نظریاتی کونسل اور مسئلۂ خلع

بیوی کااسلامی شریعت کے مطابق شوہر کی ازدواجی زندگی سے خلاصی حاصل کرنا فقہ میں‘‘ خلع’’ کہلاتا ہے۔ اس کا جواز سورۂ بقرہ کی 229ء ویں آیت میں موجود ہے کہ عورت کچھ بدلہ رقم کی صورت میں شوہر کو ادا کرکے اس سے چھٹکارا حاصل کر لے۔یہاں ہم پوری بحث کو سمجھنے کے لئے سورۂ بقرہ کی متعلقہ آیات کا ترجمہ پیش کئے دیتے ہیں:
‘‘جو لوگ اپنی عورتوں کے پاس جانے سے قسم کھالیں ان کو چار مہینے تک انتظار کرنا چاہیئے۔ اگر (اس عرصے میں قسم سے) رجوع کرلیں تو خدا بخشنے والا مہربان ہے (226) ۔ اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں تو بھی خدا سنتا (اور) جانتا ہے (227) ۔ اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنی تئیں روکے رہیں،اور اگر وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہیں، تو ان کے لئے جائز نہیں کہ خدا نے جو کچھ ان کےرحم (پیٹ) میں پیدا کیا ہے، اس کو چھپائیں، اور ان کے خاوند اگر اِصلاحِ(احوال) پر آمادہ ہوں، تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں، اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے، البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے، اور خدا غالب (اور) صاحب حکمت ہے (228)۔ طلاق (صرف) دوبار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورتوں کو) یا تو بطریق شائستہ (نکاح میں) رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا، اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو، اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ ‘‘ہاں اگر میاں بیوی کو خوف ہو، کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے ،تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے ،تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں،یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا، اور جو لوگ خدا کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے ،وہ گنہگار ہوں گے(229)’’۔ پھر اگر شوہر (دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے ،تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے، اس (پہلے شوہر) پر حلال نہ ہوگی، ہاں اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے اورعورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں ،تو ان پر کوئی گناہ نہیں ،بشرطیکہ دونوں کو یقین ہو کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ خدا کی حدیں ہیں ان کو وہ ان لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے جو دانش رکھتے ہیں ۔(230) ۔اور جب تم عورتوں کو (دو دفعہ) طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے،تو انہیں یا تو حسن سلوک سے نکاح میں رہنے دو،یا بطریق شائستہ رخصت کردو،اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہئے ،کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو، اور جو ایسا کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا،اور خدا کے احکام کو ہنسی (اور کھیل) نہ بناؤ ،اور خدا نے تم کو جو نعمتیں بخشی ہیں اور تم پر جو کتاب اور دانائی کی باتیں نازل کی ہیں،جن سے وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے، ان کو یاد کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھوکہ خدا ہر چیز سے واقف ہے (231)۔اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے، تو ان کو دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہوجائیں، نکاح کرنے سے مت روکو،اس (حکم) سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے،جو تم میں خدا اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ یہ تمہارے لئے نہایت پاک وصاف ہونے کی بات ہے اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (232)’’۔نیز اس اس مسئلے میں احادیث بھی کثرت سے موجود ہیں۔

ائمہ فقہ اورجمہور اہل علم کا اس بات پرفتویٰ، اجماع ا وراتفاق ہے کہ خلع کیلئے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے، البتہ چندمخصوص صورتوں میں جہاں عورت پرظلم ہورہاہو،یا باہمی حقوق نہ نبہانے کے خدشات ہوں،یا نفرتِ شدیدہ پائی جاتی ہو،عدالت اور قاضی اپنےخصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے میاں بیوی کے درمیان عقدِنکاح کی تنسیخ یافسخ کا اعلان کرسکتے ہیں ،، جہاں از روئے شریعت شوہر کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی ، خلع اور تنسیخ نکاح دو مستقل اور الگ الگ چیزیں ہیں، اس لئے اسلامی نظریاتی کونسل کافیصلہ بالکل بجا اور درست ہے، کہ عدالت کو مخصوص حالات میں شوہر کی رضامندی کے بغیر تنسیخِ نکاح کاحق ہے، لیکن خلع کا نہیں۔البتہ ہمارے یہاں اکثر لوگ اس بنیادی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سےمذکورہ بالا فیصلے کی روشنی میں یہ سمجھ بیٹھتے ہیں،کہ خلع کی درخواست لے کر عدالت جانے والی عورت کوکسی صورت میں خلع نہیں مل سکتی، یوں اسے عدالت سے جو تنسیخ ِ نکاح کی ڈگری ملتی ہے ، اُن کے خیال میں اس کا فتوے کے لحاظ سے کوئی اعتبار نہیں ہے،اگر شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع کی ڈگری جاری کی گئی ہو، تو بے شک اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے،لیکن اگر خلع کے راستے پر چلتے ہوئے بات اَن بَن پر منتج ہوجائے،اور عدالت دیگر لوازمات وشرائط کے بعد اپنے اختیارات استعمال کر کے ‘‘تنسیخِ نکاح وائے خلع ’’کی ڈگری جاری کردے،تو ایسی صورت میں عورت شوہر کی قید سے آزاد ہوجائی گی،عدت کے بعد کسی بھی مرد سے حتیٰ کہ سابقہ شوہر سے بھی اگر چاہے نکاح کرسکتی ہے،آج کل عدالتوں سے جو ڈگریاں ملتی ہیں،وہ یہی ہیں،اسی لئے ان تفصیلات سے باخبر مفتی وعلماحضرات اسی کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں،اور ایسی خواتین کا نکاح بھی جب کسی اور مرد سے طے ہوجائے،وہ پڑھا دیتے ہیں جیسے مفتی محمد تقی عثمانی،مفتی منیب الرحمن اور ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر،ہاں جن کو عدالت کی اس ڈگری ( جس میں لفظِ خلع کے علاوہ تمام الفاط انگریزی میں ہوتے ہیں)، یا اس مسئلے میں عدالتی باریکیوں کےمتعلق علم نہیں ،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عدالتیں شوہروں کی رضامندی کے بغیر خلع کی ڈگریاں دیتی ہیں، تو وہ اسے خلافِ شرع باور کر کے ناجائز قرار دے دیتے ہیں،فقہی مسائل میں تہ تک جانے کی ضرورت ہوتی ہے، بلا تحقیق وتدقیق کسی کو کوئی مسئلہ نہ بتانا،بتانے سے بہت بہتر ہے۔
 
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 816422 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More