قانون دان اور قانون شکنی

پاکستان میں معمولی واقعات اورقومی سانحات کوبنیادبناکر پرتشدد احتجاجی مظاہروں، جلاؤ گھیراؤ، توڑپھوڑاورطوفان بدتمیزی کامنفی کلچردن بدن فروغ پا رہا ہے۔احتجاج ہر متاثرہ فردیا گروہ کابنیادی حق ہے مگرکسی کو صبروتحمل کادامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔کسی کواحتجاج کے نام پرریاست کے اندرریاست بنانے کاحق نہیں پہنچتا۔انصاف کی مانگ کرتے ہوئے ناانصافی کابازارگرم کرناکہاں کی انسانیت اورشرافت ہے۔پرتشدد احتجاج وہاں ہوتاہے جہاں آئین وقانون کی حکمرانی نہ ہو۔جہاں بروقت انصاف نہیں ملتاوہاں انتقام عام ہوجاتا ہے۔ہم طبقات کے نام پراپنے اوردوسروں کے درمیان نفرت اورتعصب کی دیواریں تعمیرکررہے ہیں۔پولیس کے ساتھ خوامخواہ الجھنااوردوران ڈیوٹی اہلکارو ں کی توہین کرنا معاشرے کے مٹھی بھر بااثر افراد نے اپنابنیادی حق سمجھ لیا ہے۔ ملزم کوتفتیشی مرحلے کی تکمیل کے بعدمجرم ڈکلیئرکرنا پولیس جبکہ شواہد کی روشنی میں اسے کیفرکردارتک پہنچانا عدلیہ کاکام ہے ۔شاہراہوں پرفیصلے کرنے کارجحان عدلیہ کی آزادی سے انکار جبکہ ریاست کی رٹ چیلنج کرنا ہے ،خاص طورپروہ کالے کوٹ والے جوعدلیہ کی آزادی کاکریڈٹ لے رہے ہیں اگر وہی آئین ،قانون اورعدلیہ پراعتماد نہیں کریں گے توپھرکون کرے گا۔ڈسکہ میں ایس ایچ اوشہزادچیمہ پر دووکلاء کے قتل کاسنگین الزام ہے ،ملزم کیخلاف بروقت ایف آئی آر درج کرتے ہوئے اسے فوری گرفتارکر لیا گیا ہے،اب موصوف آزاد عدلیہ کے رحم وکرم پر ہیں پولیس چاہے بھی تواس کے ساتھ نرمی نہیں کرسکتی لہٰذاء وکلاء پرسکون رہیں اورفیصلے کاانتظارکریں ۔سانحہ ڈسکہ کے پس منظرمیں جوبھی حالات رہے ہوں ملزم شہزادچیمہ کواپنے اختیارات سے تجاوزکرنے اوردوانسانوں کوموت کے گھاٹ اتارنے کاکوئی حق نہیں پہنچتا ۔ملزم کوسزادینے کااختیار صرف عدلیہ کے پاس ہے ۔ملزم نے اشتعال میں آکرجوانتہائی اقدام کیاوہ اس کا ذاتی فعل ہے ،اس سانحہ کوپولیس فورس سے جوڑنا اورپولیس کیخلاف نفرت کی فضابنانا درست نہیں ۔ہرملزم اورمجرم کاتعلق کسی نہ کسی خاندان اورطبقہ سے ہوتا ہے تواس فردواحد کے گناہ کی سزاپورے خاندان کونہیں دی جاسکتی ۔اپنے دووکلاء ساتھیوں کے بہیمانہ قتل پرکالے کوٹ والوں کاغم وغصہ فطری ہے مگران کا ضرورت سے زیادہ ری ایکشن ان کیخلاف ایکشن کامتقاضی ہے ۔جس طرح قاتل شہزادچیمہ کوگرفتارکیا گیا ہے اس طرح احتجاج کی آڑمیں توڑپھوڑ اورجلاؤگھیراؤ کرنیوالے وکلاء کوبھی قانون کی گرفت میں لیا جائے کیونکہ کوئی ملزم اورمجرم قانون سے ماوراء نہیں ہے ۔