جناح ؒواقبالؒ کا پاکستان

مسٹر جناح جنھیں قائد اعظم اور کافر اعظم کا خطاب ان کی زندگی میں ہی دے دیا گیاتھا۔ان پر انکی زندگی میں ہی متعدد اعتراضات اور تنقید یں ہوتی رہی ہیں اسلئے اگرمسٹر جناح پر بعد از مرگ کوئی بھی تبصرہ ، تحقیق کے دائرے میں ہو تو سوال و جواب میں کوئی مضائقہ نہیں۔یہ بات تو طے شدہ ہے کہ پاکستانی نئی نسل اپنی تاریخ سے ناواقف اسلئے ہے کیونکہ نصاب تعلیم میں ناقابل یقین حقائق کو نئی نسل تک منتقل نہیں کرنے دیا گیا۔ہمیں پاکستانی تاریخ کی درستگی کیلئے کیا اقدامات کرنے ہونگے ؟ اس پر بحث کی جانے چاہیے اگر ہم فکری سوچ و فکر میں برداشت کا مادہ بھی رکھتے ہوں ،مسٹر جناح کے حوالے سے جب تاریخ کے اوراق کھولے جا رہے ہیں تو یقینی طور نوجوان نسل یہ ضرور جاننا چاہے گی کہ پاکستان جس مشکل حالات میں الجھا ہوا ہے کیا قومی تاریخ پر متنازعہ مباحث سے گرداب سے باہر آسکے گا ؟۔ صرف مجادلوں ،مناظروں ، تقاریر اور قیاس آرائیوں سے پاکستان کو دہشت گردی ، انتہا پسندی ،داخلی انتشار اور انارکی سے باہرنہیں نکالاجاسکتا۔بلکہ اس کیلئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔

اساس پاکستان کی بنیاد کیا تھی اور اب کیا ہے؟جب تک ایسے درست نہیں کیا جائے گا اس وقت تک پاکستان کی عوام کو داخلی انتشار اور بیرونی مداخلت سے نجات بھی نہیں مل سکتی۔ مسٹر جناح پر سب سے بڑا اعتراض کانگریسی مسلمانوں نے کیا تھا کہ جناح ،دراصل مسلمانوں کا بٹوارہ چاہتے ہیں۔ مسٹر جناح کیا چاہتے تھے اس کیلئے پہلے ہمیں اس حقیقت کوقبول کر لینا چاہیے کہ مسٹر جناح ، نہ سنی تھے ،نہ شیعہ تھے ، نہ خوجہ تھے اور نہ ہی اور کسی فرقہ وارانہ مسلک کے پیروکار ۔بلکہ انکے تمام تر نظریات انکی تمام تقاریر میں امت واحدہ اورفکر قرآنی کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں ۔انکی کسی تقر یر میں کبھی بھی فرقے ومسلک کا ذکر بالکل اسلئے نہیں ملتا کیونکہ وہ کسی بھی فرقہ وارانہ مسلک بندی پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔ عصبیت اور مذہبی منافرت سے بالاتر ہوکر ان کی تمام تقاریر پڑھی جائیں تو ان میں صرف اورصرف قرآن کریم کے قوانین واصول کے حوالے جا بجا ملیں گے ۔مسٹر جناح ،تھیا کریسی کے بھرپور مخالف تھے ، وہ بارہا کہہ چکے تھے پاکستان میں تھیا کریسی نہیں ہوگی۔ تھیا کریسی کی مخالفت کی بنا ء پر وہ کسی بھی مذہبی مسلک کی اجارہ داری نہیں چاہتے تھے۔فروری1948ء اہل امریکہ کے نام براڈ کاسٹ پیغام میں تھیاکرسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "یہ امر مسلمہ ہے کہ پاکستان میں کسی صورت میں بھی تھیاکریسی رائج نہیں ہوگی،جس میں حکومت مذہبی پیشواؤں کے ہاتھ میں دیدی جاتی ہے کہ وہ (بزعم خویش) خدائی مشن کو پورا کریں۔"یہی نظریہ اقبال کابھی تھا "رونامہ انقلاب لاہورکی23مارچ 1932ء کی اشاعت میں انھوں نے قوم سے کہا کہ"تمھارے دین کی یہ عظیم الشان بلند نظری،ملاؤں اور فقیہوں کے فرسودہ اوہام میں جکڑی ہوئی ہے اور آزادی چاہتی ہے۔"پاکستان بننے سے پہلے مسٹر جناح نے 5فروری 1938ء کومسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی یونین سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مسلم لیگ نے تمھیں اس ناپسندیدہ عنصر کی جکڑ بندیوں سے آزاد کردیا ہے جسے مولوی یا مولانا کہتے ہیں".
 11اپریل1946ء کودہلی میں مسلم لیجسلیٹرز کنویشن کے آخری اجلاس میں کہا کہ"اِسے اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ہم کس مقصد کیلئے یہ جنگ کر رہے ہیں،ہمارا نصب العین تھیا کریسی نہیں ، ہم تھیا کرٹیک سٹیٹ نہیں بنانا چاہتے۔"ان جیسی لاتعداد تقاریر ہیں جس میں تھیاکریسی کیخلاف مسٹر جناح نے بغاوت کا اعلان کیا تو پھر وہ خود فرقہ بندی کا شکار کیسے ہوسکتے ہیں۔

