کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی زرداری زندہ ہے

" میں تاشقند کے راز فاش کروں گا " کے پر اسرار نعرے سے مقبولیت حاصل کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے ساٹھ کی دہائی میں پاکستانی سیاست میں ہل چل مچادی ۔ بھارتی وزیر اعظم شاستری تو تاشقند میں ہی چل بسے لیکن پاکستان کے وزیر خارجہ نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف ایک ایسی تحریک چلائی جو ایوب خان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرگئی ۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کا آئین دے کر ملک کے ہر طبقہ میں پذیرائی حاصل کی ۔ روٹی کپڑا اور مکان کے دلفریب نعرے نے پاکستان پیپلز پاڑٹی کو مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اپنی تقریر کے جادوئی اثر سے مجمہ پر سحر طاری کردینے والے بھٹو کی زندگی کا خاتمہ ایک جرنیل کے ہاتھ ہی ہوا۔ صدر ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے بعد بے نظیر بھٹو برسر اقتدار آئیں تو بہن کے دور حکومت میں ہی شاہنواز بھٹو کو قتل کردیاگیا۔ اندرون سند ھ کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کا گراف باقی چاروں صوبوں میں بھی بڑھتا چلا گیا۔ اور ایک ایسا وقت آیا کہ بے نظیر بھٹو ایک عالمی لیڈر بن گئیں اور پاکستان پیپلز پارٹی فیڈریشن کی علامت بن گئی۔ دسمبر 2007ء میں بھٹو خاندان کا سیاسی بصیرت رکھنے والا آخری چشم و چراغ بھی گل ہوگیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے وارثین میں اضافہ در اضافہ ہوتاگیا اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے عوض پاکستان پیپلزپارٹی 2008ء کے الیکشن میں کامیاب ہوگئی۔ جناب آصف علی زرداری اڈیالہ جیل سے منصب صدارت پہ فائز ہوگئے ۔ اس دور حکومت میں تین وزراء اعظم تبدیل ہوئے اور متعدد وزراء پر کرپشن کے الزامات بھی لگے۔

2013ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر صرف اندرون سندھ کی جماعت بن کے رہ گئی اور باقی صوبوں میں اسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان اختلافات کی خبریں بریکنگ نیوز بن کر مختلف چینلز پر کافی عرصہ تک چلتی رہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ماں کا نعرہ " کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے" بلند کیا تو تھر کے تپتے صحرا میں دم توڑتی لاشوں اور پیاس سے سسکتے بچوں نے یہ صدا دی "عوام مر گئی مگر بھٹو آج بھی زندہ ہے" ۔ کراچی کے بگڑتے ہوئے حالات میں جہاں ایم کیو ایم پر تنقید کی گئی وہاں برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی سخت ترین جملوں کا سامنا کرنا پڑااور کراچی میں بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں پیپلز پارٹی کے جیالے بھی ملوث پائے گئے۔ پچھلے پانچ سالوں سے پنجاب، سندھ ، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں جس طرح پیپلز پارٹی کی ساکھ متاثر اور مقبولیت کم ہوئی ہے اس کا ذمہ دار جیالے اپنے قائد کو ہی گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک پیپلز پارٹی کو اس نہج تک پہنچانے میں صرف اور صرف قصور آصف علی زرداری کا ہے۔ کہاں وہ بھٹو خاندان کا طرز سیاست اور پارٹی ورکرز کو اپنا سرمایہ سمجھنا اور کہاں آج زرداری کا ایک مخصوص ٹولے پر کرم اور نوازشات عطاء کرنا ۔ گزشتہ دور حکومت میں زرداری صاحب نے ملکی خزانے اور ملک کے باقی محکموں پر " مال مفت دل بے رحم " کا فارمولا آزمایا اور ہر جیالے کو اس کی وفاداری اور خوشامد کی مقدار کے عوض کرپشن کی چھوٹ دی ۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اپنے ہی دور حکومت میں حکومت نے بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کی قطعی کوئی کوشش نہ کی۔ اور بعض بے نظیر کے مخلص دوست اس لیے پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر چلے گئے کہ اب یہ وہ جماعت نہیں رہی جہاں مخلص کارکنوں کو عزت و تکریم ملا کرتی تھی ۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو چھوڑنے کے غداردی کے الزام سے بچنے کیلیے کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار نہ کی اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے۔

حالیہ چند دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی متعدد معروف شخصیات نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور عمران خان اس بات پر بے حد خوش ہیں کہ پیپلز پارٹی کے نظریاتی لوگ تحریک انصاف میں آرہے ہیں۔ خان صاحب شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ جو کسی جماعت کو چھوڑ دیتے ہیں ان کے کوئی نظریات نہیں ہواکرتے۔ اور یہ تو پرانی کہانی ہے کہ جو لڑکی چند دنوں کے عشق میں اپنے والدین کو چھوڑ دیتی ہے تو وہ کسی اور عاشق کی خاطر اپنے پرانے عاشق کو بھی خیر باد کہہ سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے اس بکھرتے ہوئے شیرازے کو مزید بکھرنے سے بچانے کیلئے بلاول بھٹو زرداری میدان عمل میں کود پڑے ہیں اور انہوں نے لاہور میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔

اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتاہے کہ ملک کو چاروں ہاتھوں سے لوٹنے والے پیپلز پارٹی کے ایم این اے اور وزراء کیا تحریک انصاف میں جاکر اپنے کالے دھن کو سفید میں تبدیل کرپائیں گے۔ تحریک انصاف کے آب زم زم یا گنگا نہا کر وہ پاک ہوجائیں گے۔ ان کا تو جو بھی مستقبل ہو وہ یہ جانیں لیکن پیپلز پارٹی کے مستقبل کے بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ آیا کہ بھٹو کی ہر دل عزیز جماعت 2018ء کے انتخابات میں اپنا وجود بھی برقرار رکھ سکتی ہے یا پھر صرف اندرون سندھ تک محدود ہوکر رہ جائیگی ۔ یہ بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ پیپلز پارٹی کے کئی دھڑے بن جائیں گے اور ہر دھڑا حقیقی پیپلز پارٹی کا دعوے دار ہوگا۔ اب کم از کم عوام اس نعرہ سے تو اکتا چکے ہیں کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا اور آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ وہ حقیقت کا سامنا کرنا چاہتے ہیں اوراس نعرے کے منتظر ہیں " کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی زرداری زندہ ہے" ۔
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 105682 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More