کہاں ہے عالم اسلام؟

گزشتہ دنوں روہنگیا مسلمانوں کے سمندر میں ڈوب جانے کے واقعات کے بعد تواتر کے ساتھ جو لفظ سنا، لکھا اور پڑھا جا رہا ہے، وہ ہے عالم اسلام۔ مسلم ممالک میں ہر سطح پر عالم اسلام کے لفظ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ ”مجاہدین سوشل میڈیا“ عالم اسلام کی بے حسی کی نشاندہی کرتے ہوئے بڑی محنت اور لگن کے ساتھ اسے بیدار کرنے میں مگن ہیں، جبکہ مختلف تنظیموں کے راہنما بار بار عالم اسلام کو بیداری کی تلقین کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ” روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرنا عالم اسلام کی اولین ذمے داری ہے، مظلوم روہنگیا مائیں، بہنیں اور بیٹیاں عالم اسلام کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ شاید وہ بیدار ہو کر ہماری مدد کو پہنچے۔“ لیکن اب تک عالم اسلام کے عملی اقدامات دکھائی دیے اور نہ ہی عالم اسلام کی بیداری کے آثار نظر آئے۔ ہاں! صرف ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے اپنی فوج کو سمندر میں جانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ باقی تین درجن سے زاید اسلام کے نام لیوا ممالک کے کرتا دھرتا بت بنے سنگدلی کے ساتھ اپنے ہم مذہبوں کی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں، جبکہ سنگدلی کی تمام حدود کراس کرتے ہوئے بنگلا دیش کی حکومت نے کیمپوں میں محصور روہنگیا مسلمانوں کو ملک چھوڑنے کا حکم صادر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”انہیں یہاں سے جانا ہوگا“ جس کے بعد روہنگیا مسلمانوں کی پریشانی کا بڑھ جانا فطری امر ہے، مہاجرت کی زندگی تو ویسے ہی تلخ ہوتی ہے اور اگر کسی مہاجر کا دنیا میں کوئی ٹھکانا ہو اور نہ ہی کوئی مدد گار تو اس کی پریشانی کا کیا پوچھنا۔

روہنگیا مسلمان ایک عرصے سے تن تنہا مصائب و آلام کی چکی میں پس رہے ہیں۔ کبھی یہ لوگ اسی سرزمین کے مالک تھے، جہاں آج ان کی نسل کشی کی جارہی ہے ۔ روہنگیا مسلمانوں کے بچوں کو ذبح کیا گیا، جوانوں کو پکڑ پکڑ کر زندہ جلایا گیا، خواتین کی عصمتیں تار تار کی گئیں، بزرگوں کی کی کھالیں نوچ لی گئیں ، لیکن پیسے کی ہوس میں دنیا بھر کے اندھے میڈیا کے لب سل گئے، کان بہرے اور بینائی زائل۔ اس دوران عالم اسلام بھی خاموش رہا۔ کوئی نوٹس لیا، نہ عملی اقدام۔ گنگ زبانیں اور بے فکر اذہان۔ ان حالات میں بے کسوں نے ”درندوں“ کے علاقوں سے نکل جانے میں ہی جان کی امان جانی، لیکن جب سمندری راستے سے محفوظ علاقوں کی طرف نکلنا چاہا تو انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ گئے، جنہوں نے لوٹ کر بے رحم سمندری موجوں کے حوالے کردیا اور اب سمندر میں بے یارو مددگار، پناہ کے متلاشی،لیکن کوئی پناہ دینے کو تیار نہیں، تعاون پر بھی آمادہ نہیں اور یہ ہاتھ جوڑ جوڑ کر عالم اسلام سے تعاون کی اپیل کر رہے ہیںاور عالم اسلام خاموش تماشائی!

