مودی سرکار کا ایک سال ہندوراشٹر کی جانب مراجعت

ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
26مئی کو موجودہ حکومت کی تشکیل کو ایک سال مکمل ہوجائے گا۔ اخبارات، ریڈیو، ٹی وی ، انٹرنیٹ ہر جگہ اس وقت یہ مباحثہ جاری ہے کہ گزشتہ ایک سال میں مودی سرکار کی کارکردگی کیسی رہی، مختلف زاویوں سے مودی سرکار کی کارکردگی کو ناپا جارہا ہے۔ لیکن اگر مجموعی طور پر اس سرکار کا جائزہ لینے کو کہا جائے اور ایک جملے میں مودی سرکارکی ایک سال کی کارکردگی کے بارے پوچھا جائے تو میں کہوں گا کہ یوپی اے سرکار اور این ڈی اے سرکار میں عملاً کوئی بھی فرق نہیں ہے ۔ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور بس۔

ہر وہ معاملہ جس پر نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران یوپی اے کو مرکز تنقید بنایا تھا اس پر وزیر اعظم نے نہ صرف اس پوری پالیسی کو جاری رکھا بلکہ اسے مزید سخت کردیا۔ انتخابات سے عین قبل سب سے بڑا گھو ٹالہ کوئلے کا گھوٹالہ تھا ۔ نریندرمودی کا وعدہ تھا کہ وہ سرکار بناتے ہی اس کے مجرمین کو طشت از بام کر کے کیفر کردار تک پہنچا دیں گے۔ لیکن ایک سال میں کچھ فیصلے عدالتوں نے اپنے طور تو کئے مگر سرکار خامو ش ہی رہی۔ یہاں میں یہ ذکر کرتا چلوں کہ میں بی جے پی یا این ڈی اے کے بجائے بار بار نریندر مودی کا لفظ اس لئے استعمال کررہا ہوں کہ 2014لوک سبھا انتخابات مکمل طور پر نریندر مودی کی شخصیت پر لڑا گیا تھا اس میں پارٹی کا کوئی ذکر نہیں اور این ڈی اے کا تو کوسوں دور تک کوئی ذکر نہیں تھا ۔ پارٹی کے تمام سینئر لیڈروں کو حاشیئے پر کھڑا کردیا گیا تھا اور ہزاروں کروڑ روپے خرچ کر کے میڈیا میں بس کی ایک ہی قد کو نمایاں کیا جاتا رہا ۔خود نریندر مودی بھی اپنی انتخابی تقریروں میں اپنی ہی شخصیت کا تذکرہ کرتے رہے اور سارے وعدے بھی انہوں نے انفرادی سطح پر کئے تھے ۔ انہوں نے خود اپنے لئے 60سال کے مقابلے 60مہینے کا مطالبہ عوام سے کیا تھا ۔ نوجوانوں کو روزگار مہیا کرانے کا وعدہ ،کالے دھن کی 100دنوں میں واپسی کا وعدہ ، عام ضروریات زندگی کے داموں میں 100دن کے اندر کمی کرنے کا وعدے وغیرہ سب ذاتی طور پر کئے گئے تھے۔ اس لئے ذمے داری بھی اب انہیں ذاتی طور ہی لینا چاہئے ۔

