گلے کی پھانس

لیاقت علی خان،غلام محمد،سکندرمرزااورفیلڈ مارشل ایوب خان کہاں ہیں؟آغا محمد یحییٰ خان، وہ شہسوار ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل محمدضیاءالحق کیاہوئے؟؟اورمکے لہرا کر قوم کو ڈرانے والا کمانڈو پرویز مشرف؟؟؟

فرمایا!کتنے زمانے تھے جنہیں ہم نے ہلاک کر ڈالا۔آدمی پلٹ کر دیکھتا ہے تو ششدررہ جاتا ہے۔کتنے عہد کھنڈرات ہیں، بکھرے پڑے ہیں،تہہ خاک کتنے زمانے آسودہ ہوچکے یا محض قصے کہانیوں میں اس طرح زندہ ہیں کہ افسانہ حقیقت سے الگ نہیں ہوتا۔

پھر سورج طلوع ہوتاہے،گردوپیش کی رونق،اخبار کی رنگارنگی اورٹیلیویژن کی اسکرین دنیا بھر کے بازاروں کی ہما ہمی۔ پھر وہ سب کچھ بھول جاتا ہے، گویا موت کا کوئی وجود ہی نہیں، گویا زندگی دائم رہے گی،گویا قبروں میں اترنے والے کوئی اورہیں،ہمیں توکبھی مرنا ہی نہیں۔میرے ایک بہت ہی مالدار دوست مجھے لاہور کی ایک چمک دار بستی میں اپنے نو تعمیر مکان پر لے گئے اور داد طلب نگاہوں سے دیکھا کہ کیسا حیرت کدہ تعمیر کیا ہے۔میں بھی منہ پھٹ ایسا کہ دل میں آئی ہوئی بات کو اس کے منہ پرکہہ دیا کہ ایسے عالی شان گھر کی دلآویزی میں زندگی گزارنے کیلئے آدمی کی عمر کم از کم ایک ہزاربرس تو ہونی چاہئے۔

سات صدیاں ہوئیں ہیں،ہندوستان کے پایۂ تخت دہلی میں ایک درویش نے سوال کیا تھاکہ بادشاہوں کے نام اس قدر تیزی کے ساتھ ذہنوں سے کیوں اتر جاتے ہیں،گویا کبھی ان کا وجود ہی نہیں تھا اور ایسا کیوں ہے جنیدؒو بایزیدؒ کو ہم اپنے درمیان زندہ پاتے ہیں؟فرمایا !’’یہ سب حسن معاملہ کے سبب ہے‘‘ بدنصیبی یہ ہے کہ یہاں کبھی''سب سے پہلے پاکستان''کبھی ''نیاپاکستان'' اور کبھی ''خوشحال پاکستان ''کے نعرے تو لگائے گئے لیکن جس قلندرانہ نعرے ''پاکستان کامطلب کیا،لاالہٰ الا اللہ ''کو بلند کرکے اس ملک کوحاصل کیا گیا، اپنے رب سے یہ وعدہ کیاکہ ہم تیرے ان بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کرتیری غلامی میں دیں گے،ملک وملت اوراپنی زندگی کے تمام فیصلے تیرے حکم یعنی قرآن کے تابع ہوں گے، اس کوہم نے فراموش کردیا۔ جس سرزمین ''ریاست مدینہ ثانی''کیلئے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے جداگانہ تشخص کو بنیاد بنایااور جس کیلئے شہدائے آزادی نے عزم و ہمت کی تابندہ داستانیں لکھیں، دس لاکھ سے زائدافرادنے جام ِ شہادت نوش کیاجس میں لاکھوں بچیوں کی عصمتیں قربان ہوئی اور ہزاروں معصوم بچے خالق ِ حقیقی سے جاملے ،ہزاروں خاندان ایک دوسرے سے جدا ہو گئے او اپنے پیاروں کی جدائی کاغم دل میں لیکر قبروں میں جاسوئے ،اسے دینی،سیاسی اور قومی تشخص کے سارے قرینوں سے محروم کرکے محض زمین کا ایک ٹکڑا بنا دیناجہاں مصورِپاکستان حضرتِ علامہ اقبالؒ کی فکرِبلند کی نفی اوربانی پاکستان محمد علی جناحؒ کی محنت شاقہ ’’پاکستان‘‘کا مضحکہ ہے وہاں اپنے رب سے کئے گئے عہدکی خلاف ورزی اورمحمدؐ عربی کی محبت سےایک سنگین جرم کاارتکاب بھی ہے۔پاکستان کسی حادثے کی پیداوار ہے نہ اسے جغرافیائی تقاضوں نے جنم دیا ہے۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کہا تھا کہ ''پاکستان اسی دن قائم ہو گیا تھا جس دن بر صغیر کے پہلے شخص نے اسلام قبول کیاتھا۔''یہ قول پاکستان کوقیامت تک اسلام کے توانااورزندۂ جاوید نظریے سے وابستہ رکھے گا۔

