رب کا پیغام عرب کے نام(2)

آسمانِ نبوت کے ہر دمکتے تارے کو اپنے ناپاک تھوک سے پیوندِ زمین کرنے کی کوشش کی ، باغِ نبوی کے ہر پھول کو بے دردی سےمسلنے کی ناکام سعی کی، لیکن اس تمام تر جلن اور چبھن کے باوجود اگر وہ خالص اجنبی اور بیرونی جر ثومے کی شکل میں جسد اسلام پر حملہ آور ہوتے،تو یقیناً ان کی شناخت بھی آسان ہوتی اور ان سے نجات بھی ،اسلئے کمالِ عیاری سے رسالتمآب ﷺ کے ایک قریبی عزیز کے پاک دامن سے چپک گئے ،اس پراپنے وجود کا ناپاک داغ لگانے میں کامیاب ہوگئے ، شیرِ خدا اپنی مخصوص حیثیت سے ان کے فائدہ اٹھانے کی شرارت بھانپ گئے تھے اور ان سے دامن چھڑانے کی بہت کوشش کی، حقیقی دامن تو ان کے ہاتھ نہیں آیا مگر جھوٹی دامن گیری سے ان کو کوئی کہاں روک سکتاتھا ، اس بیت مصطفی کے رکن رکین کی نام نہاد جانثاری کو انہوں نے حبّ آل بیت کا عنوان دے کر صاحب البیت کے مکمل مشن کوہائی جیک کرنے کی کوشش کی۔ آقاکی ۲۳ سالہ جدجہدپر پانی پھیرنے کیلئے زبان درازی او ردست درازی کا ایسا طوفان بپا کیاکہ جن سنگ دل اور حمیت کی آگ میں جلتے عربوں کو اسلام کے چشمہ شفاسے آب حیات پلاکر آقانے شیروشکر بنادیاتھا ان میں پھر سے قبائلی دشمنی کی بجھی ہوئی آگ کے شراروں کو پھونک پھونک کر بھڑکانے کی کوشش شروع کردی، مگر جب نیت میں فتور اور دل میں کھوٹ ہوتو قدم قدم پر باتوں اور دعوؤں کا تضاد نظر آتاہے۔ عقل کے اندھوں نے پیغمبر کے دادا کے والد ‘‘ ھاشم ’’ صاحب سے خانوادۂ نبوی کو نیک وبد میں تقسیم کیا، بنوہاشم کو خیر کاسرچشمہ ااور بنو امیہ کو برائی کی جڑ کہا ، اور دھڑلے سےکہہ دیاکہ دونوں میں سیادت کا جھگڑا ہے جبکہ دونوں بنی عبدمناف ،دونوں قصی اور لوئ کے چشم وچراغ اور عدنانی ،عربی ،اسماعیلی اور ابراھیمی تھے ، پیغمبر مطلبی بھی تھے ،ھاشمی بھی تھے مگر اوپر کے آباواَجدادِ امجاد کی طرف بھی آپ کی فخریہ نسبت ہوئی ہے ، امیہ میں کیا برائی تھی ، حرب میں کیا خرابی تھی صخر (ابوسفیان ) میں کیا خاندانی کمی تھی ؟ یقینا کچھ بھی نہیں، کہ یہ ہاشم ہی کی طرح ان کے دادا عبد مناف کی اولاد ہیں ،بنوہاشم اور بنو امیہ ایک شجر کی دوجڑواں شاخیں تھیں مگر یہاں تو اسلام کے تناوراور مضبوط شجر کو کاٹنا مقصود تھا جس کے لئے کسی کوتو برا کہنا تھا سو اس کے لئے ‘‘امیہ ’’ سے زیادہ موزون شکار فارس والوں کےلئے کون ہوسکتاتھا جن کی اولاد کے اسلام اور نبوت کے ساتھ گہرے مراسم اور حق کی سر بلندی کے لئےناقابل انکار کردار تھا، اس پورے دھڑکو مجروح کرنے سے جسداسلام کے درپئےآزار عناصر کو کامیابی کی کتنی امید ہوتی ہوگی اہل بصیرت کےلئے اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں اور ہاشم کی بجائے عبد مناف کی طرف رسول کی نسبت سے اسلئے سازشی ٹولہ گریزاں تھا کہ رسالت اسلام کے دست وبازوکی حیثیت رکھنے والے یارانِ غارومزار پر بھی حملہ ایجنڈے کا حصہ تھا سوجہاں وہ اس شجرہ نبوی سے جڑتے تھے اسکو یکسر نظر انداز کیا گیا کہ انہیں خیر کے سرچشمے سے بیدخل کیا جاسکے ۔

