اسرائیلی درندگی ۰۰۰ عالمِ اسلام کی خاموشی کا نتیجہ تو نہیں؟

نام نہاد جہادی تنظمیں اسلامی ممالک میں اپنے ہی بھائیوں کو ہلاک کرنے میں سبقت لے جارہی ہیں۔ مسالک کی بنیاد پر مسلمان ایک دوسرے کو ہلاک کررہے ہیں لیکن جہاں دشمنانِ اسلام سے جہاد کرنا چاہیے وہاں صرف بیان بازی سے کام لیا جاتا ہے اور ظالم یہود و نصاری ٰ کے خلاف کوئی اہم پیشرفت نظر نہیں آتی۔ فلسطینی عوام قبلۂ اول کی حفاظت کیلئے جس طرح قربانی دے رہے ہیں اور ظالم اسرائیلی فوج کے آگے معصوم بچے جنہیں ابھی اساتذہ کے آگے زانوئے ادب طئے کرنے کے دن ہیں وہ اسرائیلی فوج کی بربریت اور درندگی کا شکار ہورہے ہیں۔ اسرائیلی فوج جن کے ہاتھوں میں عصری ٹکنالوجی سے لیس ہتھیار موجود ہیں تو دوسری جانب اپنی جان کی بازی لگاکر قبلۂ اول کی حفاظت کے لئے ہاتھوں میں پتھراٹھائے معصوم فلسطینی بچے، نوجوان مرد و خواتین نبردِ آزما ہیں۔عالمی طاقتوں کو عراق، شام، افغانستان، پاکستان، یمن وغیرہ کی لڑائی میں مسلمانوں کی جانب سے دہشت گردی کھلی طور پر دکھائی دیتی ہے لیکن فلسطین میں معصوم ننھے منے بچوں پر اسرائیلی فوج کی ظالمانہ کارروائیاں دکھائی نہیں دیتے۔ ویسے امریکہ یہیودی مملکت کی بقاء کے لئے ہر ماہ کروڑوں ڈالرز خرچ کرتا ہے جس کی رپورٹ ماضی میں امریکی انتظامیہ کے ایک ذمہ دار کی جانب سے جاری کی گئی تھی۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود و نصاریٰ اور دیگر غیرِ اسلام مذاہب کے درمیان اتحاد ممکن ہے لیکن ان دشمنانِ اسلام کے خلاف مسلمانوں کا اتحاد شائد ممکن نہیں۔ آج بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کو جس طرح ذلیل و رسوا کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں اور جس طرح مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر دشمنانِ اسلام اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی فوج کو ان ممالک میں پال رہے ہیں اور جو خطرناک ہتھیار بنائے ہیں اس کی نکاسی کروڑوں ڈالرز کے عوض مسلمانوں کے قتلِ عام کے لئے کررہے ہیں اسے شائد ہمارے مسلم حکمرا ں جانتے ہوئے بھی اپنی بقاء اور حکمرانی کے لئے صحیح تصور کرتے ہیں ۔ ماضی میں بعض حکمرانوں اور دولت مند طبقات کی جانب سے مسالک کی بنیاد پر شدت پسندوں کو مختلف طریقوں سے تعاون کیا گیا لیکن آج یہی شدت پسند تنظمیں دہشت گردی کے ذریعہ ان حکمرانوں کی نیندیں حرام کرچکے ہیں۔ اب ایک طرف عالمِ اسلام خصوصاً سنیوں کو شدت پسندوں سے خطرہ ہے تو دوسری جانب شیعہ ملیشیا جنہیں ایران کا تعاون حاصل ہے خطرہ ہے۔ عراق اور شام کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ان ممالک میں سنی مسلمانوں کو دو طرفہ حملوں کا نشان ہونا پڑ رہا ہے۔ عراقی حکومت شیعہ ملیشیا کو دولت اسلامیہ کے خلاف لڑنے کو ترجیح دے رہی ہے ، داعش اب دمشق کی جانب پیش قدمی کررہی ہے جبکہ یمن کے حقیقی حالات پر نظر ڈالیں تو وہاں پر بھی شیعہ حوثی قبائل صدر عبد ربہ منصور ہادی کے خلاف بغاوت کرکے سنی مسلمانوں پر جبر و ستم ڈھائے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک شیعہ حوثیوں کے خلاف فضائی کارروائی کرنے پر مجبور ہوئے۔افغانستان میں طالبان کی جانب سے پولیس اہلکاروں اور فوج پر آئے دن حملے اب کوئی نئی بات نہیں ۔ پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہر روز کوئی بری خبر سننے کو ملتی ہے۔ کبھی خودکش حملے تو کہیں بم دھماکہ یا پھر فائرنگ کا واقعہ۔ قتل و غارت گیری میں شائد پاکستان دیگر اسلامی ممالک کو پیچھے چھوڑ چکا ہے اور نہیں معلوم یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ دہشت گردانہ کارروائی کے سدّباب کے لئے ضروری ہے کہ ابتدائی سطح سے بچوں کو دینی تعلیم و تربیت کے ذریعہ سدھارا جائے اور معاشی طور پر پسماندہ طبقات کو سطح غربت سے اوپر لانے کے لئے مختلف روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں جب حکومت غریب اور ناخواندہ افراد کی تعلیم و تربیت اور معاشی پسماندگی کو دور کرنے کے اقدامات کریں گی تو یہاں کے حالات ضرور بدل سکتے ہیں لیکن کیا سیاسی قائدین کبھی بہتر صورتحال اور ملک میں امن و امان کی فضاء کو بحال ہوتے دیکھنا پسند کریں گے۔ شاید یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ایک عام قاری کے پاس موجود ہے۔ عالم اسلام کے دیگر ممالک میں بھی یہی صورتحال آہستہ آہستہ سراعیت کرجارہی ہے یہی وجہ ہے کہ اصل دشمنانِ اسلام کے خلاف جہاد کرنے کے بجائے اپنے ہی مسلم بھائیوں کو مسالک کے نام پر قتل کرکے جہاد تصور کررہے ہیں۔ فلسطینی عوام کی رہائی کے لئے فلسطینی پارلیمنٹ نے ملکی مزاحمتی تنظیموں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صہیونی جیلوں میں مظالم کا شکار فلسطینیوں کو آزادی دلانے کیلئے دشمن کیساتھ قیدیوں کے تبادلے کا نیا معاہدہ کریں تاکہ بیمار اور عمر رسیدہ فلسطینیوں کو قید و بند کی صعوبتوں سے نجات دلائی جاسکے۔اطلاعات کے مطابق غزہ کی پٹی میں فلسطینی پارلیمنٹ کے قائم مقام اسپیکر ڈاکٹر احمد بحر نے ریڈ کراس کے دفتر کے باہراحتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ میں اسرائیل کی جیلوں میں قید اپنے بہنوں اور بھائیوں کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ ہم یہاں ایک بارپھر مزاحمتی تنظیموں سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کیساتھ قیدیوں کے تبادلے کاکوئی نیا معاہدہ کریں تاکہ دشمن کی جیلوں میں قید فرزندان وطن کو رہا کرایا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ فلسطینی وفاء احرار 2 کا اعلان کریں۔ جس طرح 2010 ء میں فلسطینی تنظیموں نے دشمن کے ایک فوجی کے بدلے میں اپنے 1050 قیدیوں کو آزاد کرایا تھا،اب کی بار بھی ایسا ہی کوئی سمجھوتہ کیا جائے ، انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے جیلوں میں 250 کم عمربچوں کو بھی ڈال رکھا ہے جہاں ان سے ظالمانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ کم عمر بچوں کو جیلوں میں ڈالنا عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔انہوں نے دنیا بھرکی جمہوری قوتوں اور زندہ ضمیر اقوام پر زور دیا کہ وہ فلسطینی اسیران کے معاملے میں آواز اٹھائیں تاکہ اسرائیل پران کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔اگر فلسطینی عوام کے لئے عالم اسلام سے آواز اٹھتی ہے اور امریکہ و دیگر مغربی و یوروپی ممالک پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تو فلسطین کے کم عمر بچے اور ضعیف افراد کی رہائی کسی نہ کسی صورت عمل میں آسکتی ہے لیکن کیا عالمِ اسلام کے حکمراں اس معاملہ میں سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے آواز اٹھائیں گے؟

