داعش کا رخ اب حماس کی جانب

 قیا مِ خلافت کے دلفریب نعرے کی آڑ میں شرمناک حرکات کی دوسری قسط

بلی تھیلے سے باہر آرہی ہے ۔میں نے اپنے محترم قارئین کے سخت اصرار کے باوجود کبھی بھی داعش پر قلم نہیں اُٹھایا ۔اس کو میری سادگی کہیے یا تساہل کہ جس موضوع پر غیر متعلقین نے بھی لکھا اس پر میں نے بہت دیر کی اور یقین کیجیے کہ میں آج بھی سادگی کی لمبی چادر تانے اس خواب کی تلاش میں سرگرداں ہوں جو خواب ہمارے پرانوں نے گزشتہ کئی صدیوں سے دیکھا اور تعبیر نہ نکلنے کے باوجود اس کو پھر دیکھتے رہے یہاں تک کہ ہندوستان کے معروف دانشور ’’وحید الدین خان ‘‘نے اس کی حقیقت سے ہی انکار کردیا کہ ’’ظہورِ مہدی‘‘کسی شخصیت کا نہیں کریکٹر کا نام ہے ۔میں عقائد میں اسلاف کا متشدد مقلد واقع ہوا ہوں لہذا تقلید کے ہاتھوں مجبور میرا عقیدہ ہے کہ’’ ظہورمہدی اور نزولِ عیسیٰ ؑ‘‘ہی نہیں بلکہ’’ خروجِ دجال ‘‘بھی ہوگا چاہے جب بھی ہوگا۔دجال شام کے آس پاس اسرائیلی قربت میں اپنی شیطانی کاروائیوں کا آغاز کرے گا ،امام مہدی ؓ کی ولادت خاندانِ سادات میں مدینہ میں ہوگی ،ان کی پہچان اور اعلانیہ بیعت کا آغاز بیت الحرام میں ہوگا ،وہ یہی سے کوچ کرتے ہو ئے شام کی جانب اپنا رُخ کریں گے ،شام میں فجر کی نماز کے دوران حضرات عیسیٰؑ کا نزول ہوگا اور یہی سے عالمی آخری فاتحانہ جہاد کا آغاز ہوگا اور یہی سے ’’دجال اکبر‘‘کا تعاقب ہوگا ،وہ بھاگتا ہوا اسرائیل کے آج کے مشہور فوجی ہوائی اڈے ’’لُد‘‘پہنچتے پہنچتے حضرت عیسیٰؑ کے ہاتھوں قتل ہوگا ۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی شام میں کوئی بھی ’’فتنہ‘‘سر اُٹھاتا ہے تو اہل سنت والجماعت کے اکابر ین پھرتعبیر ڈھونڈے لگتے ہیں کہ ہو نہ ہو اسی فتنے کی کوکھ سے حضرت امام مہدیؓ کا’’ ظہورِ رحمت‘‘اور حضرت مسیحؑ کا نزول ہو ۔