انکی سوچ کیا تھی یہ قیام پاکستان سے قبل انھوں نے واضح کردیا تھا ، حیدرآباد(دکن)میں عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبا ء کو 1941ء میں کچھ یوں بیان کیا کہ جس کے بعد کچھ اور کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔انھوں نے کہا تھا"اسلامی حکومت کے تصورکا یہ امتیازہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا" واحد ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول" ہیں۔اسلام میں اصلا نہ کسی" بادشاہ "کی اطاعت ہے نہ کسی" پارلیمان " ,نہ کسی اور "شخص" یا "ادارہ "کی۔"قرآن کریم "کے احکام ہی سیاست یا معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کے حدود متعین کرتے ہیں،اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے اور حکمرانی کیلئے آپ کو علاقہ اور مملکت کی ضرورت ہے۔(اورینٹ پریس بحوالہ روزنامہ انقلاب ، لاہور مورخہ 8فروری1942ء(۔یکم نومبر 1941ء کو لدھیانہ میں اکھنڈ بھارت کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت ہندوؤں کے مشہور رہنما ء مسٹر منشی نے کی۔انھوں نے کہا "تمھیں معلوم بھی ہے کہ پاکستان ہے کیا ؟ ،نہیں معلوم تو سن لیجئے کہ پاکستان کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسکا حق حاصل ہے کہ وہ ملک کے ایک یا ایک سے زیادہ علاقوں میں اپنے لئے ایسے مسکن بنا لیں جہاں طرز حکومتـ" قرآنی اصولوں" کے ڈھانچے میں ڈھل سکے اور جہاں ـ" اردو" ان کی قومی زبان بن سکے ،مختصرایوں سمجھئے کہ پاکستان مسلمانوں کا ایک ایسا خطہ ارض ہوگا جہاں "اسلامی حکومت" ہوگی۔
(ٹریبیون 2نومبر1941 )

پاکستان بننے کے بعد جرمن اسکالر پروفیسر ڈاکٹرKRAHNAN نے1977ء میں مسٹر جناح کی جشن صدسالہ تقریب میں کہا کہ"قائد اعظم محمدعلی جناح کے سامنے ماڈل ،قرآن مجید تھا"(پاکستان ٹائمز ۳ فروری۷۷ ء )۔لاتعداد ایسے تاریخی حوالے ہیں کہ مسٹر جناح پاکستان کیلئے ایک ایسے آئین کی تخلیق چاہتے تھے جس کی اساس قرآن کریم کے قوانین اور اصول ہوں۔غیر مسلم تو سمجھ گئے کہ مسٹر جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے لیکن ہم ابھی تک نہ جان سکے ۔ بدقستمی سے زندگی نے مسٹر جناح کو مہلت نہیں دی ۔ جس کی وجہ سے پاکستان جس دو قومی نظرئیے کے تحت وجود میں آیا تھا س کے ثمرات پوری دنیا میں نہ پہنچ پائے۔پاکستان کے دو قومی نظرئیے کی موت تو سقوط ڈھاکہ کے ساتھ ہی ہوگئی ہے ۔ اب یہ بچا کچا پاکستان ، نئے تجربات کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ مسٹرمحمد علی جناح ،تھیا کرٹیک نہیں تھے ، قیام پاکستان کا مقصد صرف مسلمانوں کا بٹوراہ تھا یا ضروت ؟یہ موضوع متنازعہ ہے لیکن ا یسے غیر متنازعہ بنا نے کیلئے تسلیم ، کرنا اور کرانا ہوگا کہ محمد علی جناح "قائد اعظم "تھے , یا نہیں ؟؟۔

اب جو عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ بزور طاقت کسی فرقے کے خلاف شدت پسندی کرکے وہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنا لیں گے تو ایسی سوچ خلاف اسلام ہے کیونکہ جب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسلام بزور طاقت نہیں پھیلایا اور اصحاب رسول ﷺ ،اسلامی حکومتوں یا تمام فقہ کے اماموں نے کبھی کسی فرقے کے خلاف قتل وغارت کو جائز قرار نہیں دیا تو پھر پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت اور حملوں کا واحد مقصد ، اسلامی نظام کا قیام نہیں بلکہ پاکستان کی بقا ء اور سا لمیت کو نقصان پہنچانا ہے۔ پاکستان کی بنیاد کو کمزور کرکے بنگلہ دیش کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کرنا مقصود ہے۔پاکستان کے بانیان اور اکابرین نے کبھی بھی فرقہ وارانہ بنیاد پر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد نہیں کی۔ایک فلاحی و رفاعی مملکت کا بہتر ین تصور اسلام کے سوا کون دے سکتا ہے اور دنیا میں لافانی اصولوں اور قوانین پر مشتمل نظام حیات قرآن کریم سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے ؟۔محمد علی جناح نے کبھی کسی فرقہ وارایت کا پرچار نہیں کیا۔موجودہ پاکستان "جناح کا پاکستان" تونہیں رہا لیکن "بچے کچے پاکستان" کو جناح کے تصورات کا پاکستان ضرور بنا سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نام نہاد خودساختہ مذہبی پیشوائیت نے محمد علی جناح کے افکار کی بنا ء پر انھیں "کافر اعظم " اور قوم نے انھیں"قائد اعظم" خطاب دیا تھا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 661747 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.