حقیقت میلاد النبی - پچاسواں حصہ

مولانا اشرف علی تھانوی (1280۔ 1362ھ :-

مولانا اشرف علی تھانوی (1863۔ 1943ء) نام وَر عالم دیوبند تھے۔ آپ حاجی اِمداد اﷲ مہاجر مکی چشتی کے ہاتھ پر بیعت تھے۔ سیرتِ طیبہ پر آپ کی کتاب نشر الطیب فی ذکرالنبی الحبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشق و محبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوبی ہوئی تحریر ہے، جس کا آغاز ہی آپ نے مشہور حدیثِ جابر بیان کرتے ہوئے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق کے باب سے کیا ہے۔ بعد ازاں اِس نوع کی دیگر روایات بیان کی ہیں۔ اِسی طرح میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ کے خطبات کا مجموعہ بھی شائع ہوا ہے۔ مجالسِ موالید پر خطاب کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :

’’میرا کئی سال تک یہ معمول رہا کہ یہ جو مبارک زمانہ ہے جس کا نام ربیع الاول کا مہینہ ہے، جس کی فضیلت کو ایک عاشق ملا علی قاری نے اس عنوان سے ظاہر کیا ہے :

لهذا الشهر في الإسلام فضل
منقبته تفوق علي الشهور

ربيع في ربيع في ربيع
ونور فوق نور فوق نور

(اِسلام میں اس ماہ کی بڑی فضیلت ہے اور تمام مہینوں پر اس کی تعریف کو فضیلت ہے۔ بہار اندر بہار اندر بہار ہے اور نور بالائے نور بالائے نور ہے۔)

’’تو جب یہ مبارک مہینہ آتا تھا تو میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ فضائل جن کا خاص تعلق ولادتِ شریفہ سے ہوتا تھا مختصر طور پر بیان کرتا تھا مگر اِلتزام کے طور پر نہیں کیوں کہ التزام میں تو علماء کو کلام ہے۔ بلکہ بدوں اِلتزام کے دو وجہ سے :

’’ایک یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر فی نفسہ طاعت و موجبِ برکت ہے۔

’’دوسرے اس وجہ سے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ہم لوگ جو مجالسِ موالید کی ممانعت کرتے ہیں تو وہ ممانعت نفسِ ذکر کی وجہ سے نہیں۔ نفسِ ذکر کو تو ہم لوگ طاعت سمجھتے ہیں بلکہ محض منکرات و مفاسد کے اِنضمام کی وجہ سے منع کیا جاتا ہے ورنہ نفسِ ذکر کا تو ہم خود قصد کرتے ہیں۔

’’یہ تو ظاہری وجوہ تھیں۔ بڑی بات یہ تھی کہ اس زمانہ میں اور دنوں سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو جی چاہا کرتا ہے اور یہ ایک امر طبعی ہے کہ جس زمانہ میں کوئی امر واقع ہوا ہو اس کے آنے سے دل میں اس واقع کی طرف خود بخود خیال ہوا جاتا ہے۔ اور خیال کو یہ حرکت ہونا جب امر طبعی ہے تو زبان سے ذکر ہوجانا کیا مضائقہ ہے۔ یہ تو ایک طبعی بات ہے۔‘‘

اشرف علي تهانوي، خطباتِ ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 190

اِسی خطاب میں آگے ایک جگہ فرماتے ہیں :

’’تو میرا جو معمول تھا کہ اِس ماہِ مبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل بیان کیا کرتا تھا، وہ دوام کے حد میں تھا، التزام کے طور پر نہ تھا۔ چنانچہ چند سال تک تو میں نے کئی وعظوں میں فضائلِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا جن کے نام سب مقفی ہیں : النور، الظھور، السرور، الشذور، الحبور وہاں ایک ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوکہ اسی سلسلہ میں ہے مقفی نہیں۔ پھر کئی سال سے اس کا اتفاق نہیں ہوا کچھ اسبابِ طبعیہ ایسے مانع ہوئے جن سے یہ معمول ناغہ ہوگیا۔ نیز ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگ اس معمول سے التزام کا خیال نہ کریں جو کہ خلافِ واقع ہے کیوں کہ میرے اس معمول کی بڑی وجہ صرف یہ تھی ان ایام میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل اور دنوں سے زیادہ یاد آتے تھے نہ کہ اس میں شرعی ضرورت کا اعتقاد یا عمل تھا۔‘‘

اشرف علي تهانوي، خطباتِ ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 198، 199

فضل اور رحمت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اس مقام پر ہر چند کہ آیت کے سباق پر نظر کرنے کے اعتبار سے قرآن مجید مراد ہے لیکن اگر ایسے معنی عام لیے جائیں کہ قرآن مجید بھی اس کا ایک فرد رہے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ وہ یہ کہ فضل اور رحمت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدوم مبارک لیے جائیں۔ اس تفسیر کے موافق جتنی نعمتیں اور رحمتیں ہیں خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی اور ان میں قرآن بھی ہے سب اس میں داخل ہو جائے گی۔ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود باجود اصل ہے تمام نعمتوں کی اور مادہ ہے تمام رحمتوں اور فضل کا۔ پس یہ تفسیر اَجمع التفاسیر ہو جائے گی۔ پس اس تفسیر کی بنا پر اس آیت کا حاصل یہ ہوگا کہ ہم کو حق تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود باجود پر خواہ وجودِ نوری ہو یا ولادتِ ظاہری، اس پر خوش ہونا چاہئے۔ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے تمام نعمتوں کے واسطہ ہیں۔ (دوسری عام نعمتوں کے علاوہ) افضل نعمت اور سب سے بڑی دولت ایمان ہے جس کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم کو پہنچنا بالکل ظاہر ہے۔ غرض اصل الاصول تمام مواد فضل و رحمت کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات ہوئی۔ پس ایسی ذات بابرکات کے وجود پر جس قدر بھی خوشی اور فرح ہو کم ہے۔‘‘

