یوم تکبیر: جس دن بھارت کا غرور خاک میں مل گیا

بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے، جس نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کو اب تک دل سے تسلیم نہیں کیا ہے، بلکہ روز اول سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کی دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، اس کے مکروہ اور گھناﺅنے ناپاک عزائم دنیا بھر پر عیاں ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ اپنے قومی فارمولے ”بغل میں چھری، منہ میں رام رام“ پر عمل کرتے ہوئے منافقت کی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کو استعمال کرتے ہوئے بے گناہ لوگوں کا قتل عام، بم دھماکے اور دہشت گردی کی پے در پے وارداتیں اس کی واضح مثال ہیں، جس کا اظہار کرتے ہوئے خود بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ چند روز قبل یہ بیان دے چکا ہے کہ ”بھارت کو دہشت گردوں کا استعمال کرنا چاہیے۔“ جو کہ بھارت کی جانب سے دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان میں تخریب کاری کروانے کا کھلا اعلان ہے۔ بلوچستان، کراچی اور ملک کے دیگر مختلف شہروں میں آئے روز بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے ایجنٹوں کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائیاں پاکستان سے ازلی دشمنی کا نتیجہ ہے۔ بھارتی عسکری و سیاسی قیادت آج بھی اسی ازلی دشمنی کے زیر اثر ہے۔ بھارت کی سیاست آج بھی پاکستان دشمنی کے گرد گھوم رہی ہے۔ انتخابات میں اسی سیاست دان کو زیادہ ووٹ ملتے ہیں، جو زیادہ پاکستان کے خلاف بولتا ہے۔ بھارت کا پاکستان دشمن وزیر اعظم نریندر مودی اس کی واضح مثال ہے۔ تقسیم برصغیر سے پہلے مسلمان ہندوﺅں کے مظالم کا شکار تھے اور ہندو ہمیشہ ہی مسلمانوں کو اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتے تھے، لیکن مسلمانوں نے ہندوﺅں کی غلامی کو مسترد کر کے طویل جدوجہد سے اپنا الگ ملک پاکستان حاصل کیا، جس سے ہندو ہمیشہ کی دشمنی میں مبتلا ہوگئے۔

پاکستان بننے کے بعد بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو توڑنے اور تباہ کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے ہیں۔ اپنے ان ناپاک ارادوں کی تکمیل کے لیے پاکستان پر تین بار جنگیں بھی مسلط کی گئیں۔ 1971ءمیں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر کے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کردیا اور 17 دسمبر 1971ءکو اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی نے لوک سبھا میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی انڈیا پاکستان کے خلاف مذموم سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے باز نہ آیا۔ بھارت کا ایٹمی انرجی کمیشن چونکہ 1948ءمیں ہی قائم ہوگیا تھا، اس لیے بھارت خود کو پاکستان پر حاکم تصور کرنے لگا تھا، جبکہ بہت سی طاغوتی قوتیں بھارت کی پشت پر کھڑی تھیں، جس نے بھارت کے غرور میں مزید اضافہ کردیا۔ اب پاکستان کے لیے یہ ضروری تھا کہ اپنی بقا کے لیے ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کرے۔ جبکہ روس، برطانیہ، چین، فرانس اور امریکا نے یکم جولائی 1968ءمیںایک معاہدہ تیار کیا، جس پر دستخط کرنے والے ممالک اس بات کے پابند تھے کہ وہ کبھی ایٹمی طاقت نہیں بنیں گے۔ بھارت اور اسرائیل نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کیا، کیونکہ بھارت کا ایٹمی انرجی کمیشن بھی قائم ہو چکا تھا۔ پاکستان نے بھارت کے خطرناک ارادوں کو بھانپتے ہوئے اس معاہدے پر دستخط نہ کیے۔ پاکستان 1979ءمیں بھی این پی ٹی پر دستخط کرنے کے لیے اس شرط پرآمادہ ہوا تھا کہ پاکستان کی سلامتی کا دشمن بھارت بھی اس پر دستخط کرے، لیکن بھارت نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ 1992ءمیں پاکستان نے جنوبی ایشیاءکو تین مرحلوں میں زیر و میزائل زون کے لیے تجویز دی، تاکہ اس خطے کو میزائلوں کی دوڑ سے پاک کیا جائے۔ بھارت نے اس تجویز کو ماننے کی بجائے پرتھوی، ارجن اور اگنی سے برصغیر کو بربادی سے دوچار کرنے کو ترجیح دی۔ 1997 ءمیں پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنوبی ایشیا کوایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی قرارداد پیش کی تو اس کے حق میں 153 ووٹ ڈالے گئے، جبکہ مخالفت میں صرف بھارت اور بھوٹان کے ووٹ آئے۔ بھارت کے سر پر چونکہ پاکستان کا خوف سوار تھا، اس لیے وہ ایٹمی دوڑ میں شامل ہوگیا۔

بھارت نے پاکستان کو دباﺅ میں رکھنے کے لیے 18مئی 1974ءکو پہلا ایٹمی تجربہ راجستھان کے علاقے پوکھران میں کیا، جس کے بعد بھارت دنیا کی ایٹمی طاقتوں میں چھٹے نمبر پر آگیا۔ اس وقت ابھی مشرقی پاکستان کے زخم تازہ تھے۔ ہماری معیشت بھی کٹی پتنگ کی طرح ہوا میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان کے خلاف مزید خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں، پاکستان نے سوچا کہ اگر ہم بھی ایٹمی قوت نہیں بنتے تو یہ ہمارے لیے خسارے کا سودا ہوگا۔ اس وقت کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے18 مئی 1974ءکو بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا: ”صاحبو .... ہندوﺅں نے بم بنا لیا ہے۔ اب ہمیں بم بنانا ہو گا۔ خواہ گھاس پر گزارہ کرنا پڑے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی سائنس دانوں کو ایک چھت تلے جمع کیا اور ایٹم بم کے حصول کے لیے سرتوڑ کوششیں شروع کر دی گئیں۔ 1976ءمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہوٹہ پروجیکٹ کی کمان سنبھالی تو سفر مزید تیز ہوگیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے مشن پر ساتھیوں سمیت جت گئے۔ 1979ءمیں ہم نے نیوکلیئر فیول سائیکل کے سارے مرحلے عبور کر لیے۔ مغرب اور امریکا نے باز رکھنے کے لیے عالمی عدالت میں ان پر مقدمہ درج کروایا، لیکن قدرت نے ہر حال میں ان کی مدد کی۔ بالآخرجون 1984ءمیں صدر ضیاءالحق کے دور میں ہم نے ایٹمی قوت حاصل کر لی، مگر عالمی دباﺅ کی وجہ سے اس کا تجربہ کرنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ ہم 1983ءسے 1998ءتک 24 مرتبہ اہم بموں کے کولڈٹین کر چکے تھے، لیکن پاکستانی سائنس دان بھی اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ سو فیصد کامیابی کا بلاخوف تردید اعلان کر پاتے۔ جب بھارت نے 11مئی 1998ءکو ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کرنے کا ارادہ کیا، لیکن دنیا بھر کے ”چودھریوں“ سے ہمیں دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں، امریکا، برطانیہ، جرمنی، جاپان، روس، فرانس، اٹلی کی جانب سے بار بار پاکستان کو لالچ دیا گیا اور دباﺅ بھی ڈالا جاتا رہا، لیکن پاکستانی قوم نے ہمت نہ ہاری اور 28 مئی 1998 کو سہ پہر 3 بجکر 16 منٹ پر چاغی کے مقام پر پاکستان نے بھارت کے 3 ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں 5 ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کا منہ توڑ جواب دیا اور پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا اور یوں 28 مئی کا عام دن ہمارے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ”یومِ تکبیر“ بن گیا۔