حضرت عمرفاروقؓ کافرمان ہے'' جوریاست مجرموں پررحم کرتی ہے وہاں کے بیگناہ لوگ بڑی رحمی سے مرتے ہیں''۔ سچائی اورجھوٹ میں فرق کرنیوالے کوفاروق کہاجاتا ہے،میرے محبوب حضرت عمرفاروقؓ کایہ فرمان پاکستان پرپوری طرح صادق آتا ہے۔وکلاء کے قاتل کوگرفتارکرلیا گیا ہے لہٰذاء پرتشدد مظاہروں میں قومی املاک توڑنے والے ہاتھوں کوبھی ہتھکڑیاں پہنائی جائیں یامحکمہ پولیس ختم کردیا جائے ۔اگر پولیس والے سبھی برائیوں ،بحرانوں ،بدعنوانی اور بدامنی کی روٹ کاز ہیں توانہیں صرف دوروزکیلئے گھروں میں بٹھادیا جائے توپھردیکھیں گے کون کون پولیس کی حفاظتی حصار کے بغیر گھرسے باہرنکلتا ہے۔کسی ایس ایچ اویااہلکارکاذاتی کردارجوبھی ہواگروہ یونیفارم میں ہے تواس کی عزت کرناہوگی اوراس کے احکامات کوتسلیم کرناہوگا۔پولیس ایک ڈسپلن فورس ہے اس کے سواکون ہے جوقانون کی پاسداری یقینی بنائے۔اگرپولیس کے ڈنڈے کاڈر نہ ہوتو کوئی عدلیہ کے فیصلوں کوتسلیم اوران کااحترام نہیں کرے گا ۔سانحہ ڈسکہ میں بھی سابق ایس ایچ او شہزادچیمہ جویقینا وردی میں تھا اس کی تضحیک کی گئی اوراسے مشتعل کیا گیاجس کے نتیجہ میں دووکلاء مارے گئے ۔اگرہم ایک دوسرے کے اختیارات کوچیلنج نہ کریں تواس قسم کے سانحات اورحادثات سے بچاجاسکتا ہے۔پولیس کی طرح و کلاء برادری بھی ایک حقیقت ہے اورعوام کوانصاف کی فراہمی کیلئے دونوں لازم وملزوم ہیں لہٰذاء ان کاآپس میں الجھنایاان کے درمیان تصادم ہرگزمناسب نہیں۔

مجھے بتایا گیا مقتول راناخالد عباس ایڈووکیٹ کیخلاف تھانہ ڈسکہ میں چھ مختلف مقدمات نمبر (1)17/1989دفعات 506،248/1990نمبر (2) دفعات 148,149اور336،19/1992نمبر (3)دفعات 148,149،324،337اور302،نمبر (4) 49/1992دفعات اسلحہ آرڈیننس،372/1998نمبر (5) دفعات 337A2/34،337L2،337A3جبکہ نمبر (6) 144/2002 دفعات 148،149 392،186،353درج ہیں۔ان مقدمات میں کس حدتک صداقت تھی یایہ جھوٹ کاپلندہ تھے اس کافیصلہ یقینا عدالت نے کردیا ہوگا۔ مقتول راناخالد عباس ایڈووکیٹ اورملزم شہزادچیمہ کے درمیان ایساکیاہواتھا کہ جس پریہ اندوہناک سانحہ رونماہوگیا ۔یہ حقیقت توتحقیقات کے بعدہی منظرعام پرآئے گی ۔مقتول کی مبینہ اشتعال انگیزی کے باوجود ایس ایچ اوشہزادچیمہ کوصبروتحمل اورقانون کادامن ہاتھ سے ہرگزنہیں چھوڑنا چاہئے تھا ۔ملزم کے اس گھناؤنے فعل سے ملک کوکس قدرنقصان پہنچاہے ۔وکلاء برادری کے اعلان کے مطابق کوئی ایڈووکیٹ ملزم شہزادچیمہ کی وکالت نہیں کرے گاتوپھرعدل وانصاف کے تقاضے کس طرح پورے ہوں گے۔