عوام اور حکمران

بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں سے منسلک جہاں کئی اور الزامات تاریخ کا حصہ ہیں وہیں ہماری کم عقلی اور محدود پیمانے کی سوچ بھی ہے۔برصغیر کی تاریخ چیخ چیخ گر گواہی دیتی ہوئی ملے گی کہ مسلمانوں نے خود پر حملہ کرنے والوں کو نا صرف دعوتیں دیں بلکہ ان کا ساتھ دیا اور ان کا بھرپول استقبال کیا۔چند مخصوص اور گنے چنے لوگوں کے سوا برصغیر پاک و ہند کے مسلمان تعصب ،فرقہ پرستی، تنگ نظری اور اندھی تقلید کے بے تاج بادشاہ کہلانے کے لائق ہیں۔ماضی میں سرانجام دیے گئے آباو اجداد کے کارناموں پر اترانا ہمارا وطیرہ ہے۔مگر آباواجداد کی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور ان سے سیکھنا باعث توہین سمجھا جاتا ہے۔اقتدار کی ہوس نے مسلمانوں کو بھائی کے ہاتھوں قتل کرنے پر مجبور کردیا۔تخت نشینی کا نشہ مسلمانان برصغیر کی رگ رگ میں سمایا ہوا ہے۔اور اس کے حصول کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔یہاں تک کہ اولیاکرام اور بزرگان دین نے برصغیر میں جس طریقت اور جس سوچ کی تعلیمات دی تھیں ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعد ازاں ان ہی مزاروں اور خانقاہوں کے گدی نشینوں نے ان تعلیمات کی ناصرف دھجیاں اڑا دیں بلکہ اقتدار کی ہوس پوری کرنے کے لیے اقوام عالم میں مسلمانوں کی جگ ہنسائی میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔برصغیر کی زمین گواہ ہے جب انگریز اس خطہ عرض پر حملہ آور ہونے کو آئے تو بڑے بڑے خانوادوں اور سلسلہ عقیدت سے منسلک لوگوں نے اقتدار اور مال کی لالچ میں کسے اپنے ضمیر اور اپنے بزرگوں کی تعلیمات کی بولی لگوائی۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج بھی ان کی اولادیں اپنے باپ دادا کی ولایت اور ان کی تعلیمات کا تو ذکر کرتی ہیں۔جو کہ ایک مسلمہ حقیقت بھی ہیں۔مگر ان کے نام کو استعمال کرکے منفی کردارادا کرنے والے گدی نشینوں کی زندگی سے سیکھنے اور اس کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔پاکستان کی موجودہ سیاست کے بڑے بڑے نام اٹھا کر دیکھیں ۔خواہ وہ کسی ہی پارٹی کا حصہ کیوں نا ہوں۔ان میں سے اکثر باپ دادا کے نام کی سیاست کرتے ہیں۔مگر کبھی عوام نے ان سے سوال کرنے کی جسارت نہیں کی کہ جن باپ دادا کا نام لیکر وہ اپنی سیاست کی دوکانداری چمکاتے ہیں اور عوام کے جذبات ،عوام کے ووٹ،عوام کے پیسے ،عوام کی عزت آبرواور عوام کی جان تلک کے سودے کر تے ہیںماضی میں ان کے یہی آباﺅ اجداد کن کن سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں؟کس طرح سے مسلمانوں اور دیگر اہل وطن کے لیے شرمندگی اور نقصان کا ذریعہ بنتے رہے ہیں۔کیا کبھی عوام نے سوال کیا پاکستان کے سابقہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے کہ آپ کے آباﺅ اجداد اس خطے میں انگریز کے حملے کو کامیاب بنانے والوں میں سے تھے یا نہیں تھے؟کیا آپ کے آباﺅ اجداد کو انگریز کی وفاداری کے عوض انعامات ملے یا نہیں ملے؟ کیا آپ کے آباﺅ اجداد نے زمین کے ٹکڑوں اور چند ٹکوں کے عوض مسلمانوں کی جانوں کے سودے نہیں کیے؟ کوئی ہے اس ملک میں ایسا جو پوچھے اسفند یار ولی خان سے کہ ان کے والد صاحب کے کیا خیالات تھے پاکستان کے متعلق؟ کیاخدمات تھیں ان کی پاکستان کے لیے ؟ کیوں آج ان کی ماں نے ہی ان کی اصلیت کو عوام کے سامنے بیان کر دیا؟