نیچے آکر جب پیغمبر کی حیثیت سے سیدہ فاطمہ مدح وثنا کی مستحق ٹھری تو باقی تینوں ہمشیراؤں کے وجود تک سے انکار کیاگیا تاکہ ‘‘امیہ ’’ کا کوئی قریشی بیٹا ذوالنورین ماننے کی نوبت نہ آئے ، سورج کی کرنوں کو ٹیڑھی انگلیوں سے چھپانے کی مضحکہ خیز کوشش کی گئی ، آلِ رسول بھی فاطمہ کے ہی فرزند بنے، باقی کوئی نہیں اسلئے کہ ان کے نام تین تاروں کے نام نامی تھے ، ابوبکر ، عمر ،عثمان شیر خدا کے تین بیٹے تھے ، حسنین میں بھی بڑے کو چھوٹے سے پیچھے رکھا گیا تھا کیوں کہ ان کے عمل (صلح) سے آل امیہ کی تائید ہوتی تھی تو انہیں ‘‘عار المؤمنین’’ تک کہاگیا ، کیوں کہ ‘‘جانثاروں ’’کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ۔

عرب اور اسلام لازم ملزوم ہیں ، اللہ کی کتاب اور پیغمبر کے خطاب میں اس حقیقت کو مختلف اسالیب کے ساتھ بیان کیا تھا ، جزیرۃ العرب کو شرپسندوں سے پاک کرنے کی ھدایت ،مدینۃ الرسول میں کسی مفسد کے پنپنے کی نفی ، امامت کو قریش کا حق قرار دینا ، حرم مکی میں غیر مسلموں کی آمد کی ممانعت ، یہ عربوں کی ذاتی اورمکانی فضیلتیں ہیں جو ظھور اسلام یا فتح اسلامی کے بعد سے آج تک بدخواہوں کے علی الرغم بلا توقف چلی آرہی ہیں ۔میلی آنکھوں سے دیکھنے والوں نے عربوں سے ان کادین ووطن جس سے ان کا خونی رشتہ ہے چھیننے کی نامسعود آرزو میں نسلیں کھپادیں اور صدیوں سے اپنے زہریلا پروپیگنڈے کے ہرداو و پیچ کو نامرادی سے دوچار ہوتادیکھامگر مارِآستین کا کردار ادا کرنے اور لومڑی کی چالیں چلنے سے باز نہیں آئے ، عربوں کی جغرافیائی چادر کو سمیٹنے لپیٹنے بلکہ اس کے بخیئے ادھیڑنے کی عنکبوتی سازشیں بڑی رازداری اور ذمہ داری سے کرتے رہنے کو کل وقتی مشغلہ بنایا۔

جابجا راستے میں گڑھے کھودنا اور ہر جگہ روڑے اٹکانے جیسی اوچھی حرکتوں سے اب آگے بڑھ کر رعب جھاڑنے اور سینہ زوریوں پر اتر آئے تھے ، عربوں نے بالآخر اپنے طبعی و روایتی صبر وحلم کی بجائے قہر وجبر کے روپ میں آنے کی ٹھا نی۔ کہ حضرت ِانسان خلیفۃ اللہ کو سرکش دماغوں سے ہزار نرمی کے بعد پروردگار کی صفت جباریت وقھاریت کا مظھَر بنناپڑتا ہے کہ اس کے بغیر اس باؤلے جانور کا کوئی علاج ممکن نہیں رھتا۔

ارض ِحرمین کے ارد گرد گیدڑ بھبھکیوں سے اللہ کے شیروں کو ڈرانے والوں کی مجوسی مٹی پلید ہونے کا وقت آگیاہے ۔

حلم وکرم کے پیکر عربوں سے بزدلانہ چھیڑ خانی کرنے والے عجموں کے چودہ طبق روشن کرنے کیلئے آج کی ‘‘سلمانی’’ لشکر کشی عربوں کے اس جلال کی ایک جھلک ہے جو اُن کی روایتی بردباری کی سرحدات ختم ہونے کے بعد شروع ہوتاہے ، یہ جلال دجل کے مریضوں کیلئے ایک خدائی نشترثابت ہوگا، یہ سکون کے تالاب کو گدلا کرنے کیلئے ٹرّانے والے بے موسم مینڈکوں کیلئے طوفان ثابت ہوگا ، اور امن کی فضا مکدر کرنے والے کیڑے مکوڑوں کا خاتمہ کرنے والا جراثیم کُش اسپرے ثابت ہوگا، بہت جلد حق کا بول بالا اور ناحق کا منہ کالا ہونے والا ہے ،حق پرست بھی شش وپنج سے نکل آئیں ، خدشوں اور مخمصوں میں رہنے کی گنجائش نہیں ، اپنا کردار ادا کرنے کا وقت ہے جو اور کچھ نہیں تو ‘‘حق ’’ کے حق میں آواز بلند کی صورت بھی ممکن ہے ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 816411 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More