عید میلاد سے متعلق چند سوالات کے جوابات-حصہ چہارم

اعتراض:12 ربيع الاول تو نبی كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی وفات كا دن ہے تو اس دن عید منانا کیسا؟

جواب:اول تو یہ کہ 12 ربیع الاول کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم وفات ہونے کے بارے میں جملہ روایات ضعیف ہیں اور پھر علم تقویم کی رو سے بھی 12 ربیع الاول کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم وفات ممکن نہیں، کیونکہ اَحادیث صحیحہ سے دو باتیں ثابت ہیں:

1: 10هجری، حجۃ الوَداع کے موقع پر یوم عرفہ یعنی 9 ذوالحجہ جمعۃ المبارک کا دن تھا۔
2: رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال سوموار کے روز ماہ ربیع الاول میں ہوا۔

اب 9 ذوالحجہ 10هجري اور ماہ ربیع الاول کے درمیان محرم اور صفر دو ہی مہینے آتے ہیں، لہذا ذوالحجہ، محرم اور صفر تینوں مہینوں کو جس طرح بھی شمار کریں، یعنی چاہیں تو تینوں ماہ تیس دن کے، دو ماہ تیس دن کے، ایک ماہ اُنتیس دن کا ایک ماہ تیس دن کا، دو ماہ انتیس کے یا پھر تینوں ماہ انتیس دن کے، کسی بھی صورت میں 12ربیع الاول سوموار کے دن نہیں بن سکتی۔ بلکہ 12ربیع الاول 11 ہجری میں بالترتیب اتوار، ہفتہ، جمعہ یا جمعرات میں سے کسی ایک دن بنے گی، لہٰذا شارح بخاری حافظ ابن حَجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے 12 ربیع الاول يوم وفات والی روايت كو عقل و نقل کے خلاف قرار دیا ہےاور 2 ربیع الاول والی روایت کو ترجیح دی ہے۔

تو جب 12 ربیع الاول کے دن نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ثابت نہیں تو اعتراض سرے سے ختم ہو جاتا ہے۔ اور اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ 12 ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم وصال ہے تو بھی اس دن عید میلاد منانے میں کوئی امر مانع نہیں، کیونکہ حدیث پاک میں ہے : "ہمیں شوہر کے سوا کسی وفات پانے والے پر تین دن کے بعد سوگ (غم) منانے سے منع کیا گیا"۔ (صحيح البخاري، کتاب الحيض، باب الطيب للمرأة عند غسلها من المحيض)

اس حديث پاک سے ثابت ہوا کہ وفات کے بعد سوگ منانا شرعاً صرف تین دن تک جائز ہے، لہٰذا ہر سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے دن سوگ منانا شرعاً ناجائز ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے دن خوشی منانے کی شرعاً کوئی حد نہیں، ہر سال جائز ہے۔

مزيد يہ كہ حدیث پاک میں جمعہ کی فضیلت کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بیان ہوا کہ اس دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن آپ کی وفات ہوئی۔ (سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة، باب في فضل الجمعة) ليكن شريعت ميں جمعہ کے دن سوگ منانے کا حکم نہیں بلکہ جمعہ کو يوم عید قرار ديا گیا، جیسا حدیث نبوی میں ہے:"إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ جَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ، یعنی بے شک یہ جمعہ عید کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں کے لیے یوم عید بنایاہے"۔ (سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة، باب ما جاء في الزينة يوم الجمعة)

اب بتائیے کہ جس دن آدم علیہ السلام فوت ہوئے کیا اس دن کو عید کہنا درست ہے؟ اور اس دن خوشی منانی چاہیے یا غم کرنا چاہیے؟ اور کیا بیوہ کے علاوہ کسی کو تین دن سے زیادہ سوگ جائز ہے؟

مزید یہ کہ اَنبیاء کرام علیہم السلام ہم جیسے نہیں بلکہ ان کا تو وصال بھی امت کے لیے باعث رحمت ہوتا ہے جیسا کہ اَحادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے، چنانچہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"اللہ عزوجل جس امت پر رحمت کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کے نبی کو ان کی ہلاکت سے پہلے وصال عطا فرماتا ہے اور اسے امت کے لیے شفیع بناتا ہے، اور جب کسی امت کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہے تو انہیں ان کے نبی کے سامنے عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور اس کی آنکھوں کو ان کی ہلاکت کے سبب قرار بخشتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور اس کا کہنا نہ مانا"۔ (صحيح مسلم، کتاب الفضائل، باب إذا أراد الله رحمة أمة۔۔۔)

ایک دوسری حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "میری ظاہری حیات تمہارے لیے سراپا خیر ہے تمہیں کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے حکم آجاتا ہے اور میرا وصال بھی تمہارے لیے سراپا خیر ہے (کیونکہ) تمہارے اعمال میری بارگاہ میں پیش کئے جاتے رہیں گے، جب اچھے کام دیکھوں گا تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کروں گا اور جب بُرے اعمال دیکھوں گا تو تمہارے لیے اللہ سے مغفرت وبخشش مانگوں گا"۔ (مسند البزّار، مسند عبد الله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنه)

تو اگر 12 ربیع الاول کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم وصال مان بھی لیں تب بھی اس دن خوشی ماننے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ خود حدیث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات و وفات ظاہری، دونوں کو ہمارے لیےباعث خیر فرمایا گیا۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق قبول کرنے کی توفیق دے، آمین بجاہ النبي الأمین۔
هذا ما ظهر لي والله أعلم بالصواب وما عليّ إلا البلاغ
Hasnain Shoukat
About the Author: Hasnain Shoukat Read More Articles by Hasnain Shoukat: 12 Articles with 24980 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.