مسلم یونیورسٹی، مسلم تشخص، قومی دھارا اورکلدیپ نائر

کلدیپ نائر صاحب کی شخصیت کسی تعارف کہ محتاج نہیں۔ گزشتہ ہفتہ وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں مدعو تھے۔وہاں جوکچھ فرمایا اس کو پڑھ کر اچھا نہیں لگا۔ لیکن یہ سوچ کر خاموش رہے کہ ممکن ہے رپورٹر سے سہو ہوا ہو۔ لیکن بدھ ۱۳؍ مئی کو ان کا جو ہفتہ وار کالم شائع ہوا ہے، اس کا افتتاحی جملہ ملاحظہ فرمائیں:’’ میں اے ایم یو کے حالات دیکھ کر اورجان کر پریشان ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے طلبہ مرکزی دھارے میں شامل ہوتے نظرنہیں آرہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے مطالبہ پراوربحیثیت مسلمان اپنے تشخص کی حفاظت کے لئے ہماری فکرمندی پر سوال اٹھائے ہیں اور ایک گمراہ کن مفروضہ پیش فرمایا ہے کہ ’تمام ہندستانیوں کی غالب شناخت ہندستانی ہے۔‘

اپنے مختصرکالم میں موصوف نے آزادی سے قبل کے اس ناخوشگوار واقعہ کا ذکر بھی ضروری سمجھا جو مولانا آزاد کے ساتھ علی گڑھ اسٹیشن پر پیش آیا تھااورجس میں مسلم لیگ کے ہم نوا ملوث تھے۔ بیشک ان میں یونیورسٹی کے چند طلباء بھی تھے۔لیکن اس کا کوئی تعلق بحیثیت مجموعی نہ تو یونیورسٹی سے تھا اوریونیورسٹی کے طلباء کی اکثریت سے۔دوسرے یہ کہ وہ سیاست کا ایک ایسا پرآشوب دور تھا، اس کے کسی واقعہ کو 2015کی مسلم یونیورسٹی پرہرگز چسپاں نہیں کیا جاسکتا۔ ہم حیران ہیں کہ سینئر صحافی اور سابق سفیر ہند برائے برطانیہ جناب نائراپنے ان تاثرات سے مودی سرکار کو کیا ترغیب دلانا چاہتے ہیں؟
پورے مضمون کا تجزیہ توطوالت کاباعث ہوگا، ہم اپنے بزرگ صحافی سے صرف وہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں جو قومی یک جہتی کے موضوع پر ایک میٹنگ کے دورا ن محترمہ اندرا گاندھی سے اس وقت کیا گیا جب وزیراعظم ہند نے مسلم قائدین سے یہی شکایت کی تھی کہ مسلمان قومی دھارے سے الگ رہتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا تھا:’میڈم یہ بتادیجئے کہ وہ قومی دھارا کیا ہے، کہاں بہتاہے کہ ہم اس میں شامل ہوجائیں ۔ ‘ اس سوال کا جواب پچھلے 45سال میں ہمیں نہیں ملا ہے۔

اتفاق سے یہ کالم نویس مسلم یونیورسٹی کا طالب علم رہا ہے۔اس کی چاربیٹیوں اور ایک داماد نے بھی اسی یونیورسٹی میں تعلیم پائی ہے۔ اس لئے یہ حق بجانب ہوگا کہ نائر صاحب کے ان اشکالات پربصداحترم اپنی معروضات پیش کی جائیں۔ سنئے،بحیثیت ہندستانی مسلمان، ہم بغیر سوچے سمجھے کسی دانشوریا سیاست داں کے مفرضوں پر خود کوڈھالنے کے پابندعہد نہیں ہیں۔اندرا جی سے لیکر (جن کے نائر صاحب قبل ایمرجنسی قریب رہے)کوئی اس سوال کا جواب نہیں دے سکا کہ مسلمانوں کو جس قومی دھارے کی نصیحت دی جاتی ہے، وہ ہے کیا؟ لیکن ہم عرض کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک قومی دھارا وہ ہے جس کا تعین ہمارا آئین کرتا ہے۔ یہ آئین ہرمذہب اورفرقہ کے باشندگان ہند کو اپنی تہذیبی، لسانی، مذہبی اوررواجی خصوصیات کی حفاظت کا حق دیتا ہے، جس کو ہم مختصراپنا’ملی تشخص‘ کہتے ہیں۔ یہ آئین ہمیں اپنی پسند کے ادارے قائم کرنے اورچلانے کا حق دیتا ہے۔ یہ آئین ہمیں اپنے ملی اورقومی ورثوں کی حفاظت کا حق دیتا ہے۔مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار ہو یا اپنے ملی ومذہبی شعائر پر قائم رہ کراپنے تشخص کی حفاظت کی فکرمندی، ہماراقانونی اورآئینی حق ہے اور اس حق پر اصرار سے ہماری ہندستانیت مکدر نہیں ہوتی۔یہ خیال فاسد ہے کہ ہندستانیت اورمسلمانیت میں کوئی ٹکراؤ اورتضاد ہے۔ہم اپنی وضع وقطع، مراسم عبادات، نکاح وطلاق کے ضوابط ، ورثے کی تقسیم جیسے شعائر پر، جو ہمارے دین وایمان کا حصہ ہیں،قائم رہتے ہوئے بیک وقت ہندستانی بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ ہماری شناخت صرف ہندستانی نہیں بلکہ ہندستانی مسلمان کی ہے۔ یہ فساد تو آرایس ایس کا پھیلایا ہوا ہے کہ ملک کی ساری کلچریں ایک مخصوص کلچر میں ضم ہو جائیں۔ہمیں حیرت ہے نائر صاحب کہاں اس رو میں بہہ گئے؟ یہ نظریہ آئین کے سیکولر رزم کے اصول کے منافی ہے اس لئے ہمارے لئے قابل قبول نہیں۔ ہم نہایت ادب کے ساتھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری روش عین آئین کے مطابق ہے ۔ہم پوری قوم کو بھی قولاً اورعملاً اسی روش میں ڈھل جانے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہندواچھا ہندو بنے، مسلمان اچھا مسلمان بنے ، وغیرہ اورہم سب مل کر اچھے ہندستانی بنیں۔

دوباتیں بالکل صاف ہیں۔ہم ہندستانی ہیں اورمسلمان ہیں۔پیداہوئے تو قومیت ہندستانی قرار پائی۔ شعورآیا تواسلام پر قائم ہوئے۔ہم اکثریت کی کلچر کا احترام کرتے ہیں۔لیکن اگروہ اچھوت کے ہاتھ کا پانی نہیں پیتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی پیروی میں ہم بھی ان کا چھوا ہوا پانی نہ پئیں۔ ہمارے نزدیک سب کا کسی ایک طرز معاشرت میں رنگ جانا ہندستانیت نہیں۔کسی بھی مذہب و کلچر کا پیروکارہو، یہاں تک کہ چاہے ناستک ہو،سب یکساں طورپرہندستانی ہیں۔ ان سے اپنی شناخت کسی غالب اکثریت والی شناخت میں ضم کرنے کا مطالبہ غیرآئینی، غیر جمہوری،غیردانشمندانہ اورفسطائی ذہنیت کا پتہ دیتا ہے۔ ہم نے اس کے سامنے سینہ سپر ہونا توسیکھا ہے، سپرانداز ہونا ہماری سرشت میں نہیں، کیونکہ ہم سیکولر آئین کے پابند ہندستانی ہیں۔

مودی سرکارکاایک سال
