’بول‘کا بول بالا ہوگا یا․․․․․بولتی ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گی

گزشتہ دو سال سے الیکٹرانک میڈیا میں ایک دھوم تھی، شور تھا، گرما گرم بحث تھی کہ ایک ایسا چینل آنے والا ہے جو تمام چینلوں کو تھس نہس کردے گا۔ الیکٹرانک میڈیا میں صرف اسی کا بول بالا ہوگا۔ جی ہاں یہ چینل تھا ’بول‘، اسکول وینوں پر بول،گاڑیوں پر بول ، رکشا ؤں پر بول‘ ، دیواروں پر بول ، کھمبوں پر بول الغرض بول نے اور تو کچھ نہ کیا جگہ جگہ بول کو اس طرح پہنچایا کہ ہر چھوٹا بڑا اس کے نام سے واقف ہوگیا۔شروع شروع میں تو حیرانی ہوئی کہ یہ کوئی چینل ہے یا اشتہاری کمپنی، اتنا بڑا نیٹ ورک، اس کی اتنی بڑی تعدادمیں گاڑیاں جن میں رکشا اور چنچیاں بھی شامل ہیں سڑکوں پر دوڑتی پھر رہی ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ گاڑیوں کو اپنے نام و نشان سے رنگتا بھی ہے اور الٹے انہیں پیسے بھی دیتا ہے۔مگر افسوس پیدا ہونے سے پہلے ہی یہ غریب بول نہ سکا ، اس کی بولتی اس کے اجراء سے قبل ہی ایک صحافی ہی کی اسٹوری سے بند ہوگئی ۔ اسے جنم دینے والا ادارہ ’ ایگزیکٹ‘جعلی ڈگریوں کے کاروبار کی ناجائز دولت سے اِسے پروان چڑھا نے کی کوشش کررہا تھا۔ غلط ذرائع سے سرمایا آرہا تھا ، چینل کو بنانے ، سنوانے اور اس میں روح پھوکنے کی ناکام کوشش کرنے والے بڑے بڑے صحافی آنکھ بند کیے پرآسائش زندگی کے مزے لُوٹ رہے تھے۔ گزشتہ دوسال کے عرصے میں کسی بھی چھوٹے یا بڑے صحافی کو یہ نظر نہیں آیا کہ چینل کا مالک ہمیں ہر ماہ بھاری رقم دے رہا ہے، چینل شروع ہوکر نہیں دے رہا، آخر یہ مالک کس خزانے کا مالک ہے،علادین کا چراغ اس کے پاس ہے، غیب سے اس کے اوپر دولت کی بارش ہورہی ہے کہ وہ ہمیں نوازے جارہا ہے۔ جو اس چینل کو جوائن کرچکے تھے وہ تو بہتی گنگا میں ہاتھ دھو ہی رہے تھے بے شمار نامی گرامی میڈیا پرسنز ایسے تھے جو لائن میں لگے ہوئے تھے کہ کسی بھی طرح مالک ہم پر بھی مہر بان ہوجائے اور ہم بھی ’بول‘کا حصہ بن جائیں۔

