کیا ایران تبدیل ہوگیا ہے؟

ایران میں ١٩٧٩ء میں برپاہونے والے ولایت فقیہہ کے انقلاب کے بعدامریکا کو ''شیطان بزرگ''کے نام سے یادکرنے کی ایسی رویت چلی کہ یہ نعرہ ایران کے عام و خواص میں زبان زدِ عام ہوگیا۔امریکاکی ہرچیزسے نفرت ایران کی پہچان بن گئی لیکن اب وقت تیزی سے بدل رہاہے۔امریکاکے جس پرچم کوسیکڑوں بار نذرِآتش اور پاؤں میں روندا گیا ،آج وہ ایران میں نہ صرف جابجا لہرانے لگاہے بلکہ کئی منچلے اپنی کاروں اوردیگرسواریوں میں بعض محبت بھرے جملوں کے ساتھ اپنی دلی محبت کا اظہار بھی اسی شدت سے کررہے ہیں جس طرح کئی برس تک اپنی نفرت کااظہار کیا کرتے تھے۔''العربیہ''کے مطابق ٣٦سال قبل انقلاب ایران کے وقت ایرانی طلبہ کی تہران میں امریکی سفارت خانے پریلغارکے بعدتعطل کاشکارہونے والے سفارتی تعلقات ایک بارپھربہتری کی طرف گامزن ہیں۔حال ہی میں تہران میں ''فجر'' فلم فیسٹیول کے نام سے لگائے فلمی میلے میں کئی دوسرے ملکوں کے قومی پرچموں کے عین درمیان امریکاکاقدرے بڑاپرچم بھی لہراتادکھائی دے رہاتھا جسے دنیاکے تقریباً تمام بڑے چینل نے ایران کی خارجہ پالیسی میں یک واضح تبدیلی کے نام سے دکھایا ۔

دوبرس ہوئے امریکا،ایران کے ساتھ علاقائی جنگ بندی پرخفیہ مذاکرات کر رہاہے اوراب دوطرفہ معاہدے پرپہنچنے کے بعدان کثیرالجہتی مذاکرات کے فریم ورک کے اندررہتے ہوئے جو٢٠٠٣ء سے کھنچے چلے آرہے ہیں ،ان دونوں نے جوجوہری مسئلہ اوراقتصادی پابندیوں کے حل کااعلان کیاہے ،ایک خوش قسمت گواہ تھیڑی میسن نے اس پیچ درپیچ سفارتی صورتحال میں داؤ پر لگے مفادات کارازافشاء کیاہے اوربتایاہے کہ آنے والے دس برسوں میں واشنگٹن کس طرح خلیج فارس اور(مشرقی بحیرۂ روم کے ساحلی علاقے) لیوانت کے خطے کومنظم کرنے کاارادہ رکھتاہے۔

مارچ ٢٠١٣ء کے بعدسے امریکااورایران کے درمیان جوخفیہ بات چیت ہورہی تھی اس کے غیراعلانیہ رابطوں کاآغازعمان میں ہوا۔ایرانیوں کیلئے جن کابے نظیرمعاشی اورمالیاتی محاصرے تلے دم گھٹ رہاتھااس میں یہ سامراج کے آگے ہتھیارڈالنے کاسوال نہیں تھابلکہ ہربات چیت جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچ کرچندسال کی مہلت حاصل کرنے کیلئے تھی ، صرف اتناوقت جس میں وہ دوبارہ قوت پکڑسکیں۔امریکاکیلئے جسے امید ہے کہ وہ اپنی فوجیں مشرق قرب سے مشرق بعیدمنتقل کرنے کے قابل ہوجائے گی،یہ موقع تہران کی جانب سے ان خصوصی ضمانتوں کے ساتھ جڑا ہوا تھا کہ ایران اس معاہدے سے فائدہ اٹھاکراپنے اثرکومزیدتوسیع نہیں دے گا۔

