وقت وقت کی باتیں

وقت وقت کی باتیں ۔۔یہ جملہ ہم اکثر محاورے کے طور پر بولتے ہیں لیکن یہاں اس حوالے سے یہ عنوان رکھا گیا ہے کہ کچھ وقت کے موضوع پر باتیں چل رہی ہیں پہلے وقت نا وقت کے موضوع پر زیر زبر میں کالم شائع ہوا تو اسی وقت کچھ دلچسپ واقعات ذہن میں آئے تھے کہ اسے ہم بھی قارئین کے ساتھ شیئر کر لیں پھر کچھ دوسرے اہم موضوعات حائل ہو گئے جنھوں نے اپنی طرف توجہ مبذول کرلی آج جب احمد حاطب بھائی کا کالم وقت پر ہاتھ ڈالنے کی گستاخی شائع ہوا اور اس میں مسلم پرویز بھائی کا خط پڑھنے کا موقع ملا تو بڑی خوشی ہوئی کہ سٹی گورنمنٹ میں یہ ایک ریکارڈ قائم ہوا ہے وقت کے حوالے سے اپنی یادداشت لکھنے کا خدا نہ خواستہ یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم احمد حاطب بھائی کے مقابلے پر کوئی تحریر لکھ رہے ہیں سچی بات تو یہ ہے کہ ہم اس چیز کا تو خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتے بس ہماری تمام تحریروں کا یک ہی مقصد ہوتا ہے کہ عام قاری کی معلومات میں اضافہ اور تحریک سے ساتھ وابستہ ساتھیوں کے لیے تذکیر و یاددہانی ہو جائے ۔

جناب احسان صاحب گذدرآباد کے دیرینہ کارکن ہیں ،پرانے کارکنوں کی ایک خو بو یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے ہاتھ میں ہر وقت کوئی نہ کوئی لٹریچر،کتابچہ،پمفلٹ،رسالہ یا دوورقہ ہوتا ہے اور جب کسی سے ان کی ملاقات ہوتی ہے تو چلتے وقت کوئی پڑھنے کی چیز اسے دے دیتے ہیں اسی طرح احسان صاحب کے بھی ہاتھ میں کچھ نہ کچھ ہوتا ہے اور جب آپ ان سے مل کے رخصتی مصافحہ کریں گے تو وہ کوئی رسالہ دیتے ہوئے کہیں گے کہ اس میں فلاں مضمون بہت اچھا آیا ہے اسے پڑھیے گا۔اسی طرح یہ پرانے حضرات اپنی گفتگو میں اپنے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ اور کچھ اہم واقعات بھی بتاتے ہیں۔احسان صاحب نے ایک واقعہ مجھے بتایا کہ یہ1950سے قبل کی بات ہے کہ "میں بندرروڈ موجودہ ایم اے جناح روڈ پر واقع تاج محل سنیما میں فلم دیکھنے گیا اس زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ جب فلم کی ایک ریل ختم ہو جائے تو اس کی دوسری ریل کسی دوسرے سنیما ہاؤس سے آتی تھی اکثر تو یہ وقت پر آجاتی تھیں لیکن کبھی کبھی اس میں پانچ دس منٹ کا وقفہ ہوجاتا تھا تو اس درمیان میں لوگ کچھ ریلیکس ہوجاتے سگریٹ پینے کا موقع مل جاتا کچھ آپس میں ہنسی مذاق میں وقت گزر جاتا اس دن ہوا کہ انتظامیہ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ دوسری ریل آنے میں آدھ گھنٹہ لگے گا ہم ٹہلنے کی غرض سے باہر نکل آئے پیدل چلتے ہوئے قریب ہی تھیو سو فیکل ہال تک گئے تو وہاں پر ایک بینر لگا ہوا تھا جس پر لکھا تھا کہ چار بجے مولانا مودودی کا خطاب ہوگا یہ یاد نہیں کہ کس موضوع پر یہ خطاب تھا میں نے یہ سوچ کر کہ ابھی تو آدھا گھنٹہ ہے ریل آنے میں چلو جب تک ان کا خطاب ہی سن لیں اب تو وہ تاج محل سنیما بھی ختم ہو گیا اور تھیو سو فیکل ہال کی بھی وہ آن بان شان ختم ہو گئی ،میں جب ہال کے اندر گیا تو دیکھا کہ کوئی دس بارہ افراد ہال میں ہو ں گے اسٹیج پر مولانا مودودی اکیلے بیٹھے ہیں چار بجنے میں ابھی پانچ منٹ باقی تھے جب ایک منٹ رہ گیا تو مولانا نے ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو اوپر اسٹیج پر بلالیا اور ٹھیک چار بجے اپنی تقریر شروع کردی اس کے بعد لوگ آتے گئے اور چند ہی منٹ میں ہال کھچاکھچ بھر گیا اور پھرمیں واپس سنیما ہال نہیں جاسکا ۔"احسان صاحب الحمداﷲ حیات ہیں ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اچھی صحت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے۔