بھلا ہو نیو یارک ٹائم کے ڈیکلن والش کا جو پاکستان کا خیر خواہ نہیں کہ لندن میں بیٹھ کر جعلی ڈگریوں کے حوالے سے ایگزیکٹ کے بارے میں ایسی رپورٹ تیاری کی کہ جس کی صداقت کو تاحال کوئی چیلنج نہیں کر سکا۔ اس کی رپورٹ کی تمام باتیں سچ کا پتا دیتی نظر آرہی ہیں۔30مئی 2015 روزنامہ جنگ کے طاہر خلیل کی مدینہ سے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے صحافی حلقوں نے نیویارک ٹائمز کے دعوے کو غلط قرار دیا ہے کہ جعلی ڈگری اسکینڈل کی تحقیقاتی اسٹوری سب سے پہلے نیویارک ٹائم نے شائع کی تھی ۔اس ضمن میں سعودی عرب کی آئی ٹی خاتون صحافی مولوک با عیسی کو کریڈٹ جارہا ہے جنہوں نے چھ برس قبل 6اکتوبر 2009کو ملٹی ملین ڈالر جعلی ڈگری اسکینڈل کا سب سے پہلے کھوج لگایا تھا اور خاتون صحافی اپنے تحقیقاتی مشن کے سلسلے میں نیویارک سے کراچی تک جہاں بھی اس کا سرا ملا پہنچی تھی۔ یہ وہی خاتون صحافی ہے جس نے امریکی باشندے وکی فلپ کے’ نیسری‘ نامی کتے کو 499ڈالر میں’ ریچویل یونیورسٹی ‘سے ایم بی اے کی ڈگری دئے جانے کی خبر کا انکشاف کیا تھا۔اپنی رپورٹ میں اس صحافی نے بتایا تھا کہ کراچی کی ایک کوریئیر سروس کے ذریعے جعلی ڈگریاں تیار کرکے دوبئی ایگزیکٹ آفس کو بھیجی جاتی تھیں۔اگر یہ درست ہے تو پھر 2009سے 2015 تک یہ کاروبار کیسے ہوتا رہا۔ اب ایسا کیا ہوگیا ، کس سے کیا معاملہ ہوا کہ ایگزیکٹ کو’ والش‘ کی اسٹوری پر گرفت میں لے لیا گیا۔ اس طرح تو یہ معاملا پرانا ہے بلی تھیلے سے اب ڈیکلن والش نے نکالی ۔کہا جارہا ہے کہ ایگزیٹ اسکینڈل کوئی معمولی اسکینڈل نہیں اس ایک اسکینڈل سے جڑے کئی اسکینڈل سامنے آئیں گے اور اس میں کئی پردہ نشینوں کے نام بھی ہوں۔ویسے بھی شعیب شیخ اپنی شخصیت سے اتنی بڑی توپ چیز نظر نہیں آتا ۔ اصل معمہ تاحال سامنے نہیں آیا، کچھ پردہ نشین ابھی سامنے آنا باقی ہیں۔ جب شعیب شیخ پر دباؤبڑھے گا تو یہ خوب بولے گا، فر فر بولے گا اور سب کچھ اُگل دیگا۔معروف اینکر حامد میر کا خیال ہے کہ’ اس ایک اسکینڈل کے پیچھے کئی اسکینڈل چھپے ہوئے ہیں اور پاکستان کے دشمن کوشش کریں گے کہ اس اسکینڈل کی آڑ میں ہمارے ملک کو بدنام کیا جائے‘۔

پاکستان میں یہ کوئی نیا اسکینڈل نہیں ایک کے بعد ایک اسکینڈل کا سامنے آنا معمول کی بات ہے۔ ان اسکینڈلز کو میڈیا ہی زیادہ ہوا دیتا ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی ہے۔ ہمارا میڈیا چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑی خبر کے طور پر نشر ہی نہیں کرتا بلکہ مسلسل اُسے سنسنی خیز بنا کر چلاتا رہتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میڈیا نے بم دھماکوں اور دیگر حادثات کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں مسخ شدہ چہرے دکھانا بند کردیے ہیں ، اسی طرح ہلاکتوں میں جان بحق ہونے والوں کی نشاندھی زبان، مذہب ، فرقہ، عقیدہ کی بنیاد پر نہیں کرتا۔ اسی طرح میڈیا کو اپنی سنسنی خیزی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ بات ’بول‘ ٹی وی کی شروع کی تھی بنیادی نقطہ یہ تھا کہ اب جب کہ حکومتی اداروں کی جانب ایگزیکٹ کمپنی کے خلاف سخت اور تیز تر کاروائیاں جاری ہوچکی ہیں۔ اس کے سربراہ ہتھکڑیاں لگ چکی ہیں ،بول جو ایگزیکٹ کا ایک ذیلی ادارے کے طور پرگزشتہ د و برسوں سے اپنے قیام کے منازل طے کررہا تھا اس کا اب کیا مستقبل ہے؟ آیا ’بول ‘کا بول بالا ہوگا یا پھر اس کی بولتی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گی۔