امریکی ٹیم کے درجہ اوّل کے دومذاکرات کار،جیک سلیوان اورولیم برنرہدایات دے رہے تھے۔ایرانی وفدکن لوگوں پرمشتمل تھایہ سامنے نہ آسکا۔سلیوان سابق امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کے اہم مشیروں میں سے تھے لیکن وہ ان کی طرح نہ تو اسرائیل کی اندھی حمایت کے طرف دارتھے اورنہ ہی اخوان المسلون کے عشق میں مبتلا،انہوں نے لیبیااورشام کے خلاف جنگوں کااہتمام کیا ۔ جب صدراوبامانے ہلیری کلنٹن کونکال باہرکیاتوسلیوان،نائب صدرجان بائیڈن کی نیشنل سیکورٹی کے مشیربن گئے۔یہ وہ اثر و رسوخ تھا جس کی بناء پر سلیوان ایران کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہوئے۔جہاں تک ولیم برنرکاتعلق ہے وہ ایک پیشہ ورسیاست کارہیں اوریہ کہاجاتاہے کہ وہ امریکاکے پاس موجود بہترین سفارت کاروں میں سے ایک ہیں،وہ اپنے معیارکے مطابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے معتمدکی حیثیت سے مذاکرات میں شامل ہوئے۔

کم ازکم دوفیصلے ان مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔پہلایہ کہ سپریم کمانڈرآیت اللہ خامنہ ای،پاسداران انقلاب کے سابق سربراہ اسفند یاررحیم مشاری کو صدارتی دوڑ سے باہررکھنے کا ذمہ لیں گے،مشاری سابق صدراحمدی نژاد کے سسرالی رشتے داراوراب کابینہ کے سربراہ ہیں۔اس طرح اب ایران بین الاقوامی معاملات پرسخت گیربیانات سے گریزکرے گا اور اپنے مؤقف میں نرمی لے آئے گا ۔اس کی پیروی کرتے ہوئے امریکابھی اپنے ایران مخالف اتحادیوں کے رویوں میں نرمی لانے کی ذمہ داری لے گااور مذاکرات کونتیجہ خیزبنائے گاکہ آخرکارپابندیاں ختم ہوں۔

درحقیقت شورائے نگہبان قانونِ(جس کے نصف ارکان آیت اللہ خامنہ ای کے نامزدکردہ تھے)نے اسفندیاررحیم مشاوری کے نام کوصدارتی امیدواروں کی فہرست سے خارج کر دیاجبکہ عوامی جائزے واضح طورپرپہلی بارووٹنگ ہی میں انہیں جیتتاہوادکھا رہے تھے۔انقلابیوں کی صفوں میں تقسیم کی بدولت ،جو سپریم رہنماء نے بڑی ہنرمندی کے ساتھ کاشت کی تھی،شیخ حسن روحانی صدرمنتخب ہوگئے۔موقع کے لحاظ سے وہ ایک موزوں شخص تھے ،ایک قوم پرست مذہبی رہنماء جوجوہری مسئلے پر٢٠٠٣ء تا٢٠٠٥ء تک سربراہ کی حیثیت سے مذاکرات میںشریک رہ چکے تھے۔جب محموداحمدی نژادصدربنے اورانہوں نے روحانی کواس عہدے سے سبکدوش کیا تواس سے قبل روحانی تمام یورپی مطالبات تسلیم کر چکے تھے ۔مسٹرروحانی نے اسکاٹ لینڈمیں آئینی قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اورایران گیٹ کے دوران میں وہ پہلے ایرانی تھے جن سے امریکااوراسرائیل نے براہِ راست رابطہ کیا۔٢٠٠٩ء میں آیت اللہ رفسنجانی اور خاتمی کی مددسے سی آئی اے کی جانب سے کی جانے والی رنگ انقلاب کی کوشش کے دوران میں انہوں نے احمدی نژادکے خلاف مغرب نواز مؤقف اختیارکیا۔دریں اثناء ان کے مغربی رہنماء ہونے کی حیثیت نے ملاؤں کو پاسداران انقلاب کے ہاتھ سے ریاست دوبارہ اپنے قبضے میں لینے کے قابل کیا۔