ان ایٹمی دھماکوں کے وقت 1998ءمیں بھارت فوج کی عددی تعداد اور فوجی اسلحہ بارود میں ہم سے بہت آگے تھا۔ بھارت کے پاس 12 لاکھ 63 ہزار فوج تھی۔ پاکستان کی فوج 6 لاکھ 20 ہزار تھی۔ پاکستان کے پاس بری فوج کی کل تعداد 5 لاکھ 50 ہزار تھی۔ بھارت کے پاس 11 لاکھ بری فوجی تھے۔ پاکستانی بحریہ 25 ہزار جوانوں اور افسروں پر مشتمل تھی۔ بھارت کے پاس 53 ہزار کی نیوی تھی۔ پاکستانی فضائیہ 45 ہزار اور بھارتی فضائیہ ایک لاکھ 10 ہزار افسروں پر مشتمل تھی۔ پاکستانی 2 ہزار 3 سو ٹینکوں کے مقابلے میں بھارت کے پاس 4 ہزار ایک سو 75 ٹینک تھے۔ پاکستانی فضائیہ کے پاس 401 طیارے اور انڈیا کے پاس 772 جدید ترین لڑاکا جہاز تھے۔ پاکستان کے پاس 45 ملٹی پل راکٹ لانچرز تھے۔ بھارت کئی گنا زیادہ یعنی 1500 ملٹی پل راکٹ لانچرز کا حامل تھا۔ پاکستانی فوج کے پاس 5 سو مارٹر گولے تھے، جبکہ بھارت کے پاس کوالٹی میں بہتر 1500 مارٹر گولے تھے۔ پاکستان کے پاس صرف 400 ڈیفنس توپیں تھیں۔ انڈیا 2 ہزار 400 ایسی توپوں کا مالک تھا۔ اس واضح عسکری برتری کے علاوہ اگر پاکستان اور بھارت کی ایٹمی طاقت کا مقابلہ کیا جائے تو بھارت کے پاس 4 سو کلوگرام پلوٹینم موجود تھی، جس سے وہ 65 سے 90 ایٹم بم بآسانی بنا سکتا تھا۔ پاکستان کے پاس بمشکل 2 سو کلوگرام پلوٹینم تھی، جس سے ہم 25 سے لے کر 30 تک ایٹم بم بنا سکتے تھے۔ یوں بھارت بری، بحری، ہوائی فوج، اسلحے، بارود، بموں، گولوں، توپوں، جہازوں، ٹینکوں، بکتربند گاڑیوں اور ایٹم بموں میں ہم سے کئی گنا زیادہ طاقت کا حامل تھا، لیکن پاکستان کے غیور عوام نے ہمت دکھائی اور حکومت کو ایٹمی دھماکے کرنے پر مجبور کیا۔ الحمدللہ! آج پاکستان جوہری ہتھیاروں میں بھارت سے آگے ہے۔ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 100 سے 120 اور بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 90 سے 110 کے درمیان ہے۔ آج دنیا کی ساتویں اور مسلم ممالک کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر میں اپنا ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ بھارت سمیت تمام دشمنان پاکستان کے خطرناک عزائم جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ آج ملک میں بعض ناسمجھ لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟ ان کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے سے نہ صرف پوری دنیا میں پاکستان کا نام اہم ترین ممالک میں آگیا ہے، بلکہ بھارت جیسے دشمنوں پر ہمیشہ کے لیے ہماری دھاک بھی بیٹھ گئی ہے۔ 2002ءمیں پرویز مشرف کے دور میں جب بھارت نے اپنی کئی لاکھ فوج باڈر پر لاکھڑی کی تھی، تو یہ پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا ہی فائدہ تھا کہ پاکستان کی صرف ایک دھمکی سے انڈیا کو اپنی ساری فوج ہٹانا پڑی تھی۔ ایٹمی صلاحیت کا حصول اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ، جس کی قدر کرنی چاہیے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632497 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.