یہ تعبیر اور تمنا یوں ہی نہیں ہے بلکہ اس کی اصل نبی کریم ﷺ کی وہ حدیث ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے بیٹے (مہدیؓ) کے ذریعے ایسا عدل و انصاف قائم ہوگاکہ روئے زمین کے کونے بھر جائیں گے ۔ہم نے گزشتہ کئی صدیوں سے اس قیام خلافت کے تمنا کو سنبھالے رکھا ہے جب بھی کہیں سے کوئی شخص اس نام پر مسلمانوں کو بلاتا ہے تو اس کو جانچے بغیر ہر کس و نا کس کواسی پس منظر میں ایک مخصوص جذبے کے تحت قبول کرتا ہے ۔ پھر معاملہ عالم عرب کا ہو تو سوئی ہوئی آرزو میں پھر حرکت پیدا ہوتی ہے مگر وائے افسوس ہماری کوئی تمنا بھر نہیں آئی ،ہم ہر بار مایوس ہو ئے اور اب معاملہ یہاں تک بڑھ چکا ہے کہ عالم اسلام میں رہنے والے لوگ ہر ’’جہادی تحریک‘‘کے حوالے سے بہت محتاط نظر آتے ہیں اس لئے کہ ’’اسلام اور جہاد کے نام پر ‘‘جتنا استحصال اس اُمت کا اپنوں نے کیا شاید ہی کسی اور نے کیا ہو ،ویسے بھی یہ ایک زندہ جاویدحقیقت ہے کہ اپنوں کے زخم زیادہ گہرے اور بہت پُر درد محسوس ہوتے ہیں ۔
بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ داعش کی تحریک کی ابتدا بھی بہت محدود پیمانے پرغزہ سے ہی ہوئی تھی،ماحول ناموافق محسوس کرتے ہو ئے انھوں نے شام کی طرف اپنا رُخ کیا اور پھر بہت ہی کم وقت میں داعش ایک بہت بڑی تحریک بن کر اُبھری ۔اس کی ابتدا بھی اس وقت ہوئی جب عالم عرب میں بہارِ عرب کی لہر نے مشرق وسطیٰ کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ،علاقائی طاقتیں حرکت میں آئیں اور بہت کم وقت میں ایک ’’پر امن جدوجہد‘‘مسلح جنگ میں تبدیل ہوگئی اور بلاآخر عالمی ’’بد معاشوں کی بد معاشیوں کے نتیجے میں ‘‘اخوان المسلمون دہشت گرد تحریک قرار پائی اس لئے کہ عرب ڈکٹیٹروں کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ اخوان ’’بہارِ عرب کی مشکوک اور مبہم ‘‘تحریک کے اصل پشت پناہ ہیں حالانکہ اخوان کا مقصد اس کے سوا کچھ بھی نہیں تھا کہ وہ عرب ممالک میں مطلق العنانیت سے نجات چاہتے تھے ۔

داعش نے ’’طوفانی رفتار‘‘کے ساتھ جب اپنا رُخ عراق کی جانب مڑا تو اہل سنت حضرات کی ہمدردیاں ان سے بڑھنے لگی ۔جس کے کئی وجوہات تھے ۔ایک یہ کہ عراق میں ’’متشدد شیعہ ملیشیاؤں‘‘نے سنیوں کے خلاف انتہائی جارحانہ اور ذلت آمیز رویہ اپنا لیا تھا ،وہاں کی دل دہلانے والی خبریں جب باہر آنے لگی تو سنیوں کو صدام حسین کی یاد آنے لگی ۔داعش نے جب اپنے قدم جمالئے تو بلا توقف ’’قیام خلافت‘‘کا اعلان کردیا اور ’’ابو بکر البغدادی‘‘کو خلیفہ قرار دیدیا۔یہ اصطلاح سنیوں کے ہاں اسی طرح بہت محبوب اور مرغوب ہے جس طرح تقریباََ اہل تشیع کے نزدیک ’’امامت‘‘۔خلافت اور خلیفہ صاحب کی تعریفوں کے پل بندھنے لگے یہاں تک کہ ’’جناب‘‘نے امریکہ سے لیکر ہندوستان اور چین تک ہر غیر مسلم ریاست اور سعودی عربیہ سے لیکر پاکستان تک ہر مسلم ریاست فتح کرنے اور سبق سکھانے کی دھمکیاں دینی شروع کردیں ۔مسلکی مماثلت میں بعض کشمیری واعظوں نے بھی ابو بکربغدادی کے گیت گانے شروع کردئے یہاں تک کہ اچانک سعودی عرب میں مقیم ایک پاکستانی ’’واعظ‘‘نے انھیں خوارج قرار دیکر سعودی عربیہ کے مفتی اعظم کے فتوے کی توثیق کردی ۔