اس ہفتہ نریندرمودی سرکار کا ایک سال پورا ہورہا ہے۔ یہ وقت ہے کہ غیر جانبدار ہوکر اس سرکار کی کارگزایوں کا جائزہ لیا جائے۔ لیکن اس وقت میڈیا میں جائزوں کی باڑھ سی آئی ہوئی ہے لیکن اس میں غیرجانبداری کو تلاش کرنا کاردارد ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ میڈیا جو کبھی مشن تھا،اب خالص تجارت بن گیا ہے۔تاجر کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جس پروڈکٹ میں اس کو کمیشن زیادہ ملتا ہے، خریدار کو اسی کی خوبیاں گنواتا ہے۔یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ کون سی تحریر کس کی طرف سے’پیڈ نیوز‘ ہے؟ ان جائزوں میں اعداد وشمار کاگورکھ دھندہ ایسا ہوتا ہے کہ اچھے اچھے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ہم بازارجاتے ہیں تو ہرچیز کا بھاؤ بڑھا ہوا ملتا اوراخبار کھولتے ہیں تو پڑھتے ہیں کہ مہنگائی کا انڈیکس کم ہوگیا۔ غورکرنے سے پتہ چلا کہ مہنگائی کم نہیں اس کے اضافہ کی شرح کم ہوئی ہے۔ گزشتہ سال اسی ماہ میں دس روپیہ بڑھے تھے، اس سال پونے دس بڑھے، اس لئے خوش ہوجاؤ۔ مہنگائی میں اضافہ کی شرح کم ہوگئی ہے۔
لیکن جس طرح تھرمامیٹر کے بغیر بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آج گرمی کم ہے یا زیادہ ،اسی طرح ماہروں کے اعداد شمار کے بغیر بھی یہ اندازہ ہورہا ہے کہ جن ’اچھے دنوں ‘کی آس تھی وہ آتے نظرنہیں آرہے ہیں۔امن وقانون کی صورتحال یہ ہے ہر روز ظلم وزیادتی کی خبریں آتی ہیں۔ خصوصا اس ایک سال میں اہل کتاب اقلیتیں (عیسائی اورمسلمان) زیادہ غیرمحفوظ ہوگئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مسلم اقلیت تو کانگریس کے دور میں بھی سیاسی، سماجی، تعلیمی ، معاشی اورقانونی اعتبار سے خود کو غیرمحفوظ ہی پاتی تھی مگر مودی دور میں اس احساس میں شدت آگئی ہے۔ عیسائی طبقہ بھی پہلے سے زیادہ نشانے پرہے۔ یہاں تک کہ سابق اعلا پولیس افسر جے ربیرو بھی بلبلا اٹھے۔انڈین ایکسپریس میں ان کے مضمون کا اثر یہ ہوا کہ کئی یورپی اداروں نے ’اقلیتوں‘ کے ساتھ مودی سرکار کے رویہ پر پھٹکارسنائی ۔ صدراوبامہ تو دہلی میں ہی کھری کھری سناگئے۔ لیکن ماحول کو خراب کرنے والے خودساختہ قوم پرستوں کے بارے میں یہی کہا جائیگا: ’شرم ان کومگر نہیں آتی‘۔

