رستمِ ہند، رستمِ زماں: گاما پہلوان

آج ہمارے ملک میں فن ِ کشتی زوال پذیر ہے۔ اب ہمارے نوجوان اکھاڑے اور کسرت کی طرف مائل نہیں ہوتے ہاں باڈی بلڈنگ کلب ضرور جوائن کرتے ہیں تاکہ بازو ، سینہ اور سِکس پیکس خوبصورت بنا کر صنفِ مخالف کو متاثر کرسکیں۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہمارے پہلوانوں کے نام کا ڈنکا ساری دنیا میں بجتا تھا۔

ناصر بھولو، زبیر جھارا، اکرم پہلوان، گوگا پہلوان، اسلم پہلوان ،منظور حسین عرف بھولو پہلوان ، ان کے والد امام بخش پہلوان اور امام بخش پہلوان کے بھائی غلام محمد عرف گاما پہلوان جنہوں نے رستمِ پنجاب، رستمِ ہند اور رستم زمان کے اعزازات حاصل کیے۔ اس مختصر مضمون میں تمام ہی نامور پہلوانوں کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے آج ہم صرف رستم زمان گاما پہلوان کا ذکر آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔
 

image


رستمِ زماں گاما پہلوان جنہیں اپنے پہلوانی کے پچاس سالہ دور میں ناقالِ شکست رہنے کا اعزاز حاصل ہے 22 مئی 1878کوامرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عزیز بخش پہلوان ریاست کے درباری پہلوان تھے۔ ان کی وفات کے بعد غلام محمد عرف گاما اپنے ماموں عیدا پہلوان نے ان کی نگرانی میں پرورش پانے لگے۔

نو سال کی عمر سے انہوں نے پہلوانی شروع کی۔ان کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے ریاست دتیا کے حکمران مہاراجہ بھوانی سنگھ بہادر نے ان کی سرپرستی شروع کی۔کم عمری میں ہی گاما پہلوانوں نے اپنے وقت کے کئی معروف پہلوانوں کو زیر کرلیا ۔

19سال لہ عمر میں گاما نے اس وقت کے رستمِ ہند رحیم بخش عرف رحیم سلطانی والا کو دعوتِ مبارزت دے ڈالی۔ گاما پہلوان کا قد 5 فٹ 7 انچ تھا جب کہ رحم بخش پہلوان کا قد 6 فٹ 11انچ تھا۔ رحیم سلطانی والا نے گاما کی دعوتِ مبارزت قبول کرلی۔ گاما اور رحیم سلطانی والا کا یہ دلچسپ مقابلہ برابر رہا ۔
 

image

گاما پہلوان اور رحیم سلطانی والا کا اس کے بعد دو دفعہ اور بھی مقابلہ ہوا لیکن گاما رحیم سلطانی والا کو زیر نہ کرسکے۔ 1910 تک گاما پہلوان برصغیر کے تمام ہی معروف پہلوانوں کو شکست دے چکے تھے ماسوائے رحیم سلطان والا کے۔ اب گاما نے اپنی توجہ یورپی پہلوانوں کی جانب مبذول کی اور ان کا مقصد عالمی سطح پر اپنا لوہا منوانا تھا۔ 1910 میں گاما اپنے چھوٹے بھائی امام بخش اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ بحری راستے سے انگلستان(انگلینڈ ) روانہ ہوئے ۔ لندن پہنچنے کے بعد ابتدائی طور پر تو کسی نے ان کی آمد کا نوٹس نہیں لیا۔ یہاں پہنچنے کے بعد گاما پہلوان نے یہ کہہ کر تمام یورپی پہلوانوں کو دعوت ِ مبازرت دی کہ وہ کسی بھی تین پہلوانوں کو خواہ وہ کسی بھی کیٹگری کے ہوں محض تیس منٹ میں چت کردیں گے۔ ان کے اس اعلان کو محض توجہ حاصل کرنے کی ایک تیکنیک سمجھا گیا اور یورپی پہلوانوں اور انکے پروموٹرآر بی بینجمن R.B Benjaminنے اس اعلان کو درخوردِ اعتنا نہیں سمجھا۔

کافی وقت گزر گیا لیکن اس اعلان کا کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا ۔یہ بڑی حوصلہ شکن صورتحال تھی لیکن گاما اور اس کے ساتھی مایوس نہیں ہوئے۔کچھ عرصے بعد گاما پہلوان نے اس وقت کے مشہور پہلوانوں زبسکو اور فرینک گوچ وغیرہ کو چیلنج کیا اور کہا کہ یہ تو وہ انہیں پچھاڑ دے گا بصورت دیگر وہ انہیں انعام کی رقم دے کر اپنے وطن روانہ ہوجائے گا۔ اس اعلان کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا اور سب سے پہلے بینجمن رولر Benamin Rollerنامی امریکی پہلوان گاما کے مقابلے پر آیا۔ گاما نے رولر کو محض ایک منٹ 40سیکنڈ میں زیر کرلیا۔ یہ گاما پہلوان کی یورپی سرزمین پر پہلی کامیابی تھی۔ اگلے دن گاما پہلوان نے 12پہلوانوں کو چت کر کے بین الاقوامی کشی کے اکھاڑے میں قدم رکھ دیا۔