نریندر مودی پچھلے ایک سال میںاپنے ہی دائیں بائیں رہنے والے لوگوں کو ان کی صلاحیتوں اور قد کی پرواہ کئے بغیر پرموٹ کرتے رہے ہیں ۔ مثلاً خود وزیر اعظم بن جانے کے بعد اگلے 100کے اندر جو سب سے بڑاکام انہوں نے کیا وہ تھا اپنے سب سے بڑے معتمد خاص امت شاہ کو پارٹی صدر بنانا۔ حالانکہ پارٹی میں امت شاہ کا قد کبھی اتنا بلند نہیں تھا کہ انہیں پارٹی کا قومی صدر بنادیا جاتا۔ ان پر گجرات فسادات سمیت دوسرے کئی فوجداری معاملات میں مقدمے بھی درج تھے ۔ مگر ان کی ہر خطا سے در گزر اور ان کے سیاسی قد کی انتہائی پستی کے باوجود محض نریندر مودی سے قربت کو سب سے بڑی لیاقت سمجھا گیا اور پارٹی کی صدارت ان کو تفویض کر کے پارٹی اور سرکار دونوں جگہ نریندر مودی نے خود کو مطلق العنان بنالیا۔ ارون جیٹلی سرکار میں دوسرے نمبر پر قرار پائے اور حیرت تو اس وقت ہوئی جب اسمرتی ایرانی جیسی کم علم اور سیاسی بے وزنی کا شکار لوک سبھا انتخاب ہار جانے والی خاتون کو ملک کی اہم ترین وزارت انسانی بہبود تفویض کردی گئی جس کے تحت وزات تعلیم کا شعبہبھی آتا ہے ۔ 125کروڑ ہندوستانیوں کو یکساں طور پر برابری کے حقوق کے ساتھ ایک ہو کر جینے کا وعدہ کرنے والے نریندر مودی نے انتخاب جیتنے کے اگلے ہی دن ان حضرات کی عزت افزائی کی جو ملک کی سب سے بڑی غیر ہندو مذہبی اکائی یعنی مسلمانوں (میں جان بوجھ کر لفظ اقلیت استعمال نہیں کرنا چاہتا) کو پاکستان بھیجنے کے عزم کا بر ملا اظہا ر کرچکے تھے ۔ اور کچھ دیگر حضرات اپنی انتخابی مہم میں مسلسل مذہبی منافرت آمیز بیانات دے کر ووٹوں کو مذہبی خطوط پر یکجا کررہے تھے حتی کہ مظفر نگر فساد ات کے نامز د مجرمین بھی ان اعزازات سے سرفراز کئے گئے ۔ ایسے میں 60مہینے کا مطالبہ کرنے والے نریند ر مودی کی نیت وزارت سازی کرتے ہی واضح ہوگئی تھی کہ اب کی بار مودی سرکار کی سمت سفر کیا ہوگی۔ (پوت کے پاؤں پالنے میں ) سمت سفرواضح ہوجانے کے بعد ملک کا مسلمان صبرکر بھی لیتا کہ مسلمانانِ ہند کے لئے یہ کوئی نہیں بات نہیں کہ مسلم دشمنی پر مبنی کام کرنے والے حضرات کو ملک کی مرکزی اور ریاستی سرکاریں اکثر نوازتی ہی رہی ہیں۔ خو د کا نگریس نے ایسے حضرات کو باربارنوازنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔ ممبئی فسادات کے قاتل ہوں یا شیو سینا کے سابق لیڈر، مرادآبادفسادات کے مجرمین اور خود بابری مسجد کے مجرمین کو بہرحال کانگریس نے بھی خوب نوزا ۔

نوازشوں کے اس مقابلے میں دوسری سیکولر پارٹیاں بھی پیچھے نہیں رہیں جس کو جب موقع ملا اس نے تب مسلم دشمن افراد کو بھر پور نوازا مثلاً مودی سرکار کے چہیتے ایم پی اور انتہائی سخت گیر مسلم دشمن بیانات کے لئے مشہور ”ساکشی مہاراج “کو پہلی بار راجیہ سبھا میں لانے کا کام سماجوادی پارٹی نے اس وقت کیا تھا جب ساکشی مہاراج شہید بابری مسجد کے ملبے کی اینٹیں اٹھا کر لائے تھے اور اعلان کیا تھا کہ وہ ان اینٹوں کو اپنے بیت الخلاءمیں لگائیں گے۔ اور ان تمام حرکتوں کے عوض سما جوادی پارٹی نے انہیں راجیہ سبھا کی رکنیت عطا کردی تھی ۔ اگر سبھی سیکولر پارٹیاں مسلم دشمن مزاج رکھنے والے حضرات کو نوازتی رہی ہیں اور اس مزاج کی آبیاری میں ملک کی کسی بھی سیاسی پارٹی کو کوئی عار نہیں محسوس ہوتا تو پھر نریند ر مودی کس بات تکلف کرتے ۔ اس سلسلے کو انہوں نے بھی جاری رکھا اسی لئے نریندر مودی سے یہ شکایت عبث ہے کہ انہوں نے مسلم دشمن سخت گیر عناصر کو کیوں نوازا۔ ان سے سوال تو اصل یہ ہے کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کو تو خیر جانے دیجئے ۔ عمومی طور پر ملک کی فلاح و بہبود کے لئے انہوں نے ایسا کیا کردیا جس سے ملک کا عام آدمی کوئی راحت محسوس کرسکے۔