وکلاء نے وزیراعلیٰ پنجاب سے ملنے والے اپنے برادری بھائیوں کی باررکنیت بھی معطل کردی ہے۔ہوسکتااگلے مرحلے میں ان وکلاء کی رکنیت بھی معطل کردی جائے جوپولیس اہلکاروں کے رشتہ داریاعزیزواقارب ہیں یاجواپنے کسی جائز کام کیلئے تھانوں میں چلے گئے توشایدوہ بھی عتاب کانشانہ بن جائیں ۔یہ کس قسم کی تعلیم وتربیت ہے ،کالے کوٹ کوتشدد،تعصب اور بلیک میلنگ کی علامت نہ بنایاجائے۔ دلیل سے بات کرناوکیل کی پہچان اورشان ہے ۔ کسی قانون دان سے قانون شکنی کی امید نہیں کی جاسکتی ، ا نہیں انصاف تک رسائی کیلئے صرف عدالت کادروازہ کھٹکھٹاناہوگا۔ریاست کوللکارنے سے بات نہیں بنے گی ۔ سانحہ ڈسکہ کامرکزی ملزم ایک ایس ایچ اوہے اگر قاتل کوئی عام آدمی بھی ہوتا تووکلاء اس صورت میں بھی پرتشدد احتجاج کرتے کیونکہ ہمارے ہاں مجموعی طورپر یہ مائنڈسیٹ بن گیا ہے ۔پولیس اہلکارہوں یاوکلاء کسی کوایک دوسرے پریاعام شہریوں پرتشدد کرنے کی اجازت نہیں ہے۔''عزت دواورعزت لو'' کے اصول کے تحت ایک دوسرے کااحترام ناگزیرہے۔

ملزم کی گرفتاری کے بعد وکلاء کے پرتشدداحتجاجی مظاہروں کے نتیجہ میں ڈی پی اوسیالکوٹ آصف شہزادکوہٹانا اورڈی ایس پی معطل کرنا حکومت کی بزدلی اورپسپائی ظاہرکرتا ہے۔وکلاء توججوں سے بھی الجھتے اوران پرحملے کرتے رہے ہیں جبکہ ماضی میں عدالت کے اندربھی کئی بار پولیس اہلکاروں کوتشددکانشانہ بنایاجاتارہا ہے۔پنجاب حکومت نے آئی جی مشتاق احمدسکھیرا کے تحفظات کے باوجود متنازعہ فیصلہ کیا جس سے پولیس فورس کامورال بری طرح متاثرہوا۔اگرپولیس کے انتظامی فیصلے آئی جی پنجاب مشتاق احمدسکھیراکوکرنے دیے جائیں تو صوبائی حکومت کوبار بار بلیک میل نہیں ہوناپڑے گا۔27ایس ایچ اوزکی طرف اجتماعی استعفوں کاعندیہ یاارادہ تنگ آمدبجنگ آمد کے مصداق ہے تاہم گجرانوالہ کے قائم مقام آرپی اواورپروفیشنل پولیس آفیسروقاص نذیرنے بروقت اوربڑے تدبر سے پنجاب پولیس کوایک بڑابحران اورامتحان سے بچالیا ۔وقاص نذیراپنے منصب اورکام سے بجاطورپرانصاف کررہے ہیں۔آئی جی پنجاب مشتاق احمدسکھیرا نے ابتدائی طورپرڈی پی اوسیالکوٹ آصف شہزاد کے حق میں مزاحمت کی مگر حکمران طبقہ دانائی کی بات کہاں سنتااورسمجھتا ہے ۔تھانہ کلچر کوتبدیلی کی آڑمیں کچرے کاڈھیربنانیوالے کوئی اورنہیں حکمران اورسیاستدان ہیں۔مشتاق احمدسکھیرا پنجاب حکومت کے کس کس ناجائزحکم کوتسلیم کرنے سے انکارکریں اوراپنے ادارے کی ساکھ بچانے کیلئے کس حدتک ان کے مدمقابل کھڑے ہوں۔پاکستان کاخوشامدپسندحکمران طبقہ مزاحمت کاروں اورانکارکرنیوالوں کونہیں صرف تابعداروں کوپسندکرتا ہے۔