پچھلے سال ہمارے ملک کے سیاسی منظرنامے کاقبلہ تبدیل ہوگیا۔ 1970 میں ’اندرا ہی انڈیا ہے، انڈیا ہی اندرا ہے‘ کا جو نعرہ گونجا تھا، وہ بہت سے قارئین کو یاد ہوگا۔ اٹل بہاری باجپئی کو بھی اندراگاندھی میں چنڈی دیوی کی جھلک نظرآنے لگی تھی۔ آج زبان حال سے، ’مودی ہی بھاجپا ہے، مودی ہی بھارت ‘ کی صداآرہی ہے۔ ممتاز صحافی، دانشور، بھاجپا لیڈر ارن شوری نے صاف کہہ دیا بھاجپا بس مودی، امت اورجیٹلی کی تکڑی کا نام رہ گیا ہے جو سارے پارٹی لیڈروں کو دھونسا رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ مرلی منوہرجوشی اورآڈوانی جیسوں کی بولتی بند ہوگئی ہے۔ آڈوانی نے تواپنا بلاگ لکھنا بھی بند کر دیا، جس میں وہ طرح طرح کے شگوفے چھوڑا کرتے تھے۔پارٹی کی عاملہ کے اجلاس میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ بولے نہیں۔

دسری طرف ’اندرا‘ وراثت کے دعویدار، راہل گاندھی اچانک ’بھیا ‘ بن گئے ہیں۔ یو پی اے دومیں ہیروکا رول اداکرتے کرتے اچانک زیرو ہوگئے۔ سرکار میں خود کوئی زمہ داری قبول نہیں کی اور سابق سرکار کے آخری ایام میں غیرسنجیدہ مداخلتوں سے یوپی اے کو لے ڈوبے۔ مودی برسراقتدارآئے تو کہا گیا کہ پرتھوی راج چوہان کے بعد دہلی میں پہلی ہندو سرکار قائم ہوئی ہے۔چوہان کو سنہ1192ء میں شہاب الدین غوری نے تھانیسر کے میدان میں شکست دی تھی۔غوری کے مقابلے چوہان کا لاؤ لشکر مودی کی طرح بہت بڑا اورطاقتور تھا۔اس کی مددکے لئے کوئی ڈیرھ سو راجپوت راجے مہاراجے آئے تھے۔ مگر جنگی حکمت عملی میں غوری بازی مارلے گئے اور نے چوہان کومہاراجہ سے قیدی بناکر غور بھیج دیا ۔ یوپی اے میں محمد شکیل، میم افضل، رندیپ سرجیوالا ، سندیپ دیکشت اور بہت سے دیگر نہایت ذہین ترجمان اورقائد تو ہیں، مگراعتماد کا فقدان ہے۔ کچھ پتہ نہیں کب کس کا نام راشد علوی کی طرح بورڈ سے مٹادیا جائے۔ بس راہل کا ڈھول بجایا جارہا ہے لیکن ان کی تلون مزاجی ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ سیاسی سمجھ کا بھی فقدان ہے۔ جب کسان بے موسم برسات سے بے حال تھے تو کہیں روپوش تھے۔ آئے تو اپنے حلقہ ا نتخاب کی یاد نہیں آئی بلکہ کیدارناتھ مندرکے کپاٹ کھلوانے پہاڑی پر چڑھ گئے۔ جو بیچارے وہاں مارے گئے تھے ان کی تو یاد آئی ، جو مررہے ہیں ان کا خیال نہ آیا۔ پارٹی کی شکست پر شکست کو فتح میں بدل دے، ایسا کوئی غوری ان کے قافلے میں نظر نہیں آتا۔چندروز قبل دہلی میں اجے ماکن نے اردواخباروالوں سے ملاقات میں اقلیتوں کے تعلق سے پارٹی کی پالیسیوں میں غلطیوں کو تسلیم کیا ، لیکن اب مسلم اقلیت قول پرنہیں قدموں پر نظرکئے ہوئے ہے۔ چندریاستوں میں کانگریس کی سرکاریں ہیں، ان میں وہ کیا کرتی ہے، یہ دیکھا جائیگا۔ آپ کی یہ درگت اس لئے ہوئی کہ دعوا تو سیکولرزم کا کیا اور خون نے آنسو اقلیتوں کو رلوائے۔