ملک میں بالکل نچلی سطح پر جاری کرپشن اور رشوت ستانی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ پولس تھانہ ، کچہری اور سرکاری بابوؤں کی دس روپے سے لے کر ہزار وںکروڑ روپے کی رشوت، کمیشن اور گھپلے بازی کا سلسلہ جوں کا توں برقرار ہے ۔ عام آدمی کو اپنے جائز کام کے لئے بھی رشوت دیئے بغیر کوئی راحت پہلے بھی نہیں ملتی تھی اب نریندر مودی جیسے مطلقالعنان ، مبینہ طور پر شریف ایماندار اور روپے پیسے کے لالچ سے دور فرماں روا کے زمانے میں بھی ذرہ برابر لگام نہیں لگی ۔ اس کے خلاف کوئی نیا قانون بھی نہیں لایا گیا کسی پرانے قانون میں بھی کوئی ترمیم نہیں کی گئی کسی رشوت خور افسر کو گرفتاربھی نہیں کیا گیا بھارت ماتا کے ہونہار سپوت بھارت ماتا کے ہی اپنے بھائیوں کو دونوں ہاتھوں سے اسی طرح لوٹ رہے ہیں جیسے پہلے لوٹتے تھے اور کیوں نہ ہو آخر کار 800سال کے بعد پہلی بار ہندوو ¿ں کی سرکار جو بنی ہے۔

ملک میں کھانے پینے کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس میں ملاوٹ نہ ہوتی ہو حتیٰ کہ ہوا تک مسموم ہے۔ ہر ہندوستانی اس ملاوٹ اور فضائی آلودگی کی وجہ سے کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہے مگر مجال ہے کہ نریندر مودی سمیت ان کی سرکار کے کسی وزیر یا پارٹی کے کسی عہدیدارنے اس سلسلے میں ایک لفظ بھی کہا ہو۔گویا ہر ہندوستانی مجبور ہے کہ غذا کے نام پرا سی زہر آلود اناج ، سبزی، دال، پھل حتی کہ پانی کو استعمال کرتا رہے اور ور افسران اپنی کالی کمائی کا ایک حصہ سرکار کے وزیر وں اور افسروں اور پارٹی کے عہدیداران کوچندہ دے کر اپنے گناہ دھوتے رہیں۔ اس پر بھی صبر نہ آئے تو گنگا میں ایک ڈبکی لگا کر یا کسی مہاراج ، سادھو، رشی یا منی کو ایک خطیر چڑھا وا پیش کر کے اپنے گناہوں سے نجات حاصل کرلےں۔ ہاں البتہ حکومت اگر کچھ کرے گی تو ان مرتے ہوئے عوام کی راحت رسانی کے لئے صحت بیمہ اسکیم لے آئے گی اور اس کا ٹھیکہ کسی غیر ملک کمپنی کے حوالے کر کے غیر ملکی آقابھی خوش ہوجائیں اور غریب عام کی جیب سے مزید کچھ پیسہ نکالنے کو موقع مل جائے گا۔

کسان کی زمین کسان کے لئے ہندوراشٹر میں دھرتی ماں کی حیثیت رکھتی ہے اب اس نئے نئے آزادشدہ ہندوستان میں اس سے جبراً یہ دھرتی ماں چھین لی جائے گی اورمعاوضہ بھی اونے پونے دیا جائے گا۔پھر یہ زمین کسی کارپوریٹ گھرانے کو بیحد سستے میں دی جائے گی تاکہ یہ گھرانے اس زرخیز زمین پر انڈسٹری لگا کے بے تحاشہ منافع کما سکے اور اس طرح انتخاب کے لئے دیا گیا ہزاروں کروڑ روپے کا چندہ سود سمیت وصول کیا جاسکے ۔