داعش سے متعلق اکثر لوگوں کا گمان یہ تھا کہ یہ لوگ ایسے صالحین کی جماعت ہے جو اُمت کے غم میں نڈھال اور پریشان ہے اور یہ لوگ کچھ کر گذرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہو ئے یہ خیال کیا گیا کہ پہلے عراق و شام کو فتح کریں گے اور اس کے بعد اسرائیل اور امریکہ سے دودو ہاتھ ہوں گے مگر یہ صرف یہ ایک سراب ثابت ہوا یہاں تک کہ 2جولائی 2015ء کو العربیہ ٹی وی سے یہ خبر نشر ہو ئی کہ داعش نے فلسطین کی مشہور جہادی تحریک حماس کو نتائج بھگتنے کی دھمکی دیدی ۔العربیہ کے مطابق عراق اور شام میں برسرپیکار سخت گیر جنگجو گروپ دولت اسلامی (داعش) نے غزہ کی پٹی کو اپنے نئے محاذ جنگ اور رجواڑے میں تبدیل کرنے کی دھمکی دی ہے اور اس فلسطینی علاقے کی حکمراں جماعت حماس پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ مذہب کا نفاذ مناسب طریقے سے نہیں کررہی ہے۔داعش کے ایک نقاب پوش رکن نے ''حماس کے غداروں'' کے نام سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں دھمکی دی ہے کہ ''ہم صہیونی ریاست اسرائیل ،آپ اور فتح کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔تمام سیکولرسٹ کچھ بھی نہیں ہیں اور آپ ہمارے درانداز ہونے والے جنگجوؤں کی بڑی تعداد سے شکست سے دوچار ہوں گے''۔اس جنگجو نے مزید کہا ہے کہ ''غزہ میں شریعت کی حکمرانی کا نفاذ کیا جائے گا۔ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ شام اور خاص طور پر یرموک کیمپ میں آج جو کچھ ہورہا ہے،وہی کچھ غزہ میں بھی ہوگا''۔وہ شامی دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع فلسطینی مہاجرین کے یرموک کیمپ کا حوالہ دے رہا تھا جس پر حال ہی میں داعش کے جنگجوؤں نے قبضہ کر لیا تھا۔یہ ویڈیو بیان شام سے جاری کیا گیا ہے اور اس میں پہلی مرتبہ اس طرح حماس کوکھلے بندوں چیلنج کیا گیا ہے۔اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) صرف اسرائیلی قبضے کے خلاف جہاد کی داعی ہے اور اس کا دنیا کے دوسرے ممالک میں جہاد کرنے کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔اس نے خود کو فلسطین تک ہی محدود رکھا ہوا ہے۔حماس کو اسرائیل ،امریکا اور یورپی یونین نے ایک دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔پڑوسی ملک مصر اس کو ایک علاقائی سکیورٹی خطرہ قرار دیتا ہے(العربیہ ڈاٹ نیٹ 2جولائی 2015ء)