یہ صورتحال دیکھ کر اس وقت کے ہیوی ویٹ ورلڈ چیمپین STANISLAUS ZBYSZKOزبسکو نے گاما کے مد مقابل آنے کا چیلنج قبول کیا اور 10ستمبر 1910کو ان کا مقابلہ طے پایا۔جیتنے والے کو انعامی رقم کے ساتھ ساتھ ریسلنگ کی مشہور زمانہ جان بل بیلٹ JHON BULL BELLT دی جاتی اور وہ عالمی چیمپین تسلیم کرلیا جاتا۔ مقابلہ شروع ہوتے ہی گاما پہلوان نے لمحوں میں زبسکو کو پچھاڑ کر اسے زمین چٹا دی اور اسے داؤ لگا کر بے بس کردیا۔ دونوں پہلوان کم و بیش ڈھائی گھنٹے اسی پوزیشن میں رہے نہ زبسکو اس داؤ کا توڑ کرسکا اور نہ ہی اس نے شکست تسلیم کی۔ اس طرح یہ مقابلہ بے نتیجہ رہا ۔ دونوں پہلوانوں کو اگلے مقابلے کے لیے ایک ہفتے بعد یعنی 17ستمبر کی تاریخ دیدی گئی ۔ مقررہ تاریخ کو گاما اکھاڑے میں موجود رہے لیکن ان کا حریف زبسکو مقابلے پر نہ آیا اور اس طرح اصولی طور پر گاما پہلوان کو جان بل بیلٹ دیدی گئی اور یوں گاما پہلوان دنیا کے نمبر ایک پہلوان بن گئے۔
 

image

گاما پہلوان اس کے بعد ہندوستان واپس آگئے۔ یہاں بھی انہوں نے کئی مقابلوں میں حصہ لیا اور تمام ہی میں کامیاب رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا یورپی حریف زبسکو اپنی ہزیمت کو بھولا نہیں تھا اور کامل 17سال کی تیاری کے بعد اس نے گاما پہلوان کو چیلنج کردیا۔ 1927 کو برصغیر کے شہر پٹیالہ میں یہ مقابلہ منعقد کیا گیا ۔ایک عظیم مجمع کے سامنے مقابلہ شروع ہوا اور گاما پہلوان نے ایک بار پھر زبسکو کو پچھاڑ دیا لیکن اس مقابلے کی خاص بات یہ تھی کہ پہلے مقابلے میں دونوں پہلوان ڈھائی گھنٹے تک ایک دوسرے سے نبردآزما رہے لیکن سترہ سال بعد گاما نے محض 10منٹ میں ہی زبسکو کو پچھاڑ دیا۔

قیام ِ پاکستان کے بعد گاما پہلوان اور ان کا خاندان پاکستان کے شہر لاہور میں رہائش پذیر ہوئے۔اپنی زندگی میں 77سال کی عمر تک گاما پہلوان تمام معاصر پہلوانوں کو للکارتے رہے لیکن کوئی ان کا چیلنج قبول کرنے کو تیار نہ ہوا۔ گاما پہلوان کے تمام بیٹے کم عمری میں انتقال کر گئے البتہ ان کے چھوٹے بھائی امام بخش پہلوان کے بیٹوں نے ان کے نام اور فن کو زندہ رکھا اور ان کی زندگی میں ہی شہرت حاصل کی۔امام بخش پہلوان کے سارے بیٹے نامور پہلوان تھے جن کے نام یہ ہیں منظور حسین عرف بھولو پہلوان، اعظم پہلوان ، اسلم پہلوان، اکرم پہلوان اور گوگا پہلوان۔ ان کے بعد گاما اور امام بخش کی تیسری نسل میں زبیر جھارا اور ناصر بھولو نے شہرت حاصل کی۔23 مئی 1960 کو یہ عظیم پہلوان اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔لاہور کے پیر مکی قبرستان میں ان کی آخری آرام گاہ ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

The "Great" Gama also known as "Gama Pahalwan" is the stage-name of Ghulam Muhammad . Born in Amritsar, Punjab, British India, he was a Pakistani (wrestler). He was awarded the Indian version of the World Heavyweight Championship on 15 October 1910. Undefeated in a career spanning more than 50 years, he is considered one of the greatest wrestlers of his time. After Independence in 1947, Gama moved to the newly created state of Pakistan.