ترجیحات

تاریخ کے اوراق کا بغور مطالعہ کیا جا ے تو یہ با ت واضح طور پر عیاں ہوتی ہے کہ آ ج تک دنیا میں جہاں جو بھی نمایاں ترقی ؍ کامیابی حاصل ہو ٔی ا’ن میں حکمرانوں کی ترجیحات کا گہرا عمل دخل رہا۔ کم و بیش تعلیمی اصلاحات اور ا’ن پر سختی سے کار بند رہنا سر فہرست ہے دنیا کے نقشے پر آباد وہ ممالک جنہوں نے حقیقی معنوں میں معاشی ترقی کی اُن کی شرح خواندگی قابل ستائش اور مثال ہے خلیفہ ہارون رشید کا دور بھی تعلیم اور معلم کی قدر دانی کیوجہ سے جانا جاتا ہے۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید نے اپنے دربار یوں سے یہ سوال کیا کہ بتاؤ سب سے زیادہ خوش نصیب کون شخص ہے مختلف وزرا نے اپنی اپنی دانست میں جواب دیا اور کچھ نے تو خلیفہ وقت کو خوش نصیب قرار دیا مگر خود ہارون رشید نے اس کا بر ملا اظہار کیا کہ أس کی نظر میں وہ استاد خوش نصیب ہے جس کے جوتوں کو پکڑنے کیلۓ خلیفہ کے بچے ایک دوسرے سے سبقت لیجانا اپنے لۓ سعادت سمجھتے ھیں۔الغرض تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ مسلمان محققین جن میں البیرونی، الخوازمی، ابن رشد، اور اسحاق الگذری جیسے سینکڑوں درخشاں ستارے جن سے اسلامی تاریخ مزین ہے کے کارہائے نمایاں کو نہ صرف پزیرائی ملی بلکہ تعلیم کے فروغ اور ترویج پر مامور دیگر عظیم ہستیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور اُن کی بھرپور انداز میں حوصلہ افزائی بھی ہوئی۔

برصغیر میں جب سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی ترقی میں حائل بنیادی رکاوٹ کی نشاندہی کی اور انگریزی اور دیگر سائنسی علوم کی اہمیت کو اجاگر کر کے تعلیمی درسگاہوں کے قیام میں عملی اقدام کیئے تو بلا شک اُن کے ثمرات سے ترقی کے دریچے کھلنے شروع ہوئے۔

قا ئداعظم کی ترجیحات میں جہاں مسلمانوں کیلیئے الگ وطن کا قیام وقت کا اہم تقاضا تھا وہاں آپ نے نوجوان نسل کو ہمیشہ اد بات کی تلقین کی کہ وہ اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دیں تاکہ آگے چل کے ملکی تروی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں۔ قائد کی وفات کے بعد سے آج تک جو بھی حکمران آیا اگر ا’ن کے ادوار کا تجزیہ کیا جائے تو تعلیمی میدان کارکرگردگی مایوس کن ہی نظر آتی ہے اس کی بنیادی وجہ حکمرانوں کی تعلیم سے عدم دلچسپی کے سوا کچھ نہیں۔وطن عزیز میں آج تک قا ئم ہونے والی جامعات کی تعداد اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ا’ن ترجیحات میں تعلیم کو ثانوی حیثیت ہی دی گئی اور بلند بانگ دعووں کے باوجود تعلیمی بجٹ کی شرح میں اضافہ نہ ہو سکا بلکہ مخصوص کردہ بجٹ کو بھی ذاتی تشہیر پر بے دریغ استعمال کیا جاتا رہا اور تعلیمی درسگاہوں کی حالت جوں کی توں بلکہ بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے گزشتہ دنوں جب تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کیلئے واویلا کیا گیا تو یہ بات نمایاں طور پر ا’جاگر ہوئی کہ حکومت کے سرکاری سکولوں کی عمارتوں کی سیکورٹی انتہائی ناقص اور نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس حقیقت سے کسی کو انحراف نہیں کہ ملکی ترقی میں صنعت ، زراعت اور زرائع آمدورفت کی اپنی افادیت ہے مگر گزشتہ تین سے چار دہائیوں سے اگر ملکی صنعت کا جائزہ لیا جائے تو وہ لوڈشیڈنگ کی نحوست کا شکار ہے۔اسی طرح زراعت کا شعبہ بھی توجہ طلب ہے۔اگر چہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ حکمرانوں کی ترجیحات مین زبانی جمع خرچ کی حد تک محدود ہے عملی طور پر اس کیلئے کسی بھی حکمران نے سنجیدگیکا مظاہرہ نہیں کیا یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کو سیاسی نعرے سے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی کیونکہ عوامی استحصال ہمارے سیاسی قائدین کا بہترین مشغلہ بن چکا ہے۔