لاہورمیں عدالت عظمیٰ کے ایک جج کے والد اوروالدہ کوبے رحمی سے قتل کردیا گیا تھامگر ججوں نے پرتشدد احتجاج اورنہ عدالتی کاروائی کابائیکاٹ کیا۔فوج ،رینجرزاورپولیس کے آفیسرزاورجوان دوران ڈیوٹی جام شہادت نوش کرتے ہیں کچھ کو مختلف واقعات میں قتل کردیاجاتا ہے مگر کبھی وہ لوگ ڈنڈے لے کر شاہراہوں پرنہیں آئے ۔سانحہ پشاور کے معصوم شہداء کے ورثانے توڑپھوڑ نہیں کی تووکلاء کاشمارتوباشعورطبقہ میں ہوتا ہے انہیں بھی پرتشدد احتجاج کی روش بدلناہوگی ۔اگرکوئی سمجھتا ہے کہ توڑپھوڑ ،جلاؤگھیراؤاورتشددسے لوگ مرعوب ہورہے ہیں تووہ غلطی پر ہے ۔کسی سے ڈرنے ،کسی کی عزت اورکسی سے محبت کرنے میں زمین آسمان کافرق ہے۔ وکلاء سمیت کسی بیگناہ کاقاتل انجام سے نہیں بچے گا۔ڈسکہ میں 2وکلاء کاقتل پولیس گردی نہیں بلکہ گرفتار ایس ایچ او کاانفرادی اورجذباتی فعل ہے،اس معاملے میں یقینا انصاف ہوگا اورظاہر ہے انصاف کسی فردیاگروہ کی خواہش پراورشاہراہوں پرنہیں بلکہ ٹھوس شواہد کی بنیادپرہوگا ۔پرامن احتجاج وکلاء کاحق ہے مگر بحیثیت ادارہ پولیس کیخلاف اعلان جنگ سے تلخیاں پیداہوں گی ۔اس قسم کے اندوہناک سانحات کاسدباب اورریاستی اداروں کوگندی مچھلیوں سے پاک کرناازبس ضروری ہے۔کسی جذباتی اورمعمولی باتوں پراشتعال میں آنیوالے آفیسرزکوایس ایچ اولگایاجائے اورنہ کسی انتظامی منصب پر بٹھایا جائے۔ ہمارامعاشرہ جلاؤ گھیراؤ،توڑپھوڑ،تعصب اورتشدد کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ڈسکہ میں ناحق قتل ہونیوالے دونوں وکلاء کے قاتل کوسزاضرورملے گی تاہم احتجاج کی آڑمیں دوسرے پولیس اہلکاروں کوتشددکانشانہ بنانا،شہریوں کوپریشان کرنااورشہری وقومی املاک جلانادرست نہیں تھا۔ کسی فردواحد کے گناہ اورجرم کواس کے ادارے سے منسوب نہیں کیا جاسکتا ۔ عدلیہ آزاد ہے،انتقام کاراستہ اختیارکرنے کی بجائے ہمیشہ انصاف کادروازہ کھٹکھٹایاجائے۔ اپنے ساتھیوں کے بہیمانہ قتل پرکالے کوٹ والوں کاغم وغصہ فطری ہے مگر پرتشدد احتجاج کرناان کے شایان شان نہیں۔قانون دان سے قانون کی پاسداری کاحلف لیا جاتا ہے اس کی طرف سے قانون شکنی زیادہ قابل گرفت ہے ۔اگرکالے کوٹ والے قانون،عدلیہ اورانصاف پر اعتمادنہیں کریں گے توپھرکون کرے گا ۔ جواہلکاراپنے ادارے کی بدنامی کاسبب بنے اسے نکال باہر کیا جائے۔ کالے کوٹ والے بھی اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں سے جان چھڑائیں۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.