خوب صورت

فاریہ کو پھر آج کوفت ہونے لگی تھی ایسا ہر اُس دن ہوتا تھا جب بھی کوئی اس کے رشتے کیلئے آتا تھا۔اُسکی ماں ہر بار ایک نئی اُمید پر آنے والوں کی دعوت کا انتظام کروایا کرتی تھی کہ ہو سکتا ہے کہ ابھی وقت باقی ہے بات بن ہی جائے گی ۔کونسا بیٹی اُس عمر میں جا رہی ہے جہاں رشتوں کی کمی ہو جاتی ہے۔بالوں میں چاندی سی اُترجاتی ہے اور پھر تنہائی کا روگ لگ جاتا ہے۔مگر فاریہ جو کہ انتہائی شریف و دین دار گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ،اُس وقت بے بس ہو جاتی تھی جب آنے والے اسکے گھر کی حالت کو دیکھ کر ہی منہ بنا لیتے تھے اور پھر کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر رشتے سے انکار کر دیتے تھے۔اور پھر فاریہ کئی دن تک اپنے کمر ے میں قید ہو جاتی تھی اور اپنی قسمت پر کئی کئی گھنٹے رویا کر تی تھی۔فاریہ خوبصورت تو تھی مگرقسمت کچھ روٹھی ہوئی تھی وگرنہ اتنے رشتوں میں سے کوئی تو ہاں کرلیتا اور اُسکی زندگی کچھ سہل ہو جاتی۔

فاریہ شکل و صورت کے اعتبار سے ایسی تھی کہ جو بھی اُس پر نظر ڈالتا تھا اُ س کی معصومیت دل کو چھو لیتی تھی۔ آنکھیں باتونی تھیں، لمبے گہرے بال ،نین نقش اچھے ہونے کے باوجود اُس کی سیرت بھی بہترین تھی جس کی گواہی آس پاس کی ہر پڑوسن کیا کرتی تھی اور فاریہ کی یونیورسٹی کی تمام دوست جن میں بریرہ کے ساتھ اُس کی گہری دوستی تھی ،اُس کی اداوں پر بہت مرمٹتی تھی۔لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ فاریہ کی زندگی میں ابھی تک کوئی ایسا نہیں آیا تھا جس نے اُس کی خوبصورتی کو سراہا کے اپنی زندگی میں شامل کرنے پر آمادہ کیا ہو۔

اس دفعہ جو رشتے دیکھنے آئے تھے انہوں نے اُس پر تنقید تو نہیں کی مگر گھرکی سفید پوشی سے اُنکی مالی حالت دیکھ کر بھی وہ پُر سکون رہے تھے۔فاریہ کو اس بار آنے والے لوگ اچھے لگ رہے تھے انہوں نے فاریہ کو اُن نظروں سے نہیں دیکھا تھا جیسے پہلے آنے والے دیکھا کرتے تھے۔یہ فاریہ کی بچپن کی دوست عطیہ کے محلے میں رہنے والے تھے۔ ذوالقرنین کی والدہ کو فاریہ پہلی ہی نظر میں بھا گئی تھی اور انہوں نے فاریہ کی والدہ کو اپنی آمد گی ظاہر کر دی تھی۔عطیہ کو جب فاریہ نے یونیورسٹی کی چھٹیوں کے بعد آکر یہ بات ہوسٹل کے کمرے میں آکر بتائی تو وہ بے حد حیران سی رہ گئی اور اُسکی قسمت پر رشک کرنے لگی تھی۔فاریہ نے اپنی دل پر ذوالقرنین کو پہلی مرتبہ دیکھ کر جو حالت ہوئی تھی کی روداد بتائی تو عطیہ نے کئی دنوں تک اسکو مذاق کا نشانہ بنے رکھا۔

دن پہ دن گذرے رہے تھے فاریہ اکثر یونیورسٹی میں اپنے سے زیادہ خوبصورت لڑکیوں کو دیکھا کرتی تھی،ان کے نت نئے فیشن سے کبھی متاثر بھی ہو جا یا کرتی تھی۔اُن کے اسیکنڈلز کی کہانیاں بھی ہر سو پھیلی ہوئی تھیں مگر فاریہ کو خوب صورت ہونے سے زیادہ خو ب سیرت بننے کا زیادہ شوق تھا۔تبھی اس نے ذوالقرنین کے لئے حامی بھرلی تھی جب اُسکی والدہ نے محض فاریہ کی خوب صورت شکل کی بجائے سیرت کو ترجیح دی تھی،حالانکہ ذوالقرنین زیادہ خوب صورت تو نہ تھا مگر شادی کے بعد فاریہ کومعلوم ہواذوالقرنین بہت باتونی ہے اور اُسے دل میں اُتر جانے کا ہنر بخوبی آتا تھا۔ وہ روز بروز اس کی محبت میں مزید گرفتار ہوتی چلی جا رہی تھی۔فاریہ کوہر گذرتے ہوئے دن کے ساتھ احساس ہوتا جا رہا تھا کہ خوب صورت ہونا ہی کافی نہیں ہوتا ہے،انسان کی سیرت ہی باقی رہنے والی ہے ، اسکے بنا انسان کچھ نہیں ہے۔قسمت انسان کی اچھی ہوجائے تو سب بہتر ہو جاتا ہے جیسے ذوالقرنین کو شادی کے ایک بونس ملا تو انہوں نے گاڑی خرید لی ۔

فاریہ کافی دنوں سے سارہ کو ملنے جانا چا رہی تھی مگر ذوالقرنین کے پاس اتنا وقت کہاں ہوتا تھا کہ اُسکو لے جاتا۔ایک دن وہ خود ہی گاڑی لے کرملنے چل دی،ایک موڑ پر اُ س نے چنچل سی محراب کو سکارف میں چہرہ ڈھانپے ہوئے شاپنگ مال میں داخل ہوتے دیکھا تو فورا گاڑی اُسی شاپنگ مال کی طرف موڑ دی۔وہ حیران سی ہو رہی تھی آخر محراب نے سکارف لینا کیوں شروع کیا۔اُ س نے گاڑی سے اُتر کر تقریبا بھاگتے ہوئے محراب کے پاس پہنچی اور اس کو سلام کر کے ششدرکردیا۔فاریہ نے فورا ہی سوال کیا کہ یہ کیسے انقلاب آیا وہ جو دوپٹے کو گلے میں محض رسی کی مانند رکھا کرتی تھی آج کیسے سکارف پہنے ہوئے ہے۔تو محراب نے بتایا کہ یونیورسٹی کے آخری دنوں میں اسکی دوستی ایک امیر کبیر لڑکے سے ہوگئی تھی جو اُس کے خوب صورت چہرے پر مر مٹا تھا ،بہت عرصے کی دوستی کے بعد بھی اُس نے شادی پر آمادگی ظاہر نہ کی تو اس نے جب محراب نے گھر والوں کے زور پر شادی کر لی۔ تو اُس نے ایک دن انتقامی کاروئی کرتے ہوئے اس کے خوب صورت چہرے پر ایسا کیمیکل پھینکا جس سے چہرے پر بد نما داغ بن گئے ۔جس کی وجہ سے اُس نے سکارف پہننا شروع کر دیا۔فاریہ کو انتہائی دُکھ ہوا کہ لوگ محض انا اور ضد کی خاطر ایسا کرتے ہیں۔اچھی سوچ نہیں رکھتے ہیں اورخوب صورت لوگ ایسے انتقام کا نشانہ بنتے ہیں ۔یہی سب سوچتے ہوئے وہ سار ہ کی طرف چل پڑی-

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 482066 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More