دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیاں چون

کتوں ، بلیوں سے لیکر ہاتھیوں تک سب جانوروں کے حقوق ہیں اور انکی نسل کی بحالی کی تنظیمیں پوری دنیا میں سرگرم عمل ہیں اگر روئے زمین پر کسی کے حقوق نہیں ہیں تو مسلمانوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں ۔ نہ جینے کا حق ہے نہ ہی عزت سے مرنے کا حق حاصل ہے ۔ شرق سے غرب ، شمال سے جنوب تک خون مسلم پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ برما میں دس لاکھ مسلمانوں سے شہریت چھین کر ہزاروں مسلمانوں کو زبح کیا جارہا ہے ۔ کتوں اور بلیوں کے حقوق مرتب کرنے والے انسانی حقوق کے علمبرداروں کی زبانیں گنگ ہیں کیونکہ مرنے والے مسلمان اور مارنے والے بدھ مت ہیں ، سدھارتھ گوتم کے پیروکار خون کی ہولی کھیلنے کے باوجود امن کے ٹھیکدار اور امن پسند کہلائیں جبکہ ہمارے عام مولوی سے لیکر بڑے شیوخ السلام تک سب صبح وشام امن کی تسبیح پڑھتے ہیں اور زبان حال سے پکار کر کہتے ہیں کہ اسلام امن کا درس دیتا ہے اسکے باوجود دنیا ہمیں دہشتگرد کہتی اور سمجھتی ہے اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمیں اسلام کا درس امن تو یاد رہا مگر درس غیرت بھول گیا ۔ معذرت خوانہ رویہ اختیار کرنے والوں اور دبے ہوؤں کو مذید دبانا دنیا کا مسلمہ اصول ہے ۔ جون دوہزار بارہ میں راکھنی ریاست میں زبردست فسادات شروع ہوئے تھے جو دھیرے دھیرے مسلمانوں کیخلاف مہم میں بدل گئے اور یہ آگ چھوٹے علاقوں اور قصبوں تک پھیل گئی۔ اب تک ان فرقہ وارانہ لڑائیوں میں سینکڑوں افراد مارے جاچکے ہیں اور 140,000 سے زائد لوگ اپنے گھر چھوڑ چکے ہیں جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ برما کی انسان دشمن حکومت ان فسادات کی براہ راست ذمہ دار ہے کیونکہ غیرجانبدار ذرائع یعنی Human Rights Watch کے مطابق جب روہنگیا افراد اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے یا اپنے گھروں میں لگائی گئی آگ بجھا رہے تھے تو پولیس اور فوج ان پر گولیاں چلا رہی تھی۔ ریاستی دہشت گردی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے؟ اگر کسی مسلم ملک میں فوج اور پولیس غیرمسلم بالخصوص عیسائی اقلیت کے افراد پر گولیاں چلا رہی ہوتی تو سب سے پہلے تو باراک اوباما ، اس کے بعد اقوام متحدہ کا کوریا نژاد سیکرٹری جنرل بان کی مون آسمان سر پر اٹھا لیتا لیکن جب مسلم آبادی کو یہودو ہنود و نصاری تاخت و تاراج کر رہے ہوتے ہیں تو اسے انسداد دہشت گردی قرار دے کر اس کا جواز پیدا کیا جاتا ہے۔ غیروں سے کیا شکوہ کریں اپنوں کو توفیق نہ ہوئی اس ظلم پر آہ بھی کرنے کی ، ترکی کے سوا کسی مسلم حکمرآن کو ڈھنگ کا بیان دینے کی توفیق نہیں ہوئی کاش آج اقبال زندہ ہوتا اور ان مغربی دلالوں کی بے غیرتی پر مرثیہ لکھتا جنھوں نے غیرت آئی ایم ایف کے ہاں گروی رکھ دی ہے ۔ سنا تھا پاکستان میں آذاد میڈیا ہوا کرتا تھا مگر وہ آجکل آیان علی اور بول کے گرد طواف میں مصروف ہے اسے فرصت کہاں برما پر پروگرام کرنے کی اور ویسے بھی ہمارے ہاں جگاڑی سیاستدانوں کی طرح جگاڑی اینکرز اور دانشوروں کی بہتات ہے وہ کیا مسلمانوں کے حقوق پر بات کریں گے جو خود اپنے مسلمان ہونے پر شرمندہ ہیں ۔ یورپ کی عینک لگا کر جو اسلام پڑھتے ہیں انھیں اسلام سمجھ نہیں آسکتا ۔ برما میں انسانیت سوز مظالم کی داستان رقم کی گئی،مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ کئی مسلمانوں کو قبروں میں زندہ دفن کیا گیا۔قتل عام میں سیکیورٹی ادارے بھی شامل رہے۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق کئی علاقوں سے اجتماعی قبریں ملی ہیں جن میں دفن افراد کے ہاتھ اور پیر بندھے ہوئے ملے۔ رپورٹ کے مطابق ان قبروں سے 28بچوں کی لاشیں بھی ملی ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق بدھ مت کے پیرو کاروں نے مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں داخل ہو کر املاک کو نقصان پہنچایا اور لوگوں پر تشد د کیا۔اس موقع پر سیکیورٹی ادارے بھی اس قتل عام میں پوری مدد فراہم کرتے رہے۔

صدیوں سے امت کی مظلوم بیٹیاں اس آس پہ زندہ ہیں کہ شائد کوئی محمد بن قاسم گھوڑے لشکر لیکر آجائے شائد کوئی طارق بن زیاد کشتیاں جلا کر آجائے ۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پَھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی، تُوں لکھ لکھ مارے بین
اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن
دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیاں چون
اج پریت دیاں شہزادیاں ، وچ مزاراں رون
اج سبھے قیدی بن گئے، حسن عشق دے چور
اج کتھوں لیائیے لب کے، وارث شاہ اک ہور
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 172523 views System analyst, writer. .. View More