اس کے جواب میں امریکانے بھی اپنے سعودی اتحادیوں کواپنارویہ نرم کرنے اورنئی ایرانی حکومت کاکھلے دل سے خیرمقدم کرنے کی ہدایات دیں۔چندماہ تک ریاض اورتہران کے درمیان خوشگوار تعلقات رہے جبکہ شیخ روحانی نے بھی امریکی ہم منصب سے ذاتی طورپر تعلقات استوارکرنے کی کوششیں جاری رکھیں ۔وائٹ ہاؤس کامنصوبہ تھاکہ فلسطین ،لبنان، شام ،عراق اوربحرین میں ایران کوملنے والی کامیابیوں پرتوجہ کی جائے اوراپنے انقلاب کوتوسیع دینے کی کوشش ترک کردینے کے بدلے ان ممالک میں ایران کواپنے حاصل کردہ اثر و رسوخ سے لطف اندوز ہونے دیا جائے ۔ مشرق قریب کوروسیوں کے ساتھ بانٹ لینے کے خیال کوترک کردینے کے بعداب واشنگٹن کی نظر یہاں سے اپنی فوجیں نکالنے سے قبل اس خطے کو سعودیوںاورایرانیوں کے درمیان تقسیم کردینے پر مرکوزتھیں۔

اس ممکنہ تقسیم کے اعلان نے اچانک ان تجزیوں کوتقویت دی جوعلاقائی واقعات کوشیعہ سنی تنازع کے طورپرپیش کرتے ہیں۔اگرچہ یہ بالکل بے تکی بات ہے کیونکہ اکثراوقات رہنماؤں کامذہب نچلے طبقوں سے ان کو حمایت مہیاکرنے والے افرادکے مطابق نہیں ہوتاتاہم اس تقسیم نے مشرق قریب کو دوبارہ بغدادپیکٹ والے دور میں لاکھڑاکیا ۔دوسرے الفاظ میں یہ سردجنگ کے زمانے والی صورتحال تھی سوائے اس حقیقت کے کہ اب ایران سوویت یونین کاکرداراداکررہاتھااوراثرپذیرعلاقے مختلف اندازمیں بٹے ہوئے تھے۔اس سے قطع نظرکہ یہ صورتحال موجودہ روسی فیڈریشن کوصرف ناراض ہی کرسکتی تھی ،یہ نئی تقسیم اسرائیل کوواپس اس دورمیں لے گئی جب اس کے اوپر امریکی چھتری نہیں تھی۔وزیراعظم بنیامین نیتن یاہوکے نقطہ نظرسے جواس ملک کو (نیل سے فرات تک)توسیع دینے کے بڑے حامی ہیں ، یہ ناقابل قبول تھاچنانچہ اس منصوبے پرعملدرآمدکے تسلسل کوسبوتاژکرنے کیلئے جوکچھ ان کے بس میں تھا،انہوں نے کیا۔یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ٢٠١٤ء کے آغازمیں جنیوامیں جوہری معاملے پرمعاہدہ طے پا چکاتھالیکن امریکی مذاکرات کار وینڈی شرمین نے اسرائیلی مطالبات پرزوردیناشروع کردیاتھا تاکہ معاہدے کے دام بڑھائے جا سکیں۔انہوں نے اچانک اس بات کااظہارکیاکہ واشنگٹن محض ان ضمانتوں کوقبول نہیں کرے گاجن کے مطابق ایران کیلئے ایٹم بم بناناناممکن ہو گابلکہ وہ اس بات کی بھی ضمانت مانگے گا کہ ایران اپنے بیلسٹک میزائلوں کی تیاری بھی ترک کردے ۔اس حیران کن مطالبے کوچین اورروس نے رد کر دیااوراس بات کی طرف اشارہ کیاکہ ایساکوئی مطالبہ جوہری توانائی کے معاہدہ عدم پھیلاؤاین پی ٹی(١٥)کے دائرہ عمل میں نہیں آتا۔

