتا' کہ مسجد میں جھولی نہ پھیری جاتی ہو۔

سالوں پہلے' اسے بیٹے کی ضد کے سامنے' ہتھیار ڈالنا پڑے تھے۔ اس روز بھی' اسے جگری دوست شریف کے ہاتھوں مجبور ہو کر' جمعہ کی جماعت سے پہلے' مسجد جانے کا کشٹ اٹھانا پڑا۔ جنت کا بیان چل رہا تھا۔ مولوی صاحب نے سو طرح کی نعمتوں کا ذکر کیا۔ حور کے حسن وجمال کا اس طرح سے بیان کیا' کہ ازلی ناکارہ بھی جان پکڑنے لگے۔

وہ سوچنے لگا' کہ سچے الله کی عبادت' اس لیے کرنی ہے کہ عمدہ سامان خورد و نوش' سامان تعیش اور حوریں میسر آئیں گی۔ کیا اس لیے نہیں' کہ وہ الله ہے اور اس کی عبادت کرنا ہی ہے۔ دوسرا کیا الله' جو ایسا عطا کرنے والا ہے کہ اس سا کوئی عطا کرنے نہیں' سے حقیر اور معمولی چیزیں مانگی جائیں۔ کیوں نہ' الله سے' الله ہی طلب کیا جائے۔ اگر وہ نہ ملا تو باقی چیزوں کو کیا کرنا ہے اور وہ کس کام کی ہیں۔

وہ سوچوں میں گم ہی تھا' کہ اس کے کانوں میں یہ بات بھی پڑی' یہاں کی زوجہ ان بہتر حوروں کی سردار ہو گی۔ یہ سنتے ہی' اس پر خوف سے لرزہ طاری ہو گیا۔ زکراں بلاوجہ لڑائی میں انتالیس منٹ سے نیچے نہیں رہتی تھی' جواب دینے کی صورت میں' وہ مسلسل کئی گھنٹے بولنے کی شکتی رکھتی تھی۔ شروع شروع میں' ایک مرتبہ اس نے دو رکھ دیں۔ پھر کیا تھا' وہ کئی مہینے' بلاناغہ اور بلا فل سٹاپ گرجی برسی۔ رانی توپ' اس گرجنے برسنے کے سامنے کیا حیثیت رکھتی تھی۔

اس نے سوچا' گویا یہ ان کی سردار ہو گی۔ بےشک اس کے منہ پر کاشن یلغار رہے گا۔ اس نے سوچا' ایسی صورت میں وہ کیا کرے گا۔ فورا خیال آیا' وہ کجھور کے درخت پر چڑھ جائے گا۔ نماز کے ختم ہو جانے کے بعد' اس نے مولوی صاحب سے پوچھا: علامہ صاحب! کیا جنت میں کجھور کا درخت بھی ہو گا۔
کیوں نہیں' آدمی جو مانگے گا میسر آئے گا۔

واپسی پر وہ سوچتا آیا' کہ وہ تو درخت پر چڑھنا ہی نہیں جانتا۔ اس نے حفظ ما تقدم' یہ ہنر سیکھنے کا ارادہ کر لیا۔ اگلے ہی روز سے' اس نے مشق شروع کردی۔ اصولا اسے استاد پکڑنا چاہیے تھا' لیکن اس نے خود سے یہ کام شروع کر دیا۔ پہلے تین دن تو خیر خیریت سے گزر گیے' چوتھے دن تھوڑا اوپر چلا گیا۔ توازن قائم نہ رہنے کے باعث' نیچے آ رہا۔ نیچے گرتے ہی' ٹانگ ٹوٹ گئی۔ ہسپتال بھرتی کرا دیا گیا۔ سارا دن سردار حوروں سے ملاقات رہتی' آرام بھی ملا۔ کچھ چہرے اور کھل کر سامنے آ گیے۔ بہت کچھ غیرواضح' واضح ہو گیا' ہاں البتہ جیب کا دیوالیہ نکل گیا۔

زکراں ہم دردی کی بجائے' سارا دن کوسنے دیتی رہتی۔ اپنے نصیب سڑنے کا رونا روتی۔ یہ سب اپنی جگہ' ہر کوئی یہ ہی پوچھتا' آخر تم درخت پر کیوں چڑھے تھے۔ زکراں دن میں یہ سوال کئی مرتبہ پوچھتی' کیا جواب دیتا۔ اگر بتا دیتا تو ایسا یدھ پڑتا' کہ لوگ پانی پت کے رن کو بھول جاتے۔ حفاظتی تدبیر' اس کے گوڈوں گٹوں میں بیٹھ گئی تھی۔ اس نے سوچا' جو ہو گا' دیکھا جائے گا۔ یہاں ایک کھاتا ہے' وہاں تہتر کھائے گا۔ شاید وہاں تہتر کھانے کی شکتی بھی آ جائے گی۔ یہ بھی کہ اس نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے' جس کے صلہ میں' جنت اور جنت کی حوریں ملیں گی۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 184 Articles with 193787 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.