’بول‘ سے وابسطہ سینئر صحافیوں میں سے کامران خان صاحب کے ظمیر نے انہیں بول سے وابسطہ رہنے سے روک دیا ہے۔ وہ یہ کہہ کر بول سے الگ ہوگئے کہ ایگزیکٹ کے جعلی ڈگریوں کے کاروبار کے سامنے آجانے کے بعد اب ان کا ظمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ بول کے ساتھ چل سکیں۔ کامران خاں صاحب ایک نیک نام ، معروف اور سچ بولنے والے صحافی سمجھے جاتے ہیں ساتھ ہی ایک بڑے نامور چینل میں ان کا اعلیٰ مقام تھا وہ بول کے بول بچن میں کیسے آگئے ، لگتا ہے مالی مراعات کے ساتھ ساتھ بول کی صدارت کی کرسی میں انہیں کچھ زیادہ ہی کشش دکھائی دی۔ تاحال یہ ایک کہانی ہے جو ابھی پسِ پردہ ہے یقینا مستقبل میں اس کا پردہ چاک ہو گا۔ لگتا ہے کہ کامران خان صاحب کو اب بول کا بول بالا ہوتا نظر نہیں آرہا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اولین فرصت میں اپنے آپ کو بول سے فارغ کر لیا۔ دوسرے سینئر صحافی نامی گرامی جناب افتخار احمد اور اظہر عباس ہیں جو کامران خان صاحب کی پیروی کرتے ہوئے خاموشی سے بول سے ناطہ توڑ چکے ہیں۔شاید انہیں بھی اب بول کا بول بالا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ تیسرے عامر ضیاء صاحب ایگزیکٹ اور بول کے محازپرآج کی تاریخ (30مئی) تک ڈٹے ہوئے ہیں اور بول اور ایگزیکٹ کی حمایت میں خوب دلائل دیتے نظر آرہے ہیں۔ رات ہی انہوں نے ایک نجی چینل کے پروگرام ’بے لاگ‘ میں ’بول‘ کا خوب خوب دفاع کیا۔ وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ ایک بڑی سازش کے تحت بول کی بولتی بند کی جارہی ہے۔ انہوں نے سازش میں سب کو شامل کردیا حتیٰ کہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی بول کے خلاف سازش میں شامل کردیا۔ اتنابڑا صحافی اور اس قدرچھوٹی بات ، محسوس ہوتا ہے کہ انہیں بھی اپنی شاہانہ مراعات کے چھن جانے کا احساس ہوچلا ہے۔ وہ اندر سے یہ محسوس کررہے ہیں کہ اب بول کی بولتی بند ہونے والی ہے۔ ڈوبنے والا آخری وقت تک اپنے ہاتھ پیر مارتا ہے کہ کسی طرح وہ ڈوبنے سے بچ جائے۔ اس پروگرام میں سینئر صحافی ضیاء الدین صاحب بھی تھے انہوں نے بتا یا کہ بول نے صرف 26روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ جو ادارہ اپنے ملازمین کو لاکھوں میں تنخواہیں دے رہا ہو، نچلے گریڈ کے کارندوں کو ائر کنڈیشن میں بٹھا کر کھلاتا پلاتا ہو، کام کراتاہو، چلیں مان لیا جائے یہ ایک اچھا قدم ہے، سب ہی انسان برابر ہیں۔ سینئر صحافی ضیاء الدین صاحب نے یاد دلا یا کہ جب بول کے قیام کا ڈول ڈالا جارہا تھا تو’ ڈان‘ اخبار میں ملازمتوں کے حوالے سے ایک اشتہار چھپا تھا ، ان کا کہنا ہے کہ میں اسی وقت چونک گیا تھا کہ آخر اس ادارے کی آمدنی کا کون سا ایسا ذریعہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو ایسی شاندار مراعات دے رہا ہے۔لیکن یہ خیال ہمارے سینئر صحافی حضرات کو نہیں آیا، مانا کہ بول چینل ایگزیکٹ کمپنی کا تھا ، لیکن انہیں معلوم تو کرنا چاہیے تھا کہ اس کی اس قدر ڈھیروں آمدنی کا ذریعہ کیا ہے؟ غالباً وہ تمام یہ کہہ کر اور سوچ کر خاموش ہوجایا کرتے ہوں گے کہ ہمیں اس سے کیا سرو کار کہ ایگزیکٹ کمپنی کا کیا کاروبار ہے؟اس کی آمدنی کے کیا ذرائع ہیں؟جو مراعات اور تنخواہ طے ہوئی ہے وہ لیتے رہنا ہے اور اپنا کام کرتے رہنا ہے۔اس سوچ اور اس فکر کا انجام آج ہمارے آپ کے سامنے ہے۔ یہ بات اپنی جگہ کہ ’بول ‘ چینل بولتا رہے گا یا نہیں خاموش ہوجائے گا، لمحہ فکر یہ ہے کہ بول سے وابستہ بائیس سے تئیس سوملازمین کا کیا ہوگا؟ بڑے بڑے صحافیوں نے تو اتنا مال بنا لیا ہوگا کہ کئی سال بغیر ملازمت کے آرام سے زندگی بسر کرلیں گے ۔ یا ملک چھوڑ کر باہر کی راہ لیں گے۔ کوئی دوسرا چینل انہیں پھر سے کرسیٔ صدارت آفر کردے گا، اور یہ ہو بھی چکا ہے کہ کامران خان صاحب ایک نئے چینل میں اچھی پوزیشن میں جوائین کرچکے ہیں دیگر بھی ایسا ہی کرلیں گے لیکن ان 2200میں نچلے درجے کے ملازمین بھی تو ہیں ان کا کیا بنے گا۔ عامر ضیاء صاحب نے بتایا کہ مستقبل میں صرف بول کے ملازمین کی تعداد 5000ہونا تھی۔ اﷲ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔ شکر ادا کرنا چاہیے ان لوگوں کو جو بول میں آنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ان چھوٹے ملازمین کے لیے سرکاری سطح پر کچھ اقدامات ہونا چاہیے یا پھر صحافیوں اور میڈیا ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے قائم تنظیمیں ان ملازمین کی فکر کریں۔