واقعات میں یہ نیاموڑظاہرکرتاہے کہ اس معاملے میں ایٹم بم امریکاکاکبھی ہدف نہیں تھااگرچہ خوفناک معاشی اورمالیاتی محاصرے سے نبرد آزماایران کوقابو کرنے کیلئے انہوں نے اس عذرکواستعمال کیا۔مزیدیہ کہ صدراوبامانے بھی اپنی ٢اپریل کی تقریرکے دوران ڈھکے چھپے الفاظ میں اس بات کااعتراف کیااور سپریم رہنماء کے اس فتوے کی طرف بالواسطہ اشارہ کیاجواس طرح کے ہتھیارکو ممنوع قراردیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران نے اپناعسکری جوہری پروگرام،١٩٨٨ء میں آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف کیے گئے اعلان کے کچھ عرصے بعدہی ترک کردیاتھا۔

اس وقت کے بعدسے ایران نے اپنی صرف سول جوہری تحقیق جاری رکھی اگرچہ اس تحقیق کے بعض اجزاء کے جنگی مضمرات ہوسکتے تھے جیساکہ اس کاجنگی بحری جہازوں میں بطور توانائی استعمال ہوسکتاتھا۔ امام خامنہ ای کامؤقف ،آیت اللہ خامنہ ای کے ٩اگست ٢٠٠٥ء کے فتوے کے بعدقانون کی حیثیت اختیارکرگیا۔جوکچھ بھی ہوا،واشنگٹن اگرچہ نیتن یاہوکو''پاگل جنونی '' سمجھتاہے لیکن اس نے سال ٢٠١٤ء ،اسرائیلی افواج (ساہل)کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوششوں میں گزارا۔جس خیال پربہت زیادہ زوردیاگیاوہ یہ تھاکہ سعودی عرب اور ایران کے مابین علاقائی تقسیم کے درمیان یہودی کالونی کی حفاظت کابھی سامان ہوناچاہئے۔اس خیال نے اس منصوبے کوایک نئے قسم کے بغدادبیلٹ کی شکل دینے کی کوشش کی۔نیٹوکے مماثل ایک علاقائی اتحادکاقیام جس کی رسمی سربراہی توسعودی عرب کے پاس ہوتا کہ وہ عربوں کے قابل قبول ہوسکے لیکن درحقیقت اس کاسربراہ اسرائیل ہوبالکل اسی طرح جیسے بغداد بیلٹ فی الواقع امریکاکی سربراہی میں تھا اگرچہ رسمی طورپروہ اس کارکن نہیں تھا۔ اس منصوبے کو صدر اوبامانے اپنی ٦فروری ٢٠١٥ء کی ''قومی سلامتی نظریے ''پرکی گئی تقریرمیں طشت ازبام کیاتھا۔ جوہری معاہدے اورپابندیوں کے خاتمے کواس منصوبے کی وجہ سے ملتوی کیاگیا۔واشنگٹن نے بنیامین نیتن یاہوکے خلاف اسرائیلی دفاعی افواج کی جانب سے بغاوت کا اہتمام کیا واشنگٹن کوپورایقین تھاکہ نیتن یاہوزیادہ عرصہ طاقت میں نہیں رہ پائیں گے لیکن'' مخالفین برائے سلامتی اسرائیل (کمانڈرزفاراسرائیلزسیکورٹی)کی تشکیل اور سابق اعلیٰ افسران کی نیتن یاہوکوووٹ نہ دینے کی اپیلوں کے باوجودنیتن یاہورائے دہندگان کویہ باورکرانے میں کامیاب ہو گئے کہ صرف وہی ہیں جو''یہودی کالونی'' کا تحفظ کرسکتے ہیں،وہ ایک بار پھرمنتخب ہو گئے ۔فلسطین سے متعلق واشنگٹن اورتہران ، اسرائیل کوصرف موجودہ صورت میں برقرار رکھنے اوراوسلومعاہدے کے مطابق ایک فلسطینی ریاست کے قیام پرمتفق ہوگئے۔ نیتن یاہونہ صرف مذاکرات کی خفیہ نگرانی کررہے تھے بلکہ امریکااورایران کی دوطرفہ خفیہ بات چیت کی جاسوسی میں بھی مصروف تھے۔انہوں نے اس جارحانہ ردّعمل کااظہارکیااور برسرعام اعلان کیاکہ جب تک وہ زندہ ہیں اسرائیل کبھی ایک فلسطینی ریاست کوتسلیم کرنے پرراضی نہیں ہوگا۔پس انہوں نے یہ بات واضح کردی کہ تل ابیب کااوسلو معاہدے پرکیے جانے اپنے دستخطوں کااحترام کرنے کاکوئی ارادہ نہیں تھا اوروہ فلسطین اتھارٹی کے ساتھ گزشتہ بیس سال سے صرف وقت حاصل کرنے کیلئے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