اشرف علي تهانوي، خطباتِ ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 64، 65

مولانا اشرف علی تھانوی کے مندرجہ بالا اقتباسات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اُن کا عقیدہ ہرگز مجالسِ میلاد کے قیام کے خلاف نہیں تھا۔ وہ صرف اِس کے لیے وقت معین کرنے کے حامی نہیں تھے۔ بہ ہر حال میلاد شریف منانا اُن کے نزدیک جائز اور مستحب اَمر تھا۔

مفتی رشید احمد لدھیانوی (و 1341ھ :-

مفتی رشید احمد لدھیانوی (و 1922ء) تحریر کرتے ہیں :

’’جب ابولہب جیسے بدبخت کافر کے لیے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی اُمتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرے اور حسبِ وسعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خرچ کرے تو کیوں کر اَعلیٰ مراتب حاصل نہ کرے گا۔‘‘

لدهيانوي، اَحسن الفتاويٰ، 1 : 347، 348

علمائے دیوبند کا متفقہ فیصلہ (1325ھ :-

حرمین شریفین کے علمائے کرام نے علمائے دیوبند سے اِختلافی و اِعتقادی نوعیت کے چھبیس (26) مختلف سوالات پوچھے تو 1325ھ میں مولانا خلیل احمد سہارن پوری (1269۔ 1346ھ) نے اِن سوالات کا تحریری جواب دیا، جو ’’المھند علی المفند‘‘ نامی کتاب کی شکل میں شائع ہوا۔ اِن جوابات کی تصدیق چوبیس (24) نام وَر علمائے دیوبند نے اپنے قلم سے کی، جن میں مولانا محمود الحسن دیوبندی (م 1339ھ)، مولانا احمد حسن امروہوی (م 1330ھ)، مفتی اعظم دار العلوم دیوبند مفتی عزیز الرحمٰن (م 1347ھ)، مولانا اشرف علی تھانوی (م 1362ھ) اور مولانا عاشق اِلٰہی میرٹھی بھی شامل ہیں۔ اِن چوبیس (24) علماء نے صراحت کی ہے کہ جو کچھ ’’المھند علی المفند‘‘ میں تحریر کیا گیا ہے وہی ان کا اور ان کے مشائخ کا عقیدہ ہے۔

کتاب مذکورہ میں اِکیسواں سوال میلاد شریف منانے کے متعلق ہے۔ اس کی عبارت ہے :

أتقولون أن ذکر ولادته صلي الله عليه وآله وسلم مستقبح شرعًا من البدعات السيئة المحرمة أم غير ذلک؟

’’کیا تم اس کے قائل ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر شرعاً قبیح سیئہ، حرام (معاذ اﷲ) ہے یا اور کچھ؟‘‘

علمائے دیوبند نے اِس کا متفقہ جواب یوں دیا :

حاشا أن يقول أحد من المسلمين فضلاً أن نقول نحن أن ذکر ولادته الشريفة علية الصلاة والسلام، بل وذکر غبار نعاله وبول حماره صلي الله عليه وآله وسلم مستقبح من البدعات السئية المحرمة. فالأحوال التي لها أدني تعلق برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذکرها من أحب المندوبات وأعلي المستحبات عندنا سواء، کان ذکر ولادته الشريفة أو ذکر بوله وبزاره وقيامه وقعوده ونومه ونبهته، کما هو مصرح في رسالتنا المسماة بالبراهين القاطعة في مواضع شتي منها.

’’حاشا کہ ہم تو کیا کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت شریفہ کا ذکر بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کے گدھے کے پیشاب کے تذکرہ کو بھی قبیح و بدعتِ سئیہ یا حرام کہے۔ وہ جملہ حالات جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذرا سی بھی نسبت ہے ان کا ذکر ہمارے نزدیک نہایت پسندیدہ اور اعلی درجہ کا مستحب ہے، خواہ ذکر ولادت شریف کا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بول و براز، نشست و برخاست اور بے داری و خواب کا تذکرہ ہو۔ جیسا کہ ہمارے رسالہ ’’براہین قاطعہ‘‘ میں متعدد جگہ بالصراحت مذکور ہے۔‘‘

سهارن پوري، المهند علي المفند : 60، 61

اِنگلستان، امریکہ، یورپ اور عرب دنیا میں نام نہاد دانش وَر اور مقررین اپنی تقریروں کے ذریعے نئی نسل کو یہ کہہ کر گمراہ کر رہے ہیں کہ اِنعقادِ میلاد کی کوئی حیثیت نہیں، یہ ایک بدعت ہے جس کا وجود صرف پاکستان اور ہندوستان میں ہے، اس کے علاوہ اور کہیں نہیں۔ اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو اسلامی تاریخ کی تمام نام وَر علمی شخصیات جن کا حوالہ ہم اوپر دے چکے ہیں بدعتی قرار پاتی ہیں۔ اس میں ان کے متبعین کو بھی بدعتی کا لقب ملے گا۔ پھر پوری اِسلامی تاریخ میں بدعت کے فتویٰ سے کوئی نہیں بچے گا اور پورے اسلام پر بدعت کی اِس اِلزام تراشی کی زَد سے کوئی محفوظ نہیں ہوگا۔

جاری ہے۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 94194 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.