کسی پاکستا نی شہری میں اتنی جر ات ہے جو سوال کرے شاہ محمود قریشی صاحب سے کہ برصغیر میں ان کے آباﺅ اجداد مسلمانوں کے ساتھ کس سلوک میں ملوث رہے؟کیا کیا خدمات انگریز کو پیش کی جاتی رہیں ان کی طرف سے ؟ کوئی ہے ایسا جو سوال کرے سابق صدر آصف علی زرداری صاحب سے کہ آپ کے والد صاحب بانی پاکستان سے متعلق کیا خیالات رکھتے تھے اور بیان کیا کرتے تھے؟کوئی سوال کرنے والا ہو تو سوال کرے بلاول بھٹو سے جس نانا کے نام کی سیاست چمکا رہے ہیں کیا وہی ذولفقار بھٹو آمریت کی انگلی پکڑ کر سیاست میں نہیں آئے؟کیا وہی بھٹو آمریت کے دور میں اقتدار میں نہیں رہے ؟کسی نے سوال کرنا ہو تو سوال کرے اعجاز الحق صاحب سے جو آج جمہوریت کے چیمپین تصور ہوتے ہیں کہ اپنے والد صا حب کے عوام دوست کارناموں پرذرا روشنی ڈالیے۔کوئی پوچھنے والا ہے جو ان بڑے بڑے سیاسی مگرمچھوں سے سوال کرے ؟۔نہیں کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا۔نا کوئی سوال کرے گا۔نا کسی کو ان سوالوں کا خیال رہتا ہے ۔مگر ایک مرتبہ سوچیے جو لوگ ماضی میں عوام کے سودے کرتے رہے کہ آج وہ یا ان کے نام لیوا اس ملک کے وفادار اور خیر خواہ کیسے بن جائیں گے؟کیا آج بھی عوام کو بے خبر رکھ کر عوام کے مال دولت عزت آبرو اور جان کے سودے نہیں کیے جا رہے؟کل بھی لوگ اندھی عقیدت سے لٹتے تھے اور آج بھی اندھی تقلید ہی ہماری تباہی کا باعث ہے۔ٹھپہ چاہے بلے پر لگے یا لیمپ پر۔شیر آئے یا کوئی لومڑ۔عوام کے دلوں پر تیر اثر کرے یا عوام کی قسمت کی پتنگ کٹ جائے غریب کو اس سے کوئی غرض نہیں۔غریب کیوں نہیں پوچھتا سوال کہ عوام پانی کی بوند بوند کو ترس ترس کر مرتی رہی اور حکمرانوں کی شاہ خرچیاں کیسے بڑھتی رہیں؟کب پوچھے گی عوام کہ ہمارے پیٹ نوالوں کو ترس رہے ہیں اور حکمرانوں کی عیاشیاں بڑھتی جا رہی ہیں؟کیا پوچھنا ہمارا حق نہیں بنتا کہ ملک میں غریب کوادویات نہیں مل پاتی اور بیرون ملک دوروں پر لاکھوں ڈالر کیوں لگ جاتے ہیں؟غریب کے بچوں کوتن ڈھانپنے کے لیے کپڑے میسر نہیں اور غریب کا نوالہ چھیننے ولاے ہیلی کاپٹروں میں گھوم رہے ہیں؟غریب کی بے سروسامانی چھت کی محتاج ہے اور حکمرانوں کے محلات بنائے جارہے ہیں؟مگر افسوس ہمارے بچوں کا مستقبل کن لوگوں کے ہاتھوں میں جا رہا ہے یہ سوچنے کے لیے ہم میں سے کوئی بھی تیار نہیں ۔کیونکہ ہم سب محدود سوچ کے مالک ہیں۔ہم صرف آج کا سوچتے ہیں۔ہم یادداشت کے مریض ہیں۔ہمیں لوٹنے والے باری باری آتے رہیں گے ہم ان کو استقبال کرتے رہیں گے کندھوں پر بٹھا کر کبھی کسی جج کو لائیں گے تو کبھی کسی جنرل کی آمد کی مٹھائی بانٹیں گے کبھی کسی سیاستدان کو سر پر سوار کریں گے ۔اور یہی ہمارے رہبر جیسے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتے آئے ہیں آج بھی اسی طرز سے پیش آئیں گے مگرہم ہمت ہارنے والے نہیں۔آخری دم تک لٹنے اور تباہ ہونے کے لیے لٹیروں اور راہزنوں کو اپنی قیادت اور سربراہی سونپتے رہیںگے۔وہی لٹیرے مختلف پارٹیوں کا لبادہ اوڑھ کر آتے رہیں گے اور ہم عوام نسل در نسل غلام تھے اور نسل در نسل غلام ہی رہیں گے۔نا سوچ بدلے گی ۔ نا حالت بدلے گی۔پھرجب دم پر پاﺅں آیا تو کچھ وقت وہی رونا دھونا اورپھر نئے لٹیروں کے استقبال کی تیاریاں۔اور سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
 

 ضیاءاللہ خان
About the Author: ضیاءاللہ خان Read More Articles by ضیاءاللہ خان : 9 Articles with 6279 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.