اپنی جعلی موت کا ڈرامہ رچانے والے افراد٬ پھر کیا ہوا؟

زندگی انتہائی قیمتی ہے اور کوئی بھی شخص مرنا نہیں چاہتا- لیکن دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں جنہوں نے خود اپنی نقلی موت کا ڈرامہ رچایا لیکن بدقسمتی سے پکڑے بھی گئے- ان افراد نے ایسا کیوں کیا؟ یا پھر وہ کیسے پکڑے گئے؟ اور یہ افراد کون تھے؟ چند ایسے ہی سرپھروں کا ذکر ہے آج کے آرٹیکل میں-
 

John Stonehouse
جان ایک برطانوی سیاستدان تھا اور بدترین معاشی حالات کا شکار ہوگیا- جان اس بحران سے باہر نکلنا چاہتا اور اپنی بیوی Sheila Buckley کے ساتھ ایک نلی زندگی شروع کرنا چاہتا ہے- 20 نومبر 1974 کو جان تیراکی کے لیے میامی کے ساحل پر گیا اور وہاں سے غائب ہوگیا- اندازہ یہ لگایا گیا کہ جان ڈوب گیا ہے یا پھر اسے شارک نے اپنا شکار بنا لیا ہے- پولیس کو جان کا جسم نہیں ملا اور اسے مردہ خیال کرلیا گیا- اسی سال وہ کرسمس کے موقع پر واپس آسٹریلیا میں نمودار ہوا اور جان پراعتماد تھا کہ وہ بچ چکا ہے- لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ پولیس اسے اب بھی تلاش کر رہی ہے- بالآخر اگست 1976 میں پولیس جان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اقبالِ جرم کے بعد جان کو سات سال کی قید کی سزا سنائی گئی-

image


John Darwin
جان ڈارون انگلینڈ میں ایک استاد ہونے کے علاوہ ایک جیل کا افسر بھی تھا لیکن بدقسمتی سے یہ شخص ہزاروں پاؤنڈ کا مقروض ہوگیا- اس مسئلے سے باہر نکلنے کے لیے جان نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر 21 مارچ 2002 کو اپنی نقلی موت کا ڈرامہ رچایا- یہ شخص بھی ساحلِ سمندر گیا اور غائب ہوگیا جس کے بعد یہ تصور کرلیا گیا کہ یہ ڈوب کر ہلاک ہوچکا ہے- جان کی بیوی نے انشورنس کمپنی سے لائف انشورنس کی رقم حاصل کی تمام قرضے ادا کردیے جس کے بعد یہ دونوں میاں بیوی ایک خفیہ زندگی گزارنے لگے- یکم دسمبر 2007 کو جان کسی وجہ سے پولیس کے پاس پہنچا اور دعویٰ کیا کہ میری یادداشت کھو چکی ہے- تاہم پولیس نے تفتیش کے بعد یہ بات ثابت کردی کہ جان جھوٹ بول رہا ہے اور وہ تمام عرصہ اپنی بیوی کے ساتھ رہا ہے-

image


Chandra Mohan Sharma
یہ ایک بھارتی باشندہ تھا اور لینڈ مافیا کے خلاف لڑنے والی ایک کمپنی کا ملازم تھا- چندرا اپنی شادی شدہ زندگی سے ناخوش تھا اور اس نے اپنی پڑوسی خاتون سے تعلقات بنا رکھے تھے- چندرا کے پاس ایک 3 لاکھ کی لائف انشورنس تھی اور اس کے علاوہ جس کمپنی میں وہ کام کرتا تھا وہ اس بات کی پابند تھی کہ اگر ملازمت کے دوران چندرا کی موت واقع ہوجاتی ہے تو کمپنی چندرا کے خاندان کو 36 لاکھ روپے ادا کرے گی- چندرا نے اپنی گرل فرینڈ اور اس کے بھائی کے ساتھ مل کر اپنے قتل کا ڈرامہ رچایا- چندرا نے پہلے ایک بےگھر شخص کو قتل کیا پھر اس کی لاش گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر گاڑی کو آگ لگادی- ہر ایک کا خیال تھا کہ چندرا کو لینڈ مافیا نے قتل کردیا ہے- واقعے کے بعد چندرا اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ بنگلور میں رہنے لگا لیکن ایک ماہ بعد پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج میں اسے پہچان لیا-

image


Marcus Schrenker
مارکوس ایک فنانس مینیجر تھا لیکن اس کے خلاف متعدد الزامات تھے- 11 جنوری 2009 کو مارکوس اپنی ذاتی جہاز کے ذریعے انڈیانا سے فلوریڈا گیا- راستے میں مارکوس نے جہاز کو آٹو پائلٹ پر شفٹ کیا اور خود پیراشوٹ لے کر کود گیا جس کے بعد جہاز گر کر تباہ ہوگیا اور مارکوس کو مردہ قرار دے دیا گیا- مارکوس پیراشوٹ کے ذریعے الباما میں اترا اور مقامی پولیس سے مدد کی درخواست کی- مقامی پولیس اس وقت تک اس حادثے سے بےخبر تھی- پولیس نے اسے کوئنسی کیمپ گراؤنڈ میں لگے خیمے میں ٹھہرا دیا- تاہم کیمپ کے مالک نے مارکوس کی مشکوک حرکتیں دیکھ کر پولیس کو اطلاع کردی اور 13 جنوری 2009 کو یہ گرفتار ہوگیا-

