عورت کا بنیادی کردار

اسلامی تعلیمات اور قرآن وحدیث کی تصریحات واشارات سے تو یہی معلوم ہوتاہے کہ عورت کی خلقت کا’’ معاشرتی’’ مقصد یہ ہے کہ وہ مرد کی وہ ضرورت پوری کرے جس سے اسکی اپنی ضرورت کی بھی تکمیل ہوتی ہے اور اسمیں مطلوب حد یہ ہے کہ دونوں عفت کی زندگی گذاریں ، کسی بھی ذہنی ،سماجی نفسیاتی کنفیوژن سے بچیں اور راحت وطمانیت ،خوشی وشادمانی اپنے تمام معانی کے ساتھ انہیں حاصل ہو ۔

یہ کسی خاتون کی شخصی زندگی بھی ہے اور ازدواجی بھی ،ذاتی بھی خانگی بھی ، اس کا ایک لازمی حصہ یہ بھی ہے کہ وہ توالد وتناسل کی بشری ذمہ داری اورطبعی خواہش کی بھی تکمیل کرے ، اس عمل کو رغبت ،دانشمندی ،انبساط اور اعتماد کے ساتھ اختیار کرے اور شجروثمر کی پرورش ونگہداشت کی ایسی مثال قائم کرنے کی کوشش کرے ، جس سے سوسائٹی میں اس کا ایک مقدس امیج بنے ، نسل انسانی کی افزائش وفہمائش کے نئے قرینے اور مثالی نمونے دیکھنے کو ملیں ۔

اگر کوئی عورت بہترین شریک حیات اور کامیاب ماں ثابت ہوتی ہے اور توحید ،نماز، روزے کےاہتمام کے بعد اس کا اسکے علاوہ کوئی کردار نہیں ہے تو دین الہی اور عقل انسانی کی رو سے وہ ایک قابل ستائش ہستی ہے، بصورت دیگر اسکی بے پناہ انتظامی صلاحیتوں ،تخلیقی کارناموں اور دیگر محیر العقول صلاحیتوں کو اسکی اضافی خوبیوں کی فہرست میں ضرور جگہ ملے گی مگر یہ ساری خوبیاں اسکی اصلی اور خلقی ضروت کا بدل ہرگز نہیں ہوسکتیں ۔

عورت کی ازدواجی اور مادری حیثیت کا تمسخر اڑانے والے حتی کہ اسکو ثانوی مرتبہ دینے والے بھی اسکی حقیقی عزت وعظمت کو مجروح کرتے ہیں ،اس ذہنیت کے حامل عناصر فطرت انسانی اور حکمت خداوندی سے بغاوت کرتے ہیں ،جس کی کوکھ سے پھر طرح طرح کی معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں اور عورت اپنی تسکین وتفریح کی ضرورت اوچھی اور نازیبا دھندوں سے پوری کرنے پر مجبور ہوسکتی ہے یا دوسرے اسے اپنی زندگی میں اور اپنے خاص ماحول میں غیر ضروری عنصر سمجھ کر اس کو بے وقعت اور اذیت کا نشانہ بنا سکتے ہیں اور اسکی مصنوعی ترقی، نام نہاد تہذیب اور بے عنوان وبے ہنگم آزادی بھی اسے بے وقعتی اور بے حرمتی کی اتھاہ گہرائی میں جاپہنچاتی ہے ،ہاں اعلی درجے کی سلجھی ہوئی، بلند اخلاقی تربیت سے مالامال خاتون کی ازدواجی اور مادری زندگی کی سوچ ایسی پاکیزہ اور بلند پایہ ہوسکتی ہے کہ اس کی بدولت وہ محض پیدائش وافزئش کی مشین نہیں لگتی بلکہ اپنی تابندہ ودر خشندہ سرگرمیوں ،اعلی وارفع طرز عمل کی بدولت وہ ایک ایسے معمار کا روپ دھار لیتی ہے جسکی کاریگری خود اس کے لازوال رول کا اشتہار اور افتخار بنتی ہے ،اور یہیں سے اس کے ایک اجتماعی کردار کی بنیاد پڑتی ہے جس کا دائرۂ اثر اسکی قابلیت اور قبولیت کے حساب سے کم یا زیادہ ہوسکتاہے اوروہ پھر اس کے ثمرات اپنی ذھانت و رغبت ،اوراوقات واحوال کے مطابق کشیدکرسکتی ہے ، دینی تعلیم کی حامل اور فاضل عورت کا یہ بھی ایک قابل ذکر ولائق اعتبار کردارہے کہ وہ اچھی بیوی اور بہترین ماں بنے ،تاہم بہتری سے مراد یہ ہے کہ افراد خانہ کی سیرت وکردار پر بہتر اور انمٹ اثرات ڈالے اور حسب فراغت واستطاعت اپنی تعمیر ی سوچ اور فلاحی جدوجہد کا دائرہ وسیع کرے، دیگر خواتین کو ان کے فرائض کی طرف راغب کرنا ان میں اخلاقی اور دینی اقدار کو فروغ دینا اور مثالی معاشرے کی تشکیل میں ممکنہ کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنا بھی ایک آئڈئیل کردار ہے۔سوسائٹی کیلئے ایسی گھر یلو خاتون کی جزوقتی اور ثانوی درجے کی جدوجہد کی افادیت میں کوئی شک نہیں کرسکتا ، اس ے کافی فائدوں کی توقع ہے ،اور کافی مسائل حل ہونے کی امید ہے ۔