واشنگٹن اورلندن نے جواس معاملے کوجلداز جلدنمٹانے کیلئے بے چین تھے اسے انجام سے دوچارکرنے کیلئے یمنی بغاوت کاانتخاب کیا۔ حوثی شیعوں نے جن کاسابق صدر عبداللہ صالح کے وفادار سپاہیوں کے ساتھ اتحادتھا، صدر منصورہادی سے استعفیٰ طلب کیااوراسے حاصل کرلیا۔ صدرہادی نے بعدمیں اچانک اپناذہن بدل لیا۔درحقیقت ایک طویل عرصے ہادی نہ تو قانونی طورپر صدر باقی رہے تھے اورنہ اخلاقی طورپر،آخری وقت میں انہوں نے ان روابط کے ذریعے سے اپنی طاقت کو وسعت دینے کی کوشش کی جنہیں انہوں نے کبھی درخوراعتنانہ سمجھاتھا۔امریکااوربرطانیہ کی اطراف ہی سے کسی کے ساتھ کوئی خاص ہمدردی نہ تھی۔ دونوں نے مختلف مواقع پر مختلف فریق کاساتھ دیا۔انہوں نے سعودی عرب کوآزادی دی کہ وہ اس کی حکومت مخالف بغاوت گرداننے کا پرچار کرے اورایک دفعہ پھراس ملک کااپنے ساتھ الحاق کرنے کی کوشش کرے۔لندن نے عدن کی مددکرنے کیلئے صومالی لینڈ کی قزاق ریاست کی طرف سے ایک فوجی کاروائی کی تربیت دی ۔اسی اثناء میں عرب لیگ نے یمن کے بحران کوایک عذرکے طورپراستعمال کرتے ہوئے نئی علاقائی نیٹوکے عرب حصے ۔متحدہ عرب فورس کے قیام کے فیصلے کوعام کردیا۔

تین دن بعدمعاہدوں کوجن پرایک سال قبل ہی مذاکرات ہوچکے تھے،سامنے لے آیاگیاتاہم اسی اثناء میں وزیرخارجہ جان کیری اوران کے ایرانی ہم منصب محمدجواد ظریف نے ایک پورا دن سیاسی نکات کازسرنوجائزہ لیتے ہوئے بات چیت میں صرف کیا۔اس بات کافیصلہ کیاگیاکہ اگلے تین ماہ میں واشنگٹن اور تہران،فلسطین، لبنان، شام، عراق اوربحرین میںکشیدگیوں کوکم کریں گے اوریہ کہ جینوامعاہدے پرجون کے آخریں معاہدے پردستخط نہیں کیے جائیں گے اور اگردونوں فریقین اپنے عہدپرقائم رہے تویہ معاہدہ اگلے دس سال تک مؤثررہے گا۔اب جبکہ واشنگٹن تہران کے ساتھ معاہدے کوحتمی شکل دے رہاہے اور سعودی عرب کے گردوپیش ایک عسکری اتحادکوپروان چڑھارہاہے اسی دوران میں امریکا ان ریاستوں کے معاشروں کے ساتھ ایک متضاد پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے ۔ایک طرف وہ خطے کو ریاستوں کے مابین تقسیم کرنے کی حمایت کرتاہے تودوسری طرف دہشتگردی کے ذریعے سے ان معاشروں کوٹکڑے ٹکڑے کررہاہے۔اس کام میں امریکاایک دہشت گردذیلی ریاست دولت اسلامیہ (داعش)قائم کرنے کی حدتک بھی چلا گیا ہے۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350617 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.