افغانستان میں طالبان کی خونریز کارروائی
26؍ مئی کوافغانستان صوبے قندھار میں طالبان کے عمارت پر حملے کے نتیجے میں 9 1پولیس اہلکار اور 7 فوجی ہلاک ہوگئے جبکہ سڑک کے کنارے بم دھماکے میں 6 افراد جاں بحق ہوگئے ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق قندھار کے گورنر کے ترجمان شمیم خپل واک نے میڈیا کو بتایا کہ مقامی وقت کے مطابق رات ساڑھے 8بجے طالبان نے قندھار شہر کی ایک عمارت پر قبضہ کرلیااور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔سیکورٹی فورسزنے عمارت کو گھیرے میں لے لیا اور دونوں جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں19پولیس اہلکار اور 7فوجی ہلاک ہوگئے۔اس سے پہلے قندھار میں ہی سڑک کنارے بم دھماکے میں گاڑی تباہ ہونے سے ایک ہی خاندان کے چھ افراد جاں بحق ہوگئے۔افغانستان میں طالبان کی سرگرمیاں کم ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ اس طرح پولیس اور فوج کے خلاف طالبان کے حملے افغان حکومت پر سوال کھڑے کرتے ہیں کہ حکومت طالبان کے خلاف سخت کارروائیاں کریں۔