بشارت اﷲ صاحب جسارت میں پروف ریڈر ہوتے تھے قیام پاکستان کے بعد شروع کے دنوں میں یہ پنجاب پولیس کی خفیہ سروس یعنی انٹلجنس میں ملازم تھے ۔بہت عرصے تک ان کی ڈیوٹی مولانا مودودی کے پروگراموں اور ان کی سرگرمیوں کی نگرانی میں لگائی گئی ،بشار ت صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے کسی پروگرام میں یہ نہیں دیکھا کہ مولانا کو ایک منٹ کی بھی تاخیر ہوئی ہو ۔اس زمانے میں سرکاری دفاتر میں بھی وقت کی پابندی ہوتی تھی۔بشارت صاحب جو سرکاری میں ملازم تھے اپنی ڈیوٹی کی انجام دہی کے دوران مولانا کی تقریروں سے متاثر ہوتے چلے گئے ،انھوں نے تو ایک ا ور دلچسپ واقعہ سنایا تھاجو ہم کسی اور وقت کے لیے اٹھارکھتے کہ براہ راست اس موضوع سے تعلق نہیں بنتا لیکن ایک حوالے سے وقت سے تھوڑا سا تعلق بنتا ہے اس لیے بیان کر دیتے ہیں یہ واقعہ بشارت صاحب نے جسارت کے فنانس منیجر جناب فخر محی الدین فاروقی صاحب کو سنایا تھا جنھوں مجھے یہ واقعہ بشارت صاحب کی موجودگی سنایا تھا اور بشارت صاحب نے اس کی تائید کی تھی کہ مولانا کو کسی ایسی جگہ پروگرام کے لیے جانا تھا جس کے درمیان میں پہاڑی علاقہ پڑتا تھا اور ظاہر ہے اس کے لیے جیپ سے سفر ہونا تھا کسی خفیہ مقام پر وگرام بنایا گیا کہ جب مولانا کی جیپ پہاڑی علاقے سے گزررہی ہو تو پیچھے سے کوئی "دوسری"گاڑی اس طرح ٹکر مارے کے مولانا کی جیپ پہاڑی ڈھلوان پر لڑھکتی ہوئی کھائی میں جا کر گر جائے اور یہ قصہ بھی پاک ہو جائے ،آگے کیا ہوا یہ بتانے پہلے یہ وضاحت ہو جائے کہ یہاں پریہ بات ٹھیک سے یادداشت میں نہیں ہے کہ بشارت صاحب کو دفتری ذرائع اس سازش کا علم ہو گیا تھا وہ بے چین تھے کسی طرح مولانا تک یہ خبر پہنچا دی جائے لیکن نہ پہنچا سکے دوسری بات یہ کہ انھیں خود اس واقع کا بعد میں علم ہوا ،بہر حال ہوا یہ کہ مولانا تو خیریت سے اپنی جگہ پر پہنچ گئے ۔اس واقع میں بھی تھوڑا سا وقت کا عمل دخل ہے ،یہ بعد میں پتا چل جائے گا۔