سیاستدانوں،سرداروں اورلیڈروں کو الگ اٹھا رکھئے،ان سے ہماری کوئی امید وابستہ ہے اورنہ ان میں سے کسی کے پاس کوئی پرچم ہے، کوئی اقتدار کی آرزو میں بے تاب اورکوئی مال بے رحم بنانے کی ہوس میں مبتلا۔علمائے کرام سے سوال کرنے کی اجازت ہو تو پوچھنے کی جرأت کروں کہ حضور! کیا آپ ''حسن معاملہ'' کے مفہوم سے آشنا ہیں۔ سرورِ کون و مکاںۖ کے ساتھ صرف ٣١٣ آدم زادبدر کے میدان میں اترے تھے۔اس وقت مدینہ منورہ کی آبادی کیارہی ہو گی؟شائد دوہزارکے لگ بھگ اور صحرا میں پھیلے مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کتنی ہوگی، اغلباًایک ہزار کے قریب،لیکن پھر وہ ایک ملک بنے۔ایک نظام،ایک تمدن اورتہذیب صدیوں پر پھیلاہوا ایک عہد،جن کی دمک قائم رہے گی،جب تک گردشِ لیل و نہارقائم ہے۔اور اسپین میں ان کی تعداد کیا تھی؟ دس لاکھ سے کیا کم ہوگی اورپانچ سو برس کی سلطنت کے بعد کیا باقی بچا؟کبھی نہ ختم ہونے والا مرثیہ!

اگر نظریئے،اصول،آدرش اور اقدارمحض واہمے ہیں اور اگرعزت، خودی، حمیت،خودی،غیرت،اناصرف شاعرانہ تخیل کے تراشے ہوئے بت ہیں اوراگر قومی وقار، عزتِ نفس ، آزادی و خود مختاری فرسودہ ہوجانے والی لغت کے بے معنی الفاظ ہیں تو پھر ''سب سے پہلے پاکستان''،نیاپاکستان''اور''خوشحال پاکستان'' جیسے نعرے نہائت جا مع،مکمل اور با معنی ہیں۔اگر اپنی جان بچانا اور گھر کی کوٹھڑی میں رکھے سامان کے ساتھ دلوں کے توشہ خانوں میں رکھے عقیدوں،جذبوں اورمحبتوں کوبھی جنسِ بازاربنادیناحکمت ہے تو فرار ہونے والا ہر جرنیل،ہتھیارڈالنے والاہرسپاہی اوراپنی جان بچانے کیلئے معافی نامہ لکھ کرملک سے بھاگ جانے والاہرلیڈرتاریخ کے ماتھے کا جھومرہیں ۔ اگر زندگی،صبح و شام کے پیمانے سے جانچی جاتی ہے اور اس کا مرتبہ و مقام سانسوں کے طول و عرض سے متعین ہوتا ہے تو پھر لمبی عمریں پانے والے تمام غلام اور برسہا برس قبروں کا منہ نہ دیکھنے والے حشرات الارض کی سی زندگیاں گزارنے والے سارے لوگ بنی نوع انسان کے ہیرو ہیں ۔

اگر مجاہد کا بانکپن کسی نہ کسی بہانے اپنے آپ کو موت سے بچا لینے میں ہے تو کیپٹن سرور شہید سے کیپٹن کرنل شیر اور حوالدار لالک جان جیسے شہدائے وطن کے سینوں سے ''نشانِ حیدر''کے سارے تمغے اتار کرجنرل (ر) امیر عبداللہ نیازی اورہلال قائداعظم میڈل ان بدعنوان سیاستدانوں کی چھاتی پر ٹانک دینے چاہئیں۔اگر حکمت و دانش کی معراج اس قدر ہے کہ آئی قیامت کو ٹالنے کیلئے اپنی خواب گاہوں کی عصمت تک کو نذر کر دیا جائے تو تاریخ ِ انسانی کے اوراق میں درخشاں سارے چہروں پر حماقت کی کالک ملنا ہو گی اور غیرت و حمیت کے سارے تقاضوں سے دستکش ہوکرخود فروشی کی منڈیاں لگانے والے ہرحقیقت شناس قبیلے کو عزت و عظمت کی اونچی مسندوں پربٹھانا پڑے گا اور اگر اظہارآزادی کے نام پرملک دشمن عناصرکے ہاتھوں میں کھلونابن کرملک کی جڑوں کوکھوکھلا کرنا، ملک دشمن افرادسے میڈل وصول کرنااوربغیرتحقیق کے جھوٹی کہانیاں تحریر کرکے ایسے محب وطن افرادپرغداری کاالزام لگاناجواب اس دنیامیں بھی موجود نہیں، بہادری ہے تومیڈیاکوان افرادکیلئے ''تمغہ حسن کارکردگی '' تجویزکرناہوگا۔
کوئی ہے جو صرف انہی سوالوں کے جواب دے کہ یہ سوال ایک دفعہ پھر قوم کے گلے کی پھانس بن گئے ہیں!
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350587 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.