بات مودی کی چل رہی تھی۔ غیرمعمولی اکثریت سے مودی کے برسر اقتدارآنے کے بعد ہندوتوا کے نام سے ملک بھر میں ثقافتی ومذہبی آتنکیوں کے حوصلے آسمان چھونے لگے۔ یہاں تک پارٹی کی ایک کم فہم کارکن نام نہاد سادھوی پراچی نے اعلان کردیا کہ جب تک ہندستان کے سبھی غیر ہندوؤں کوہندو نہیں بنا لیا جائیگا، ’گھر واپسی ‘کا پروگرام جاری رہیگا۔ قوم کے دبے کچلے عوام کے لئے ’اچھے دنوں‘ کے وعدے پر جو سرکار ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘کا نعرہ لگاکر برسراقتدار آئی تھی، وہ اس طرح کے بیانات سن رہی ہے اوراس کو قوموں کے درمیان منافرت کی روک تھام کا قانون یاد نہیں آرہا۔ گجرات ماڈل پر جس وکاس کا وعدہ کیا تھا،اس کی کوئی رمق نظر نہیں آرہی ۔غیرملکی دوروں پر دورے جاری ہیں، لیکن نہ بیرونی سرمایہ آرہا ہے ، نہ میک ان انڈیا کا عمل شروع ہوا۔ البتہ یہ خبرآئی ہے کہ ’پیور گؤ متر‘ بوتل بند کرنے کی فیکٹری کا ادگھاٹن ہو گیا ہے۔ ممکن ہے اسی سے بوڑھے بیلوں اورگایوں کی قیمت بن جائیگی جو کسانوں پر بوجھ بن گئے ہیں اور سڑکوں پرآوارہ پھرنے کے لئے چھوڑدئے گئے ہیں۔ اب تک کوڑے دانوں سے لوہا، پلاسٹک وغیرہ چنتے ہوئے کم سن لڑکے اورعورتیں لوگ نظرآتی تھیں، اب ان کے گروہ آوارہ گایوں کے پیچھے برتن لئے ہوئے منڈلاتے نظرآیا کریں گے تاکہ جیسے ہی کوئی گائے پیشاب کرنے کے موڈ میں نظرآئے ،بھاگ برتن لگادیں اورفیکٹری کو سپلائی کردیں۔ اس طرح روزگار کا ایک انوکھا زریعہ مودی راج کا تاج بن سکتا ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس عام
مودی کے برسرِ اقتدارآنے کے بعد اکثر مسلم تنظیموں نے یہ معقول حکمت عملی اختیار کی تھی کہ سرکار کو کچھ موقع کام کرنے کا دیا جانا چاہئے۔26مئی کویہ سرکار اپنی پانچ سالہ مدت کا پہلا سال پوراکرلیگی۔یہ مناسب ہوگا کہ اب تکلف برطرف، اس کی کاردکردگی کا جائزہ لیاجائے اورقوم کو کوئی مثبت پیغام دیاجائے۔ غالباً اسی مناسبت سے جمعیۃ علماء ہندنے اپنا 32واں کل ہند اجلاس عام 15 اور 16 مئی کو رام لیلا میدان دہلی میں طلب کیا ہے۔امید ہے کہ یہ تنظیم ،جس کا ایک صدی کا تاریخی سیاسی پس منظر ہے، اس موقع پر سرکار کے جائزہ کے ساتھ اپنا موقف بھی ملک اورقوم کے سامنے رکھے گی۔اسی کے ساتھ کوئی صورت حکومت سے مکالمہ کی بھی نکالی جانی چاہئے۔ حال ہی میں مسلمانوں کے نمائندوں کی حیثیت جن صاحبان نے مودی سے ملاقات کی تھی وہ ملی مسائل کی نمائندگی سے قطعا ً بے پروا اورقاصررہے۔

جمعیۃ علماء ہند اگرچہ براہ راست انتخابات میں حصہ نہیں لیتی، مگرانتخابی سیاست میں اپنا کرداراداکرتی رہی ہے۔ اس کے کئی رہنما رکن پارلیمنٹ رہے ہیں۔ اس کی تاریخ کو موٹے طور پر دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پہلا حصہ آزادی سے پہلے کا جس میں جمعیۃ کے اکابرین اورکارکنان نے قومیت کے جذبہ سے سرشار ہوکرقربانیاں دیں۔ تحریک آزادی میں اہم کردارادا کیا اورمتحدہ قومیت کے نظریہ کی اپنے قول اورفعل سے پرزورپیروی کی۔ یہ نظریہ کو اس وقت سخت کمزور ہوگیا جب گاندھی ، پٹیل، کے ایم منشی، راجندرپرسادوغیرہ پر مشتمل کانگریس کی ہندواحیاء پرست قیادت نے متحدہ قومیت کے نظریہ کو تلانجلی دیدی اوردوقومی نظریہ کی بنیاد پر ملک کے حصے بخرے کرنے میں فریق بن گئی۔ہم اس کالم میں یہ بات پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ یہ ناعاقبت اندیش فیصلہ ، جس نے زمین کے راستہ ملک کو وسط ایشیا اور مغربی دنیا سے کاٹ دیا، محض مسلم مخالف عصبیت سے متاثرہوکرکیا گیا تھا، جس کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ ملک کی مسلم آبادی تقسیم ہوجائے اوراس بہانے کہ مسلمانوں کو ان کا گھرمل گیا ہے باقی ہندستان میں ہندوقوم پرستانہ پالیسیوں پر عمل کیا جاسکے، بھلے ہی عالمی برادری کی نظروں میں نسل پرستی کے الزام سے بچے رہنے کے لئے سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ لیا جائے۔ غورکیجئے، ہماراآئین ہی سیکولر ہے یا ہماری سرکاروں کا رویہ بھی مذہب کے بنیاد پر غیرمتعصبانہ رہا ہے؟ اگرہندستان کی تاریخ کا جائزہ لیں، تو اچھے برے جیسی بھی ہیں،بس جمعیۃ علماء ہند سے وابستہ یہی مٹھی بھر لوگ ہیں جو متحدہ قومیت کے نظریہ پرمستقلا اصولا اورعملا پابند عہد ہیں۔

دوسرادورآزادی کے بعد کاہے۔ تقسیم وطن کے وقت اس خطے کے مسلمانوں کے قدم پوری طرح اکھڑ گئے تھے۔ لیکن مولاناآزاد، مولانا حفظ الرحمٰن ،مولانا حسین احمد، مولانا محمد میاں ، مولانا حفظ الکبیر وغیرہ کی قیادت میں میرمشتاق احمد، سراج پراچہ، حکیم سید حسین، قاضی محمد حسین جیسے بلند حوصلہ سینکڑوں کارکنوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کرمسلمانوں کی جماجمی میں کلیدی کردارادا کیا۔فسادات وغیرہ کے موقع پر اب بھی اس کے کارکن میدان کار میں اترتے ہیں۔ دہشت گردی کے الزام میں گرفتاربے قصوروں کی پیروی بھی خوب کی جارہی ہے۔ مظفرنگر فساد متاثرین کی بازآبادکاری میں بھی اس تنظیم نے کردارادا کیا ہے۔ ہزاروں مکتب ومدرسے خاموشی سے چلارہی ہے۔ مجھے جمعیۃ کی سرگرمیوں سے متعلق لٹریچر پڑھنے کااتفاق ہوا ہے۔ ان میں یہ بات اصرار کے ساتھ اورتکرار کے ساتھ دوہرائی گئی ہے کہ برادران وطن کی عظیم اکثریت غیر متعصب ہے۔ ہمیں ان کو ساتھ لیکراپنے مسائل کو حل کرنے اورسماج میں اصلاحات کی تدبیریں کرنی چاہیں۔ دس ، پندرہ سال قبل، جب مولانا اسعدصاحب حیات تھے پسماندہ طبقات کے ساتھ میل جول کی بھی ایک مہم چلی تھی، جو بعد میں نہ جانے کیوں ٹھنڈی پڑگئی۔ مدت سے اس تنظیم کا مطالبہ یہ بھی ہے حکومت کی ریزرویشن کی پالیسی سے مذہبی تحفظات کو ختم کیا جائے اور جو مراعات سماجی اور پیشہ ورانہ بنیادوں پرخاص ہندوؤں کے لئے مخصوص کردی گئی ہیں، بلاشرط مذہب وعقیدہ تمام متوازی طبقوں کو فراہم کی جائیں۔ میرے خیال سے رزرویشن کے اس پہلو کو قومی میڈیا میں اجاگرکرنے کی ضرورت ہے۔جمعیۃ انسداد فساد قانون ، تحفظ اوقاف اورپرسنل لاء سے متعلق تنازعات کے حل کے لئے قاضی ایکٹ کی بھی پیروی کرتی رہی ہے۔قومی آہنگی کا فروغ اس کا ہم موضوع ہے۔

جمعیۃ مختلف مواقع پر اہم قومی امورکے علاوہ عالمی مسائل پر بھی اپنی رائے کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ میں دو اہم مسائل کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔ ابھی حال میں دوسنگین خبریں آئی ہیں۔ ایک تو چین کے زیرقبضہ مسلم اکثریتی خطہ شنجاک (ترکستان شرقیہ) میں اسلامی مراسم نماز وغیرہ کی ادائیگی پر مزید پابندیا ں اور اصل چین میں مسلم اقلیت کے مسائل ہیں۔ دوسرے میانمار کے مصیبت زدہ روہنگیا مسلمانوں کے معاملات ہیں جن کو شہری حقوق سے محروم کردیا گیا۔ اس وقت جب کہ میں یہ سطورلکھ رہا ہوں کشتیوں میں سوار ہزاروں روہنگیا مسلمان آسرے کی تلاش میں سمندر میں بھٹک رہے ہیں۔ ان میں بہت سے موت کی کگار پر ہیں ۔ کچھ انڈینیشیا کے مختلف جزائر میں پڑے ہیں اوران کی سدھ لینے والا کوئی نہیں۔ عالمی سطح پران کی آواز اٹھائی جانی چاہئے۔ عموما ہمارے جلسوں اور تبصروں میں جب عالمی سطح پر مسلم معاملات کا ذکرآتا ہے تو بات لے دے کر عالم عرب تک رہ جاتی ہے۔ اسی طرح کے مسائل بعض افریقی ممالک میں بھی مسلم اقوام کودرپیش ہیں۔ یہ بات قابل غورہے کہ جب ہندستان میں عیسائی اقلیت ہندو فرقہ پرستوں کی زد میں آئی توپوری دنیا میں آواز اٹھی۔ وہ آواز بے اثر بھی نہیں رہی۔ مودی صاحب کو عیسائیوں کے جلسے میں جاکر مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرانی پڑی۔ مرکزی وزیرداخلہ نے دہلی کے پولیس کمشنر کو طلب کرکے گرجا گھروں پر حملوں کے معاملے میں تنبیہ کی۔ لیکن کوئی بھی مسلم ملک ، جن کے لئے فطری طورسے ہم مضطرب رہتے ہیں، اتنی جرأت نہیں کرتا کہ مسلم اقلیتوں کے مسائل پر توجہ دے۔ البتہ گزشتہ سال رابطہ عالم اسلامی نے مکہ مکرمہ میں ایک تین روزہ عالمی کانفرنس خاص اسی موضوع پر کی تھی جس میں دنیا بھر کی مسلم اقلیتوں پر چنندہ دانشوروں نے مقالے پیش کئے۔ ایسی ہی کانفرنسیں اس ادارے نے اس سال شنگھائی، کمبوڈیا اور جاپان میں بھی اس موضوع پر کانفرنسیں کی ہیں۔ یہ آواز علاقائی کانفرنسوں اورعالمی پلیٹ فارمس پر بھی مناسب طریقے سے اٹھائی جانی چاہیں۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163455 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.