سید محمد فاروق صاحب کراچی کے پرانے رکن جماعت ہیں یہ لاہور میں شروع میں کافی عرصے رہے ہیں ان کا مولانا مودودی کے ساتھ ذاتی رابطہ رہا ہے اور انھوں نے مولانا کے ساتھ زیادہ خاصا وقت گزارا ہے ، فاروق صاحب بتاتے ہیں کہ مولانا کو جب کسی پروگرام میں جانا ہوتا تو اس مقام تک پہنچنے کے لیے جتنا وقت درکار ہوتا اس سے پندرہ منٹ پہلے نکلتے تھے ،مثلاَ یہ کہ ان کے گھر اچھرہ سے کسی جگہ پروگرام میں جانے کے لیے آدھے گھنٹے کا سفر ہے تو وہ پینتالیس منٹ پہلے نکلتے تھے کہ پندرہ منٹ کا اضافی وقت اس لیے رکھتے تھے کہ راستے میں ٹریفک کا کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے ورنہ تو پروگرام میں پندرہ بیس منٹ پہلے پہنچ جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔پہاڑی والے واقع میں ہو سکتا ہے کہ مولانا پہاڑی سفر کی وجہ سے اور زیادہ پہلے نکلے ہوں اور آرام سے اپنی منزل تک پہنچ گئے جو گاڑی تعاقب میں تھی اس ٹائمنگ فیکٹر کی وجہ اتنے فاصلے پر ہو کہ اسے اپنے حدف تک پہنچنے کے لیے تیز رفتاری سے کام لینا پڑا ہو اور حادثے کا شکار ہوگئی ہو واﷲ اعلم باالصواب۔

جماعت اسلامی کراچی کے سابق امیر جناب صادق حسین قریشی مرحوم یہ فرمایا کرتے تھے جماعت کے پروگراموں سے لوگ اپنی گھڑیاں ملایا کرتے تھے ۔جماعت کے تنظیمی پروگرام تو اب بھی اپنے وقت پر شروع ہوتے ہیں البتہ عوامی پروگراموں میں توجہ کی ضرورت ہے ۔لیاقت آباد کے ایک مرحوم و مغفور رکن جماعت جناب عتیق احمد صاحب پابندی وقت کے حوالے ایک مثال تھے ،ایک دفعہ انھوں نے اپنے ناظم حلقہ سے ملاقات کا وقت لیا انھوں نے کہا کہ صبح ساڑھے نو بجے آجائیں وہ ٹھیک ساڑھے نو بجے ان کے گھر پہنچ گئے دستک دی معلوم ہوا کہ ناظم صاحب ابھی سو رہے ہیں وہ دروازے کے ساتھ چبوترے پر بیٹھ گئے اور مطالعے میں مصروف ہو گئے تقریباَ ایک گھنٹے بعد ناظم صاحب اترے تو عتیق صاحب کو بیٹھا دیکھ کر اتنا شرمندہ ہوئے کہ ان کے منہ سے ٹھیک سے کوئی بات نہیں نکل پا رہی تھی بہت بہت معذرت کی عتیق صاحب نے کہا نہیں کوئی بات نہیں میں وقت پر آگیا تھا آپ یقیناَ بھول گئے ہوں گے میرے پاس وقت تھا تو بیٹھ کر آپ کا انتظار کرلیا ۔

آخر میں وقت کے حوالے سے ان ہی عتیق صاحب کی ایک بات پر اپنے مضمون کا اختتام کرتے ہیں کہ ایک دفعہ عتیق صاحب نے کسی کام سے مجھے صبح اپنے گھر بلایا کچھ دیر باتوں کے بعد انھوں نے اچانک پوچھ لیا کہ آپ کے دفتر پہنچنے کا وقت کیا ہے میں نے کہا نو بجے اس وقت دس منٹ اوپر ہو چکے تھے انھوں نے وہیں اپنی بات ختم کردی اور کہا کہ پھر کسی وقت بات کرلیں گے آپ دفتر جائیں دروازے تک چلتے چلتے ایک بات سنتے جائیں کہ ایک آدمی مسلمان سے کافر ہو جاتا ہے پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے غلطی کی ہے وہ دوبارہ ایمان لاکر مسلمان ہو جاتا ہے اور ایسا کئی بار بھی ہو سکتا ہے اس لیے ایمان ایسی چیز جاکر واپس آسکتی ہے لیکن اگر وقت چلا جائے تو وہ واپس نہیں آسکتا۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 49922 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.