عالم اسلام سے عملی اقدامات کی اپیلوں کا معاملہ نیا نہیں، پرانا ہے۔ بچپن سے اسی طرح سنتے چلے آئے ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ پہلی بار پہلی کلاس میں عالم اسلام کا لفظ سنا تھا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے حوالے سے کوئی معاملہ پیش آتا تو لوگوں سے سنتے کہ عالم اسلام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے، عالم اسلام کو ہر حال میں مسلمانوں کی مدد کرنی چاہیے اور اکثر و بیشتر یہ بھی سنتے کہ موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے عالم اسلام کا بیدار ہونا ضروری ہے۔ ہم چونکہ بچے تھے اور یہ ابھی معلوم نہیں تھا کہ یہ ”عالم اسلام“ ہے کیا شے، بار بار جس کا ذکر کیا جاتا ہے، خود ہی اندازہ لگاتے کہ عالم اسلام ضرور کوئی خطرناک قسم کی شخصیت ہوگی، جس سے سب ڈرتے ہوں گے، تبھی تو بار بار عالم اسلام سے نوٹس لینے کی فریاد کی جاتی ہے۔

جب ہم نے مختلف قسم کی کہانیاں خرید کر پڑھنا شروع کیں، جن میں ”ٹارزن“ اور ”سپر مین“ کی کہانیاں سر فہرست تھیں۔ ”ٹارزن“ اکیلا ہی بڑے بڑے اور خطرناک جانوروں اور اچانک نمودار ہونے والی ماورائی مخلوقات کے ساتھ لڑتا۔ شیر، چیتا، ہاتھی اور دیگر خطرناک جانوروں کو اکیلا ہی سبق سکھا دیتا۔ بڑی بڑی اور مشکل مہمات سر کرنا اس کے لیے کوئی مشکل کام نہیںتھا۔ ”سپر مین“ بھی اسی طرح کا ایک کردار، جو ہر ایک کے ساتھ لڑ کر فتح حاصل کر لیتا۔ اس قسم کی کہانیاں پڑھ کر ہم یہ خیال کرتے کہ عالم اسلام شاید ”ٹارزن“ اور ”سپر مین“ کی طرح کے طاقتور کردار ہوں گے۔ بڑی کلاسوں میں جا کر معلوم ہوا کہ واقعی عالم اسلام بہت بڑی قوت کا نام ہے۔ دنیا میں عالم اسلام کی آبادی 1.62 ارب کے لگ بھگ ہے، جو پوری دنیا کی کل آبادی کا تقریبا 23 فیصد ہے اور دنیا کے کل رقبے کا21.7 فیصد عالم اسلام کے پاس ہے۔ عالم اسلام کے ممالک کی تعداد پانچ درجن کے قریب ہے، جن میں ترکی، سعودی عرب، ایران، انڈونیشیا، قطر، عمان، ملائیشیا، پاکستان، برونائی دارالسلام اور کویت جیسے بے بہا وسائل سے مالامال ممالک شامل ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے عالم اسلام کو بے شمار نعمتوں، بے پناہ قدرتی اسباب اور متنوع انسانی وسائل سے نوازا ہے۔ عالم اسلام کی نمایندہ تنظیم او آئی سی، اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی اور نمایندہ تنظیم ہے، لیکن میں جب ایک عرصے سے روہنگیا مسلمانوں کی بے کسی اور بے بسی پر تمام وسائل اور قوت کے باوجود عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی کو دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام سے تو ہمارے بچپن کے ٹارزن اور سپرمین ہی بہتر تھے، جو اکیلے ہی اپنے دشمن کا مقابلہ بھی کرتے اور مصیبت میں بے کسوں اور ضرورت مندوں کے بھی کام بھی آتے تھے، لیکن یہاں پانچ درجن مسلم ممالک میں بستے ڈیڑھ ارب سے زاید مسلمان اپنے چند ہزار بے سہارا مسلمان بھائیوں کی مدد نہیں کر سکتے، ان کو جگہ نہیں دے سکتے۔
میں ایک طرف روہنگیا مسلمانوں کو سمندر میں دھکیل دینے والے ”انسانوں“ میں انسانیت کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو انسانوں کی سی شکل و صورت رکھنے کے باوجود یہ لوگ انسانیت سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب مجھے ان بے کس اور لاچار مسلمانوں کے ہم مذہبوں میں بھی انسانیت دکھائی نہیں دیتی جو ان کو ڈوبتا اور بھوکا مرتا ہوا دیکھ رہے ہیں، لیکن پھر بھی ان کو پناہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:” تمام مسلمان ایک انسانی جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔“

روہنگیا مسلمانوں کو تکلیف پہنچنے سے عالم اسلام کو بے چین ہوجانا چاہیے، لیکن عالم اسلام کی بے حسی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اپنے مسلمان بھائیوں کا دکھ محسوس کرنے والی حس سے ہی محروم ہوچکا ہے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632379 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.