رب کا پیغام عرب کے نام(1)

خدا کا کوئی شریک نہیں ہے، وہ خدائی کی طرح اپنی ہر صفت میں یکتاہے ،ارض وسمامیں اس کی کوئی مثال نہیں ، اور ہو بھی کیسے سکتی ہے، کہ موجودات ِارض وسماکو ہی اسی نے وجود بخشاہے ،اور پھر اس میں ایک خلقت بسائی اور کچھ کوزیب وآرائش ِموجودات کی خلعتِ فاخرہ دے کر ہی منظورِ نظر بنادیا ،سوپروردگار کی کاریگری کو اس کی ذات سےبرابری کی کیا مجال ، حضرت ِانسان مگر اس کا رخانے کا منیجر ہے، جس کو مالک سے بہت قربت حاصل ہے،اور مالک نے اسےاس کارخانے کا ناظم ہی نہیں اپنا نائب بھی کہاہے ۔

حق کا متلاشی انسان جو کسی منکرِ خدا اور الحادزدہ فلاسفر کے نتائجِ فکر یا مکتبۂ خیال کو نہیں جانتا ،مگر عقل کی نعمت اور فکر کی دولت کے بل بوتےپر جب اسلام کی اصطلاحات ومحاورات کے تناظر میں سوچتا ہے تو اسے کچھ یوں لگتا ہے اور ممکن ہے آپ کو بھی لگتا ہو اور بعید نہیں کہ بات بھی خدا لگتی ہو۔
اس کی دانست کہتی ہے کہ خدا کی ساری خدا ئی میں وہی شخص اس کے زیادہ قریب ہوتاہے جس میں اسکی صفات ِکمال وجمال کا انعکاس زیادہ ہو ،خدا کی صفات ہیں علیم وحکیم ،لطیف و خبیر ،سمیع وبصیر ،رؤوف ورحیم ، ،صبور وشکور ،حلیم ورشید ،قوی و متین ۔۔۔۔۔ اور وہ بندوں میں بھی انہی صفات کے حامل کو پسند کرتےہیں ،اور کچھ صفات وہ ہیں جو اللہ کی خاص صفات ہیں جو وہ بندوں میں دیکھنا گوارا نہیں کرتے ، یکتائی اور کبریائی خداہی کی ذات کو زیبا ہے جس کو اس نے اپنی چادرکہاہے ، اور لازوال وبے نیاز ہستی بھی اسی کی ہے ،عزت اور ذلت کی تقسیم بھی اس نےاپنے دست قدرت میں رکھی ہے ۔

اسلامی دنیا کی مسلّمہ اور متفقہ حقیقت ہے کہ برگزیدہ انسانوں کے سلسلۂ ذھبیہ( سنہری زنجیر) کی آخری کڑی ،جن پر جہاں کے سارے کمالات ختم ہیں وہ ھستی ہیں سرزمین عرب کے سپوت ، بطحاکے فرزند ، قریش کا گلِ سرسبد وخانوادۂ بنی ہاشم کے چشم وچراغ محمد عربی ﷺ، جن کی بدولت نوعِ آدمیت کو شرف حاصل ہے ۔عربوں کو بھی ان کی طفیل قوموں میں وہ رتبۂ بلند ملا جو اور توکیا بنی اسرائیل جیسے آل بیتِ نبی کے حصے میں بھی نہ آیا ۔

عربوں کو محمد کی طفیل عزت ملی ہے ، یہ تو ایک بلاغتی تعبیر ہے مگر منطقی ترکیب یوں ہے کہ پیغمبر آخر الزمان کیلئے قدرت نے جو کمالات بچائے رکھے ان میں ایک عربی نسبت بھی ہے یعنی عربی ہو نا ایک شرف واعزاز تھا جو رب نے سارے نبیوں میں عظیم امتیاز بناکر آپ کو دیا ، محمد عربی ایک ستائشی ترکیب ہے جس کا معنی یہ ہےکہ مصطفی کی طرح عربی ہو نا بھی آقا کا ایک وصفِ کمال ہے ،کمال پہلے سے کمال تھا جب محمد کے دامن میں آیا تو لازوال بنا ، عربی نسبت اصالت وشرافت ،بلندی وپاکیزگی کا استعارہ تھی جو آپ ﷺ کی طفیل ایک ابدی حقیقت بن گئی ۔

پیغمبر اسلام کے عہد میں غیر عرب بڑی قوموں میں یونانی، رومی ،اسرائیلی او رفارسی نسلی گروہ موجود تھے، جن میں رومی تو نصرانی دین کی شناخت رکھتے تھے، اسرائیل نسل پر یہودیت کی، اور فارسی نسل پر مجوسیت اور آتش پرستی کی چھاپ تھی۔ ان سب میں محمد کو عربوں کے نبی کے حوالے سے دیکھاگیا اور اسی بنیاد پر آپ کو قبول کرنے سے انکار کیاگیا، اب دین اسلام میں ان تینوں میں ایک فریق کی حیثیت سے اور عربوں میں دوسرے فریق کی حیثیت سے کچھ فرق رکھاگیا ۔