یمن کے حالات اور۰۰۰
یمن کے شہر تعز میں سیکورٹی فورسز اور حوثی باغیوں کے مابین تازہ جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق تعز ضلع کے مختلف علاقوں میں شروع ہونے والی خونریز جھڑپوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس دوران سعودی اتحادی فضائیہ بھی باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے خبروں کے مطابق اتحادی طیاروں نے یمن کے دارالحکومت صنعا، تعز، عدن اور دیگر علاقوں میں فضائی بمباری کی جس میں انہوں نے سابق صدر علی عبداﷲ صالح کے بیٹے کے گھر کو تباہ کرنے کیساتھ حوثی باغیوں وعلی الصالح کے حامیوں کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے۔ یمن کے صوبہ تعز کے مختلف علاقوں میں متحارب ملیشیاؤں کے درمیان لڑائی کے باعث 50حوثی باغی ہلاک ہوگئے۔اب تک فضائی حملوں اور حوثی باغیوں کی کارروائیوں میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوچکے ہیں۔

سعودی عرب میں خواتین پر خصوصی نظر ۰۰۰
گذشتہ دنوں سعودی عرب میں ایک سعودی خاتون کی جانب سے تارک وطن کے ساتھ شادی کرنے کے فیصلے کے منظر عام پر آنے کے بعد شاید سعودی مذہبی ادارے کی پولیس اب سعودی خواتین پر خصوصی نظر رکھے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ سعودی عرب کے ایک شاپنگ مال میں ایک دوسری خاتون کو کسی بھی چیز لئے بغیر گھر واپس ہوناپڑا، کیونکہ یہ خاتون اس دکاندار کے اتنی قریب بیٹھی ہوئی تھی کہ انکے درمیان ایک چھوٹی سی میز حائل تھی جس پرمذہبی پولیس کی نظر پڑی اور وہ اس خاتون کو ابتداء میں جلد از جلد شاپنگ کرکے واپس ہونے کے احکامات دیئے لیکن یہ خاتون ان اہلکاروں کی حکم عدولی کرنے کے بعد اسے بغیر کچھ لئے واپس چلے جانا پڑا۔ اس واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر اس خاتون کی تائید اور مخالفت میں کئی افرادنے اپنی رائے پیش کی۔

بے نظیر بھٹو کاقاتل کون۰۰۰۰
پاکستان کے سابق وزیر دفاع میاں زاہد سرفرازنے اس بات کا انکشاف کیا ہیکہ بے نظیر بھٹو کا قتل انکے شوہر اور سابق صدر پاکستان آصف زرداری نے کروایا ہے ، اس قتل کی سازش دوبئی میں رچی گئی کیونکہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے درمیان تعلقات اتنے خراب ہوچکے تھے کہ وہ اپنے شوہر سے2008کے انتخابات سے قبل طلاق ( خلع) لینا چاہتی تھیں اب اس بات میں کہاں تک سچائی ہے اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اتنا ضرور ہیکہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد کئی تجزیہ نگار اس کا ذمہ دار آصف زرداری کو گردانتے رہے تھے ۔ بعض گوشوں سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ انکے بیٹے بلاول زرداری بھٹو کی اپنے والد سے اور سیاست سے دوری اسی سازش کے انکشاف کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ اس انکشاف کے بعد ملزم کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے یا پھر جنہوں نے انکشاف کیا ہے انہیں ۰۰۰ ویسے آصف زرداری کے خلاف پارٹی میں سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں اب دیکھنا ہے کہ مستقبل میں پاکستان پیپلز پارٹی کی صدارت پر کون براجمان ہوگا۰۰۰
Dr Muhammad Abul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abul Rasheed Junaid: 14 Articles with 9610 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.