ایک زمانے میں عبد الصمد نامی شخص نے لوگوں کو ان کے سرمائے پر ڈھیروں منافہ دینے کا لالچ دیا ، اس کے ساتھ دیگر کمپنیاں بھی میدان میں آگئیں ، غریب لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع بونجی ان کمپنیوں کی نظر کردی، دیکھتے ہی دیکھتے یہ کمپنیاں اور اصل رقم پر بھاری منافع دینے والے سین سے غائب ہوگئے ، غریبوں کو کس قدر مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اپنی پنشن کی رقم، جی پی فنڈ کی رقم ان ظالموں کے سپرد کردی تھی۔ کچھ عرصہ تو ان کمپنیوں نے لوگوں کو منافع دیا پھر رفتہ رفتہ وہ کم ہوا حتیٰ کہ وہ ایک ایک کرکے غائب ہوگئے۔ میرے والد صاحب مرحوم نے بھی ایک جاننے والے کی کمپنی میں میرے ہی ذریعہ بیس ہزار روپے جمع کرائے تھے جو واپس نہ ہوئے لیکن ہم نے اس شخص کو جو کہ سرکاری محکمے میں کلرک تھا، راتوں رات امیر بنتے اور ذہنی طور پر مفلوج اور نیم پاگل ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ یقینا دیگر کا بھی اسی قسم کا انجام ہوا ہوگا۔اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے ایک نہ ایک دن گرفت ضرور ہوتی ہے۔برائی کا براہی انجام ہوتا ہے۔ یہی کچھ بول اور ایگزیکٹ ملازمین کے ساتھ بھی ہوا، انہیں بھاری بھرکم مراعات کے لالچ میں پھنسا کر ان سے غلط کام لیا گیا۔کوئی باظمیر شخص جعلی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اگر کامران خان صاحب، افتخار احمد صاحب کو یا اظہر عباس صاحب یا عامر ضیاء کو اس وقت یہ معلوم ہوتا کہ ایگزیکٹ کمپنی جعلی گریوں کا کاروبار کرتی ہے تو وہ یقینا اس میں کسی بھی طور ملازمت اختیار نہ کرتے۔ کوئی بھی آنکھوں دیکھی مکھی نہیں نگل سکتا۔ انہیں اندھیرے میں رکھ کر کام کیا گیا۔ یا یہ تمام حضرات جو اصول پسندی، ایمانداری، سچائی اور اپنی اقدار کا اعلان اکثر و بیشتر اسکرین پر آکر کیا کرتے تھے بول اور ایگزیکٹ کی جانب سے غیر معمولی تنخواہوں اور غیر حقیقی مراعات نے انہیں ایسا مرعوب کیا کہ ان کی آنکھیں چندھیا گئیں ، انہیں کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا سوائے ان فوائد کے جن سے انہوں نے کئی ماہ خوب مزے لوٹے۔شعیب شیخ کا شاہانہ دور مختصر ہی رہا بہت جلد گرفت ہوگئی۔ عبرت ہونی چاہیے ان کو جو اسی قسم کے کاموں میں اب بھی ملوث ہیں۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس شخص کو بیڑیاں لگا دی جائیں گی۔ رسوائی الگ ہوئی ، اب اگر ضمانت ہوبھی جائے، وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزمات کو ثابت کرنے کی تمام تر کوشش بھی کریں لیکن جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا۔

پاکستان ایک کے بعد ایک بحران سے دوچار ہوجاتا ہے۔ ہمارے دشمنوں کی تعدادا اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ پاکستان کو کسی بھی طور پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ باہر کے دشمنوں سے نمٹنا آسان ہے گھر کے دشمنوں سے نمٹنا مشکل ہوتا ہے۔ ہم اخلاقیات کی پستی میں اس قدر دھنس چکے ہیں کہ اس سے نکلنا مشکل ہورہا ہے۔ سینئر صحافی غازی صلاح الدین کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ’ پاکستان کا حقیقی بحران نہ سیاسی ہے اور نہ معاشی بلکہ یہ فکری اور اخلاقی بحران ہے‘۔ہم اگر اخلاقی طور پو اپنے آپ کو درست کرلیں تو بے شمار مسائل خود بہ خود حل ہوجائیں۔

ایگزیکٹ کمپنی اور بول کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے، تحقیق خواہ سرکاری ادارے کریں، عدالتیں یا کمیشن ، شفافیت اور انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1282373 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More