عید سے پہلے

لوگوں کی پتھرائی آنکھوں میں ایک دفعہ پھر حرکت دکھائی دے رہی ہے، لگتا ہے کچھ اچھا ہونے والا ہے۔ ورنہ تو کبھی کراچی، کبھی طالبان، کبھی خودکش بمبار اور کبھی سب سے بڑھ کر ہمارے نااہل سیاستدان ان سب نے تو قوم کو آزردگی، مایوسی اور ڈپریشن کے سوا کچھ نہیں دیا۔ مگر اب صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہے اوریہ سب ہمارے جوانوں کا کمال ہے ۔ خدا نہ کرے اب بھی کوئی مک مکا ہو کیونکہ حالات کی خرابی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ہماری بقاء خطرے میں تھی۔ آدمی کس کس ادارے کا ماتم کرے۔ سب ادارے تباہی سے دو چار ہیں۔ ہر جگہ بڑھک باز بیٹھے ہیں۔ وہ جہاں انتہائی سنجیدہ، متین اور خاموش طبع لوگ ہونے چاہئیں ان اداروں میں بھی عجیب صورتحال ہے ۔ کوئی ایک رنگ باز اور بڑھک باز پورے ادارے پرغالب ہے۔ بجلی کی صورتحال جس قدر خراب ہے اس کی اصلاح کے لئے بڑھکوں کے خان اعظم کو وزیر مملکت بنا دیا گیا ہے۔ بجلی کے بارے یہ حکومت بھی پچھلی حکومت سے بڑھ کر جھوٹ بولتی ہے۔ گوئبلز کے سارے پیروکار ہم نے پال رکھے ہیں۔ سیاسی کلچر اس قدر بگڑ چکا ہے کہ جو کرپٹ اور ناہل نہ ہو اسے سیاستدان ہی سمجھا نہیں جاتا۔ پچھلے دنوں لوگوں نے عمران خان سے کچھ غلط امیدیں باندھ لی تھیں۔ مگرعمران آج کل ان درد دل رکھنے والے سیاستدانوں کے نرغے میں پوری طرح دکھائی دیتا ہے جو پاکستان بننے سے آج تک ہر دور میں عوام کے مفاد میں بندروں کی طرح (معافی چاہتا ہوں، کچھ غیر پارلیمانی لفظ لگتا ہے) ڈال ڈال، پات پات چھلانگیں لگاتے ہر ہرے بھرے درخت پر ڈیرے جمائے رہتے ہیں۔ قانون اور انصاف سے وابستہ اداروں کے بارے کیا کہا جائے۔ وہاں بھی بہتری کے لئے کچھ وقت درکار ہے۔ صرف ایک آدھ بڑھک باز سارے ادارے کی ساکھ کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔

فوج کے بارے کچھ لوگوں کی ذات کے حوالے سے کوئی کچھ بھی کہے مگر بحیثیت ادارے کے یہ وہ واحد ادارہ ہے جو محفوظ ہے اور بے بس لوگوں کی نگاہیں اس پر مرکوز ہیں۔ پولیس والے لاکھ دعویٰ کریں کہ ہمارا احتسابی نظام بہت بااثر ہے مگر سب جھوٹ، وہاں ایماندار وہ ہے جو روٹین رشوت پر قناعت کرتا ہے۔ وہ رشوت تھانوں سے خودبخود آجاتی ہے۔ اسے وہ شیر مادر کی طرح وصول کرتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ اس کے علاوہ پیسوں کا لالچ کرنے والا کرپٹ ہے۔ یہ پولیس ہی نہیں پورے ملک کا سرکاری کلچر ہے۔ غنیمت ہے کہ فوج کے لوگ اس کلچر سے کسی حد تک ابھی پوری طرح واقف نہیں ہوئے اسی لئے لوگوں کو ضرب غضب اور کراچی آپریشن کے معاملے میں فوج سے بہت امید وابستہ ہے۔پولیس کے بارے ایک سینئر صحافی بتا رہے تھے کہ بہت سارے تھانیداروں نے اپنے ڈاکو پال رکھے ہیں، جہاں جاتے ہیں ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ تحفظ اور شراکت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔میں تو ہمیشہ سے اس بات کا قائل ہوں کہ ہماری پولیس ناقابل اصلاح ہے۔