کہا جارہا ہے کہ نریندر مودی کی سرکار میں خارجہ پالیسی پر سب سے زیادہ کام ہورہا ہے ۔ ملک کی وزیر خارجہ سشما سوراج ہیں اور ان کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ بہر حال نریندر مودی کے خیمے سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ بی جے پی کے سب سے بڑے معتوب لیڈر لال کرشن اڈوانیکی منظور نظر ہیں چنانچہ وزیر خارجہ ہونے کے باوجود خارجہ پالیسی پر ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور ساری پالیسی محض نریندر مودی کے ارد گرد گھومتی ہے اوراس قدر گھومتی ہے کہ وزیر اعظم ملک میں کم ہی ٹک پاتے ہیں زیادہ تر کسی نہ کسی غیر ملکی دورے پر رہتے ہیں اور وزیر خارجہ اپنے گھر۔ حکومت سازی کے پہلے ہی دن حلف برداری کے تقریب روز ہی خارجہ پالیسی کے خدوخال واضح ہونے شروع ہوگئے تھے۔ اور اگلے ہی ہفتے سے وزیر اعظم کے غیرملکی دورے بھی نیپال ، بھوٹان، جاپان، ویتنام، میانمار، تھائی لینڈ وغیرہ وغیرہ ایسا محسوس ہوا کہ وزیر اعظم اکھنڈ ہندو راشٹر بنانے کے بجائے اکھنڈ ہندو۔بودھ راشٹر بنانے کی فکر میں زیادہ سرگرداں ہیں اور اس جنون میں جاپان کی بوڈھسٹ سرزمین پر کھڑے ہوکر چین کے خلاف انہوں نے جو کچھ کہا اس نے ملک میں چین کے بے تحاشہ مضبوط بازار کو ایک دم کمزور کر کے چین کے کان کھڑے کردیئے۔ حال ہی میں مسلم پولیٹیکل کاو ¿نسل کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں جنتا دل یو کے جنرل سیکریٹری کے سی تیاگی نے خارجہ پالیسی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنوبی ایشیاکے سمندروں میں اور خلیج بنگال میں امریکی بحری بیڑوں کی رسائی بہم پہنچانے کے لئے ہندوستانی خارجہ پالیسی میں یہ تبدیلیاں لائی گئی ہیں ۔ دوسری جانب مغربی ایشیاکے حالیہ بحران میں امریکی حلیفکی حیثیت سے ہندوستان کو ایک موثرفریق بنانے کی کوشش بھی جارہی ہے اس طرح ایک غیر جانبدار ملک کو اپنے ہی قریب ترین پڑوسیوں کا مخالف بنا کر ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو دوستانہ بنانے کے بجائے معاندانہ رخ دیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیلی وزیر دفاع کا ہندوستانی دورہ بھی کم اہم نہیں ہے ۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی اسرائیل کے کسی بھی وزیر کا یہ پہلا دورہ تھا جس نے پہلی بار برملا اس امر کا اظہار کیا کہ ہند۔ اسرائیل تعلقات ایک لمبے عرصے سے خفیہ طور پر قائم تھے مگر نریندر مودی کی سرکار بن جانے کے بعد ان تعلقات کو خفیہ رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی ۔ اہل نظر کے لئے اس کا مطلب بہت واضح ہے ۔گو یا خارجہ پالیسی کی سطح پر اب ہم ان طاقتوں کے دوست ۔ حلیف اور معاون ہوں گے جو ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کے دشمن ہیں اور ہر سطح پر اسلام کو مٹانے کے در پے ہیں۔

چار سال ابھی باقی ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں نریندر مودی نے جس نیت کا اظہار کیا ہے ۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یہ چار سال کا فی ہوں گے اور اگر کم پڑے تو 2019میں ایک بار پھر کانگریس اپنے قدم اسی طرح پیچھے ہٹائے گی جس طرح 2014میں ہٹائے تھے تاکہ رہی سہی کسر پوری کرنے کا موقع نریندر مودی کو مل جائے اور کانگریس پر بھی کوئی الزام نہ آئے ۔ خارجہ پالیسی میں بہت ہی دور اندیشی پر مبنی ہے ۔ ہندو اور بودھ کی مشترکہ آبادی دنیا میں دوسرے نمبر کی سب بڑی آبادی ہے ۔ جو مسلمانوں کی مجموعی تعداد سے کہیں زیادہ ہے چنانچہ ہندو بودھ بھائی بھائی والا ایک بلاک اس خطے میں قائم کر کے جنوبی ایشیا مغربی ایشیا پر حاوی ہوہی جائے گا اور اکھنڈ ہندو بودھ بھارتی خطے کا قیام بھی عمل میں آجائے گا ۔ اور امریکہ و اسرائیل کی مراد بھی پوری ہوجائے گی ۔ (چین کا کوئی ذکر نہیں ہے)۔مہنگائی کی مار ،گھوٹالوں کا زور، رشوت کا گرم بازار، کسانوں کی بدحالی، مزدوروں کی بے چینی ان سب معاملات سے کسی سرکار کو پہلے بھی کوئی غرض نہیں تھی اور اب بھی نہیں ہے۔عوامی مفادات سے زیادہ سیاستدانوں کے مفادات کو اولیت ہمیشہ سے حاصل رہی ہے اور اب بھی ہے دوسرا مسئلہ ملک کو قانونی طور پر ہندوراشٹر بنانے کا ہے سو اگر کوئی کسر بچے تو دستور میں ترمیم کرنے کے لئے ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں سے ہندوتوا کے نام مول بھاو ¿ کر کے وہ بھی کیا جاسکتا ہے ہے ۔ بہرحال بنگال میں ممتا دیدی نے حال ہی میں اس کے اشارے دے دیئے ہیں ۔ جے للتا، ملائم سنگھ یادو جیسے لوگ پہلے ہی اس کے اشارے دے چکے ہیں ۔ نریندر مودی کی مطلقالعنان قیادت میں نئے ہندوستان کی تعمیر کی جانب گامز ن ہندوستانیوں کو 800سال بعدبننے والی پہلی ہندو سرکار کا ایک سال مبارک ہو۔
Safi Rahman
About the Author: Safi Rahman Read More Articles by Safi Rahman: 15 Articles with 8571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.