گویا بلی تھیلے سے باہر آگئی جس کا مجھ جیسے کروڑوں ’’سیدھے سادھے ‘‘لوگوں کوانتظار تھا اس لئے کہ ہم تک میڈیا کی وساطت سے جو کچھ پہنچا تھا وہ یہ تھا کہ داعش ’’اُمتِ مظلومہ اور مرحومہ‘‘کی کھوئی ہوئی عزت کی بحالی کے لئے میدان میں کود پڑی ہے ۔ہم نے سادگی کی چادر تب بھی اُوڑ ھ لی تھی جب شام میں داعش نے اہل تشیع کے قتلِ عام کے بعد سنیوں کا بے دریغ خون بہایا ،ہم نے تب بھی سادگی میں عافیت محسوس کی جب داعش نے شام میں ’’جارح بشارالاسد‘‘ کے خلاف بر سرِ پیکار سنی مجاہدین کی گردنیں اُڑانی شروع کردیں ،ہم نے سادگی کے بینر تلے ’’قیامِ خلافت بدستِ داعش‘‘کے ارمان پالے جب شام میں داعش نے القائدہ اور النصرہ فرنٹ کے سینکڑوں نوجوانوں کو گرفتار کر کے چوراہوں پر بے دردی کے ساتھ ان کا خون بہایا۔وائے اتنا ہی ہوتاتو بھی شاید سادگی کا نسخہ کیمیا استعمال کرنے میں کوئی قباحت ہم محسوس نہ کرتے ،بلکہ ہم تب بھی خوش ہو ئے جب داعش کے تیز رفتار فوجی دستوں نے عراق میں گھس کر پہلے اہل تشیع اور پھر زیدیوں کا قتلِ عام شروع کردیا ۔اہلِ سنت کے صاحبانِ علم و تاویل نے داعش کے ہر ظلم کی خبر کو صرف ایک جملے سے قابل برداشت بنا دیا کہ یہ عراقی شیعوں کے سنیوں پر مظالم کا ردِ عمل ہے گویا جوظلم اہل تشیع کر رہے تھے اب وہی ظلم کرنے کی اجازت داعش کو بھی ہے ۔
اس کے بعد داعش نے اپنا رُخ اہلِ سنت کی جانب موڑ دیا اور یہ مطالبہ سامنے آگیا کہ جو شخص ابو بکر بغدادی کو خلیفہ تسلیم نہیں کرتا ہے وہ نہ صرف باغی اور طاغی ہے بلکہ وہ مرتد بھی ہے اور اس کا قتل داعش کے لئے جائز ہے ۔یہاں تک کہ ایک نجی مجلس میں ابو بکر البغدادی نے یہاں تک ’’ارشاد فرمایا‘‘ کہ’ اخوان المسلمون عراق‘ کے مرشد عام جو ابھی ان کے ہاتھ پر بیعت نہیں ہو ئے ہیں اگراسی حالت میں ان کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تو ان کے استاد ہونے کی بنا پر قتل نہیں کئے جائیں گے البتہ اگر ان کے کسی ساتھی نے انھیں گرفتار کر کے ان کے سامنے ذبح کردیا تو وہ منع نہیں کریں گے ۔’’خلیفہ صاحب ‘‘ نے اسی پر بس نہیں کیابلکہ ان کے ارشادات مسلسل سامنے آتے ہیں ۔ابو بکر بغدادی کے لشکر نے ابھی تک علویوں ،شیعوں،زیدیوں اور القائدہ اور النصرہ والوں کا ہی خون بہایا ہے ان کے ہاتھوں ایک بھی امریکی فوجی داعش کے بینر تلے ہلاک یا زخمی نہیں ہوا ہے ،مگر جن بہادر افغان طالبان نے ملا محمد عمر کی قیادت میں امریکہ کو افغانستان میں ذلیل و خوار کردیا ان کے امیر کے متعلق خلیفہ صاحب کے تاثرات انتہائی بازاری قسم کے ہیں’ کہتا ہے‘کہ Mullah Omer is a Fool ,Iilliterate and Warlordملا عمر بیوقوف ،جاہل اور جنگجو شخص ہے ۔اور اب ’’بیت المقدس ‘‘فتح کرنے کے خواب دیکھنے والی داعش نے اسرائیلی فوجوں سے گذشتہ کئی سال سے بر سرِ پیکار حماس(جو امت مسلمہ کا فرض چکاتی ہے اور قرض بھی)کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دے ڈالی ۔داعش نے مثال بھی یرموک کیمپ کی دیدی جہاں فلسطینیوں کا خون انتہائی سنگدلی کے ساتھ بہا دیا گیا ۔

یہ صورتحال دیکھ کر سوالات کا ایک تلاطم دماغ میں پیدا ہوتا ہے کہ آخر اُمت مسلمہ کہاں جا رہی ہے ،اس کا رُک کس طرف ہے ،اس کے اپنے کون ہیں اور غیر کون؟آج جنہیں ہم مسیحا سمجھتے ہیں کل وہی چنگیز اور ہلاکو کا روپ دھار لیتا ہے !یہ غلطی کس کی ہے ؟یہ نوجوان جہادِ برحق سے فساد کی جانب کیوں مڑے ؟انھیں اس احمقانہ راستے پر کس نے اور کیوں ڈالا؟کیا یہ ان کی ذاتی سوچ اور غلطی ہے یا یہ ان کی پشت پناہی کرنے والی دینی تنظیمیں اور بے رحم حکومتیں ہیں جنہیں آپس کے اعتقادی اور فکری اختلافات نے ایک آتش فشاں پر لا کھڑا کردیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اب بھی ہم نے ان ظالم خونِ مسلم سے رنگین ہاتھوں کو نہیں پہچانا تو بہت نقصان ہوگا جس کو یہ اُمت بعد میں پاٹ نہیں سکتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے اہل دردلوگ سامنے آجائیں اور مسلکی ،فکری اور تنظیمی اختلافات سے اوپر اٹھ کر وہ اس’’ بہروپیہ مجاہدجتھے‘‘کی نشاندہی کر کے اُمت مسلمہ کو صحیح اور سچی صورتحال سے با خبر کردیں ورنہ خطرہ اس بات کا کہ اُمت اپنا مقصد وجود بھول کر بھول بھلیوں میں بھٹک جائے گی۔
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 84049 views writer
journalist
political analyst
.. View More