زبر زیر خود لگا لو

سب خوش ہیں مطمئن ہیں کسی کو کوئی شرم محسوس نہیں ہورہی ہے کوئی خفت محسوس کررہا ہے اور نہ ہی کوئی سبکی۔ بلکہ ایک دوسرے کو معافی مانگنے کی ترغیب دی جارہی ہے ہر کوئی اپنے آپ کو دودھ کا دھلا ظاہر کرنے میں جتا ہوا ہے۔ مسلم لیگ اور ان کے چاہنے والے اپنے ایماندار ثابت ہونے پر مٹھائیاں تقسیم کررہے ہیں بینرز اور ہورڈنگز لگا کر الیکشن کی شفافیت کے جھنڈے گاڑے جارہے ہیں پی ٹی آئی کے لوگ اپنے آپ کو قانون پسند اور زبان کے پکے ثابت کرنے کا علمبردار گردان رہے ہیں جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو اپنے حق میں نہ ہونے کے باوجود اسے تسلیم کرنے کی حامی بھر رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ خط کے ذریعے اور میڈیا کی مدد سے استعفی کامطالبہ بھی کیا جارہا ہے ۔ایک عجیب بھی کھچڑی پکی ہوئی ہے اور اس کھچڑی کے بے ہنگم اور غیر واضح نقوش عوام پاکستان کو پھرکی دے رہے ہیں عوام کش مکش کی چکی میں ہیں گومگو کی کیفیت گونگلو بنائے دے رہی ہے اس کی سمجھ کے خانے میں اہل اقتدار کے’’ کرتوت‘‘ فٹ نہیں بیٹھ رہے ۔کون سچا ہے کون جھوٹاکس نے الیکشن میں دھاندلی کی اور کون ایمانداری سے جیتا کس نے عوام سے ووٹ لئے اور کس نے شیطان سے ووٹ ڈلوائے لوگ تو کہتے ہیں کہ فرشتے ووٹ ڈال گئے جبکہ میرا ماننا ہے کہ فرشتے غلط کام نہیں کرتے یہ کام شیطانوں کا ہے جنہوں نے بیلٹ بکس بھر دیئے جن کا ریکارڈ بھی نہ ملا ہے۔

اس چو ں چوں کے مربے سے ایک بات واضح ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے کسی کو نہیں بخشا کسی کو کلین چٹ نہیں ملی۔ نہ ہی تو مسلم لیگ ن کو پارسا قرار دیا اور نہ ہی پی ٹی آئی کے الزامات کو مکمل طور پر تصدیق کی ہے اس حوالے سے اسلم رئیسانی کا تکیہ کلام کوڈ کرونگا کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے جعلی ہو کہ اصلی ہو استعفی تو استعفی ہوتا ہے مذاق میں ہو کہ غصے میں۔اب اگرووٹ تو ووٹ ہوتا ہے جعلی ہو کہ اصلی ہوکی بنیاد پر دیکھاجائے تو جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ درست ہے کہ بدانتظامی پائی گئی ہے رابطے کا فقدان تھا مانیٹرنگ سسٹم فیل تھا چیف الیکشن کمشنر اور صوبائی الیکشن کمشنرز کے مابین انفارمیشن کی سٹریم لائن جا بجا منقطع تھی ڈائریکٹر شیر افگن اس بات سے بے خبر تھے کہ اضافی بیلٹ پیپرز بھی چھاپے گئے ہیں اور چھپے ہیں تو ان کی تعداد کیا ہے ان کی ترسیل کا کیا نظام ہوگا کون وصول کریگا کہاں رکھے جائیں گے۔ آر اوز کس بنیاد پر ان اضافی بیلٹ پیپرز کو مہیا کریں گے وغیرہ وغیرہ تو جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ مسلم لیگ ن کے حق میں جاتا ہے کہ مجموعی طور پر(largely) الیکشن شفاف تھا اور اگر اس بات کو دوسرے اینگل سے لیاجائے کہ دھاندلی تو دھاندلی ہوتی ہے بڑے پیمانے پر ہو کہ چھوٹے پیمانے پر تو پھر پی ٹی آئی کے الزمات درست ثابت ہوتے ہیں کیونکہ بے ایمانی ایک پیسے کی ہو کہ ایک کروڑ روپے کی شرعی و قانونی طور پر قابل گرفت اور قابل مذمت ہے یہ الگ بات ہے کہ مملکت خداداد میں ایک پیسے کی بے ایمانی قابل گرفت ہوجاتی ہے اور ایک کروڑ کی بے ایمانی قابل تعظیم ہوتی ہے

بنظر غایت دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ میں ایسے تمام تنازعات اور ایشوز جن میں حکومت وقت، ارباب اختیار و اقتدار اور طاقتور طبقہ کی انوالومنٹ ہو تو ایسے ایشوز اور مسائل فیصل ہی نہیں ہوتے اور اگر ہوجائیں تو پھر ان کا سر پیر ڈھونڈنے کیلئے آپ کو دوبارہ جنم لینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ بھی ایسی ہی بے سروپا ،مبہم اور غیر واضح ہے۔اس کو سمجھانے کیلئے ایک مثال نذر کئے دے رہا ہوں ہمارے علاقے میں ایک شخص کوتوال کے نام سے مشہور تھا جو کہ حالات و واقعات کی بنا پر فاتر العقل اور مخبوط الحواس ہوگیا تھا اکثر و بیشتر گلیوں بازاروں بیچ چوراہوں پر کسی اونچی جگہ پر کھڑا ہوجاتا اور اپنی خود ساختہ تقریر شروع کردیتااور لوگ بھی خاطر مذاح اور تفنن طبع کیلئے اکٹھے ہوجاتے کہ چلو کچھ دیر کیلئے ہی سہی ہنسنے ہنسانے کا موقع تو ملے گا۔کوتوال اپنی تقریر ختم کرتا اور آخر میں ایک فقرہ ضرور بولتا ’’ وتعز من تشاء و تزل من تشاء‘‘ زبر زیر خود لگالو۔ تو پیاری عوام پاکستان! جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آچکی ہے اب اپنی اپنی سمجھ کیمطابق زبرزیر خود لگالو۔
 

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 192915 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More