آج ہم جن قوموں سے متاثر ہو کر ا’ن کی تقلید کرتے ہوئے سڑکوں ، پلوں اور دیگر بڑے بڑے منصوبوں پر بے دریغ سرمایہ لگارہے ہیں کبھی یہ غور نہیں کیا کی ا’ن قوموں میں شرح خواندگی کس حد تک بڑھ چکی ہے اور وہ تعلیمی اور تحقیقی میدان کیا کیا کارہائے نمایاں کر چکے ہیں ۔ ہمارے ہاں بھی نوجوان نسل میں صلاحیت کی کمی نہیں مگر صد افسوس کہ ان کو ہمیشہ نظر اندازکیا گیا ضرورت اس امر کی ہے کہ اندھی تقلید کی بجائے ملکی اور عوامی ضروریات کومد نظر رکھتے ہوئے پسماندہ عوام کو حقیقی معنوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو اولین ترجیح دی جائے۔ اگرچہ رمضان کے مہینہ میں حکومتی سطح پر محدود پیمانے پر کوشش کی جاتی ہے کہ اشیاء خورد و نوش ارزاں نرخوں پر دستیابہ ہوں مگر ا’ن میں بھی کوالٹی کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوذ ناقص مال کی ترسیل سع اپنی ذاتی تسکین کر لیتے ہیں۔ اگر کوالٹی اور قیمتوں پر کڑی نظر رکھی جائے تو ہر جگہ ارزاں نرخوں پر روز مرہ کی ا شیاء دستیاب ہوں اور عوام کی پہنچ میں بھی ہوں۔
خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ

یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں مذہبی تہوار آنے پر حکومتی سطح پر عوام الناس کی ضروریات کا پورا پورا احساس کیا جاتا ہے اور حقیقی معنوں میں اشیاء سستے داموں مین نہ صرف فروخت کی جاتی ہیں بلکہ وافر مقدار میں دستیاب بھی ہوتی ہیں۔

حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر مختلف موضوعات پر بہت بحث ہورہی ہے جن مین عوامی رائے شماری بہت اہمیت رکھتی ہے مگر ارباب اختیار کی توجہ منبذول نہیں ہو رہی ورنہ رد عمل کے طور پر عوام کے اضطراب میں کمی دیکھنے کو ملتی۔ قومی بجٹ میں بھی ہمیشہ حکومتی ترجیحات میں سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقہ ہی مد نظر ہوتا ہے کیونکہ ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کا شمار بھی ان دو طبقوں سے ہی ہے اور ان کو غریب آدمی کی تکلیف اور درد کا سرے سے احساس نہیں ہوتا۔ دیکھنے میں یہ بات آتی ہے کہ حواری اور خوشامدی ہمیشہ ایسا تاثر دیتے ہیں کہ قومی بجٹ عوام دوست ہے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کیونکہ عوام کی بھلائی اور سکھ چین حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ۔
Tariq Manzoor Ahmad
About the Author: Tariq Manzoor Ahmad Read More Articles by Tariq Manzoor Ahmad: 6 Articles with 5183 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.