وابستہ امیدوں کی بات چلی تو لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کراچی آپریشن اسی طرح چلتا رہا تو عید سے پہلے ایان علی اور جناب زرداری کی ملاقات متوقع ہے اور یقیناً سب کو یہ اندازہ ہو گاکہ ملاقات کہاں اور کن حالات میں ہوگی۔ نوازشریف البتہ خائف ہیں اور ڈر رہے ہیں اور میں سوچتا ہوں کہ کہیں اسی خوف کے سبب نواز زرداری بھائی بھائی سیشن شروع نہ ہو جائے اور وہ زرداری کو بچانے کے لئے کوئی غلط اقدام نہ اٹھا لیں۔ ویسے نواز شریف کا ڈر بھی بے جا نہیں۔ کراچی میں آپریشن زور و شور سے جاری ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی حمام میں جو لوگ ننگے نہا رہے ہیں ان میں سے کچھ کو خصوصی توجہ دی جائے اور باقیوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا ہی نہ جائے۔ چنانچہ امید ہے عید سے پہلے ان حلقوں کی نظر کرم پنجاب پر بھی ہوگی اور کچھ اقدامات یہاں بھی کئے جائیں گے۔ ابتدائے عشق میں پنجاب کے وزیر قانون چوہدری ثناء اﷲ کی ایان علی سے ملاقات بھی عید سے پہلے ہو سکتی ہے اوراگر عید سے پہلے نہ بھی ہوئی تو عید کے بعد سہی مگر یہ ملاقات ٹل نہیں سکتی ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سندھ پر کرپشن اور بے قاعدگیوں کے حوالے سے نوازشات کی بارش ہو اور پنجاب محروم رہے۔ انصاف کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔سوشل میڈیا پر آج کل ارسلان افتخار اور ایان علی کی دوستی کی بہت دھوم ہے۔ ایان تو اس کی ضرورت محسوس کرتی ہو گی مگر ان حالات میں کوئی ارسلان کام نہیں آتا۔

ایک بات میری سمجھ سے بالا ہے کہ اس آپریشن کے انچارج لوگ نیب پر کیوں انحصار کئے ہوئے ہیں؟ نیب بذات خود ایک کرپٹ ادارہ ہے۔ اس کے افسران مک مکا پر یقین رکھتے ہیں اور اس بات کی اجازت ان کا قانون بھی دیتا ہے۔ وہ سرکاری اور غیر سرکاری ہر سطح پر کرپٹ لوگوں کے ساتھ طے کر لیتے ہیں۔ کوئی بڑا یا مالدار آدمی قابو آجائے تو مک مکا اور اگر کوئی مڈل کلاس کا ایسا بندہ ہتھے چڑھ جائے جو کچھ دے نہ سکے اس کی تشہیر اس انداز سے کی جاتی ہے کہ الامان۔ کوئی انہیں یہ نہیں پوچھتا کہ ایک کیس کو تم کس قدر اچھالتے ہو، اس پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہو اور اگر وہ غلط ثابت ہوتا ہے تو تمہیں اس کی سزا کیوں نہ دی جائے؟ مگر یہاں سب جائز ہے۔ آپ کچھ کر لو۔ جتنی مرضی کرپشن کر لو۔ پوچھنے کوئی آئے اس کا حصہ دے دو۔ بس ٹھیک ہے۔ ایک کیس میں نیب کے لوگوں نے کرنل امتیاز کے فرضی نام سے مجھے فون کئے اور پیسے مانگے اور نہ دینے کی صورت میں دھمکیاں بھی دیں۔اس وقت میرے پاس پیسے ہی نہیں تھے لیکن اگر ہوتے بھی تو کیا۔رب العزت کامجھ پر یہ خاص کرم ہے کہ میں نے زندگی میں کسی حرام خور اور رشوت خورکو کبھی کوئی پیسے نہیں دئیے اور دعا ہے کہ اﷲ ایسے کسی بھی امتحان سے بچائے ۔ میں مشکور ہوں بریگیڈیر عباسی صاحب اور ان کے عملے کا ،کہ جب میں نے انہیں وہ سرکاری فون نمبر اور موبائل نمبر جن سے مجھ سے رابطہ کیا گیا تھا، دونوں دئے تو انہوں نے نیب کے ان کرپٹ لوگوں سے میری جان چھڑا دی۔

عید میں فقط چند دن باقی ہیں۔ امید ہے عید سے پہلے بہت کچھ ہوگا۔ گو یہ عید قربان نہیں، مگر ہر عید قربانی مانگتی ہے۔ انداز مختلف ہوتا ہے۔ فوج نے ہر لمحہ، ہر آن اس ملک کے لئے قربانی دی ہے۔ اب وہ لوگ جو جیلوں میں جاتے ہوئے وکٹری کا نشان بناتے ہیں کہ جیل تو اُن کی تربیت گاہ ہے۔قربانی کے لئے ان کی باری ہے۔ عید سے پہلے ان کی تربیت گاہ انہیں تربیت دینے کو بے چین ہے۔ بھیجنے والوں کو بھی سُستی نہیں کرنی چاہئے کچھ نہ کچھ تو عید سے پہلے بہت ضروری ہے!
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444891 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More