image


Alison Matera
ایلی سن نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ مل کر چرچ کمیونٹی جوائن کی لیکن اسے محسوس ہوا وہ یہاں پھنس چکی ہے- وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ چرچ کی روایات سے انکار کیسے کرے؟ اس لیے ایلی سن نے کینسر سے مرنے کا ڈرامہ رچایا- ایلی سن نے اپنی اس نقلی بیماری کے بارے میں چرچ انتظامیہ کو آگاہ کیا اور تقریباً ایک سال تک چرچ نہیں گئی- اس دوران آخری مرتبہ 18 جنوری 2007 کو اس نے چرچ کو آگاہ کیا کہ اس کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے- آخر پر اس نے ایک پادری نرس کے انداز میں خود اپنی موت کے بارے میں مطلع کیا- لیکن اس کا یہ ڈرامہ اس وقت کھل گیا جب وہ خود اپنی آخری رسومات میں پہنچ گئی اور کہا کہ وہ میری بہن تھی لیکن اس کا راز فاش ہوگیا-

image


William Grothe
ولیم 1 ملین ڈالر کی لائف انشورنس پالیسی کا مالک تھا- اس رقم کو اپنی زندگی میں ہی حاصل کرنے کے لیے اس نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر اپنی موت کا ڈرامہ رچایا- 19 نومبر 2008 کو ولیم کی بیوی نے پولیس کو مطلع کیا کہ ولیم غائب ہے- جب پولیس سے تلاش شروع کی تو انہیں ایک دریا کے کنارے ولیم کا پرس اور جیکٹ ملے- پولیس کو ولیم کی موت کی مزید یقین دہانی کے لیے پولیس کو ایک ایسی جعلی کال کی گئی جس میں دوسری جانب سے ولیم کے قاتل ہونے کا دعویٰ کیا جارہا تھا- پولیس نے جب آواز کو ٹیسٹ کیا تو وہ آواز ولیم کی آواز سے میچ کر گئی- ولیم کی آواز وائس میل مسیجز سے حاصل کی گئی- اور آخرکار ولیم کو مونٹانا کے علاقے میسولیا سے گرفتار کرلیا گیا- ولیم 13 ہزار ڈالر کی رقم کا وہ جرمانہ عائد کیا گیا جو اسے تلاش کرنے میں حکومت کے خرچ ہوئے تھے-

image


Gandaruban Subramaniam
سبریمنیم سنگاپور میں گاڑیاں کرائے پر فراہم کرنے کا کاروبار کرتا تھا- یہ کاروبار بند ہوگیا اور سبریمنیم مقروض ہوگیا- سبریمنیم سنگاپور سے سری لنکا چلا گیا اور وہاں اس نے اپنے جعلی قتل کا منصوبہ بنایا- اس شخص نے اپنی موت خانہ جنگی کے دوران لگنے والی ایک گولی سے ظاہر کی اور ایک نقلی ڈیتھ سرٹیفیکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا- اس کے بعد کسی نہ کسی طرح انشورنس کمپنی سے 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر بھی حاصل کرلیے- سبریمنیم نے ایک جعلی پاسپورٹ تیار کیا اور اپنی ہی بیوی سے دوبارہ شادی کی- اس جعلی پاسپورٹ کے ذریعے اس شخص نے سنگاپور کے متعدد وزٹ کیے اور آخری بار 2007 میں اسے جعلی پاسپورٹ کے ساتھ ہی گرفتار کرلیا گیا- اس شخص کو 3 سال کی سزا سنائی گئی-

image

Anna Gray
آنا کی ملاقات ایک شخص سے ایک آن لائن چیٹنگ کی سائٹ ہر ہوئی- کچھ وقت گزرتے کے بعد آنا کو محسوس ہوا کہ اس معاملے کو مزید آگے نہیں بڑھانا چاہیے اور یہی ختم کر دینا چاہیے لیکن اس کا آن لائن دوست اس بات پر راضی نہیں تھا- ایک روز آنا کے آن لائن دوست نے آنا کو آگاہ کہ وہ آج اس سے ملنے آئے گا جس پر وہ گبھرا گئی- آنا نے اپنی بہن کے ذریعے اس شخص کو مسیج بھجوایا کہ وہ بیمار ہے اور گزشتہ رات سے ہاسپٹل میں داخل ہے- میسج پڑھ کر آن لائن دوست کے مطالبے نے زور پکڑ لیا اور اب وہ ملاقات کے لیے مزید بضد ہوگیا جس پر آنا کی بہن نے آخری میسج بھیجا کہ آنا کی موت واقع ہوگئی ہے- یہ سن کر اس کے آن لائن دوست نے دوبارہ کبھی میسج نہیں کیا- لیکن کچھ ماہ گزرنے کے بعد آنا پھر اسی شخص کے ہاتھوں ایک دوسری آن لائن چیٹنگ کی ویب سائٹ پر پھر پکڑی گئی اور اس کا راز فاش ہوگیا-

image
YOU MAY ALSO LIKE:

Life is precious. Nobody wants to die unless your death give you a new, better life. Following are the stories of some people who faked their own death, to get out of their troubles, with an expectation of good life. The following list is in no particular order.