چناں چہ اسلامی ریاست کے قیام سے قبل تو پیغمبر کی ساری کاوشیں عربوں کی اصلاح کیلئے ہورہی تھی ،پھر جب سالہاسال کی مسلسل اصلاحی جدوجہد کے بعد مدنی معاشرے کی صورت اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا، جبکہ ادھر آپ کے متروکہ شہر میں اندر سے عربوں کا جاھلی معاشرہ بالکل کھوکھلاہوچکاتھا، ہر گھر میں کوئی نہ کوئی اہم فرد حلقہ بگوش اسلام ہوگیا تھا ،تب رسالتمآب نے بچی کھچی عرب بت پرستی پر پے درپے بے رحمانہ وار کیا، ان کی کمر توڑ دی اور ایک دن پھرفاتحانہ انداز میں بستیوں کی ماں (امّ القری ) پر چڑ ھائی فرمائی اوروہاں اسلام کے جھنڈے قیامت تک کیلئے گاڑ دیئے ۔ نبی آخر الزمان عربی تھے اور اولاً عربوں کو اللہ کے دین میں لانے کیلئے آپ کی بعثت ہوئی تھی ، رب کا فیصلہ تھا کہ عرب یا تو اسلام میں آئیں او رنہیں آئیں گے ،توپھر انہیں برسرِزمین زندہ رہنے کاکوئی حق نہیں ،چنانچہ عرب یا اسلام کے قلعے میں آگئے یا پھر موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ،جبکہ دوسروں کو جنگ کے آخری آپشن کےعلاوہ یہ بھی اختیار تھاکہ اگر وہ اس کی بالادستی قبول کریں، توبھی ان سے کوئی تعرّض نہیں کیاجائے گا، پیغمبر نے واضح کیا کہ جزیرۃ العرب کو اسلامی عقائد خصوصاً توحید ورسالت سے روگردانی کرنے والوں سے پاک رکھاجائے ،یہ دین محمدی کا گہوارہ اور اپنا مرکز ہو ،اور باقی دنیا جب تک اسلامی ریاست کے زیرنگیں نہیں آجاتی ہے اس سے مصالحت ومعاھدات اور بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات کا تصور ہو اور اسلام کا حصہ بننے کے بعد اس کے عجمی باشندوں کو قبول اسلام کے علاوہ حکومت وریاست ِاسلام تسلیم کرکے جینے کا بھی حق ہو ،تاریخ کے مختلف ادوار میں پوری دنیا میں ایسا ہوتا چلاآرہاہے ، تاہم یہ بھی اسلامی تاریخ کا ایک انوکھاواقعہ ہے کہ رومی ،مصری، افریقی ،ہندی اور دیگر قوموں میں تو لڑ کراسلام قبول کرنے اور یا پھر تسلیم ہونے کا تصور تھا، جبکہ سر زمینِ فارس نے اسلام کو ایک نئی او ر خطر ناک آزمائش سے دوچار کیا ،بظاہر تسلیم ہونے والوں نے ریاست ِاسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے، اس کی مضبوط عمارت میں رخنے ڈالنے اور موقع پاکر اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی مہم کو ٹارگٹ بنادیا ، اور بظاہر اسلام قبول کرنے والوں نے اسلام کے عربی ایڈیشن کو دبی زباں میں ناقابل قبول کہا او رجہاں موقع او رماحول ملابر ملابھی اس کا اظہار کیا ، خاتم النبیین کی طفیل پروردگار عالم نے عربوں کو جو وقعت ، شرافت اورنجابت عطا فرمائی تھی ،اس کا اہلِ فارس نے انکار کیا، عربوں سے یہودیوں کی رقابت تو معقول تھی کہ اولادِ اسرائیل (ابن اسحاق ) اپنی بابرکت دھرتی (ارضِ مبارکہ) اور باسعادت برادری میں وحی الہی اور نبوت کےصدیوں پر مشتمل سلسلے کی آخری کڑی بھی دیکھنا چاہتے تھے، جو اللہ نے ان کے کزنوں کو عطا کی، تو ان میں رقابت وعصبیت کا جذبہ انگڑائیاں لینے لگا جو بالآخر عداوت پرمنتج ہوا، مگر فارسی جو فارس بن علم بن سام بن نوح کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں وہ تواپنی پوری ہسٹری میں کوئی زمینی یا نسلی نجابت ثابت نہین کرسکتے، پیامبری کیلئے ان کی مٹی میں صلاحیت ہی نہیں رکھی گئی، پھر وہ کیوں ناحق برتری کے گھمنڈ میں مبتلا ہوئے ۔

بے بنیاد احساس برتری کے جوش نے فارسیوں کی بیمار رگ حمیت میں ایسا گدلا خون دوڑا دیا کہ انہوں نے پیغمبر آخرالزمان کے مبارک خون کا تقدس بھی ماننے سے انکار کیا، آقا ئے عربی کی نسبت سے آپ کی سواری بننے والے گھوڑوں ،گدھوں کوعظمت ملی ، بیٹھنے سے شجرو حجر کو رفعت ملی، قدم رکھنے سے مٹی کو برکت ملی ،چھونے سے لوہے لکڑی کو عزت ملی ، اوڑھنے سے لحاف اور کملی کو سعادت ملی ، خورد ونوش سے برتنوں کو مدحت ملی ،غرض ہر ذرہ کائنات جس کو آقاسے نسبت ملی، اسکی سرفرازی کو دوام ملا اور اسکی قسمت پر شمس وقمر اور ارض و فلک رشک کرنے لگے ۔

مگر سرکش انا کے بیماروں او رحسد کی آگ میں جلتے آتشیوں نے ستم کی حد کردی کہ آقا کے نسبی وصہری شجرہ کے کسی برگ وشاخ کو بخشا ، نہ مضبوط تنے اور پاکیزہ جڑ کو معاف کیا، ہر ایک کے حوالے سے ناروا ہرزہ سرا ئی کی۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 816647 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More