دینی مدرسے کی ایک طالبہ نے اگربہت محنت کی اور زمانہ طالب علمی میں بے شمار اعزازات ،تعریفات اور نوازشات سمیٹیں مگر رشتہ ازدواج سے منسلک ہوکر اگر اس نے شریک حیات کو ایک مناسب رفیقۂ حیات فراہم کی اور پھر بچے پیدا کرکے ان کو پالنے میں لگ گئی ،اس طالبہ کو غلط کوئی نہیں کہے گا ، اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، اگر اس نے اپنی تعلیمی سرگرمی مزید آگے بڑھانے ہے،تو اس کے کچھ آداب ہیں:
(1) گھر والوں کو اعتماد میں لیکر قائل کرلیں اور ان کی مدد وتعاون سے آگے بڑھیں۔ (2)خود تعلیم گاہوں یا تربیتی مراکز سے رابطہ استوار کرنے میں حجاب ،آداب اوراحتیاط کو لازمی طور پر ملحوظ رکھے ۔ (3) جو تعلیم اس کے مقاصد کیلئے ضروری ہو وہی حاصل کرے شوقیہ برائے نام اور نام نمود کیلئےتعلیم زہر قاتل ہے یاکم ازکم ضیاع وقت ومال ہے یا پھر احساس تفاخر یا احساس کمتری کا سبب۔ (4)مشرقی لڑکی کےلئے سب سے اہم مرحلہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونا ہے،مسلمان عورت کو اس میں صبر اور استقامت اور خوب سوچ بچار کے بعد ایسی جگہ کو ترجیح دینی چاہیئے جو تعلیم ،تربیت دعوت وغیرہ کا جو بھی میدان آپ نے منتخب کیاہے اس میں ممد ومعاون ہو، یا آپ کسی مشنری شخص کی مددگار بنیں یا کوئی سلجھا ہواآدمی آپ کے لئے ایک طرح کا سہولت کار بنے ۔ (5) رشتۂ ازدواج میں بھی نباہ مقصود ہو،اسے اپنا نصب العین بنایا جائے۔

آج کی ایک فاضل عالمہ کیلئے فنِ تحریر،اور تصنیف تالیف سے وابستگی بہت ضروری ہے کہ عورت کیلئے سب سے بہتر راستہ اسلامی تعلیمات کے فروغ کا قلمی جہادہے ،مختلف کتب ،جرائد ومجلات کے مطالعہ سے کام کی نئی جہتیں سامنے آئیں گی ،اور ان کے نہج پر کام کا مزاج وانداز آئے گا۔ اور پھر علی وجہ البصیرت جو بھی قدم اٹھے گا ، وہ کارآمد ہوگا۔ گھرکے کسی اہم فرد جو آ پ کو مناسب مشورہ دے سکے ، صحیح رہنمائی کرسکے ۔ اپنے امور اور سرگرمیوں میں ان سے ہمیشہ رجوع کرکے رہنمائی لیاکریں ۔ بہتر مشیر اور مناسب ماحول ہی سے خیر کی توقع ہے ۔

دینی مدرسے کی فاضلات عزم وہمت اور خلوص نیت کے ساتھ قرآن کی تلاوت ، مسنون اعمال ، دینی شخصیات کی سیرت کامطالعہ لازمی طور پر کریں ۔ سلف صالحین کا اسوہ ٔحسنہ کامیابی کی کلیداور بلندی کا زینہ ہے۔

فضول تعلقات اور ضیاع ِوقت کا سبب بننے والی ملاقاتوں اور نشستوں سےگریز کریں ،ہمارے دینی طلبہ کو ضیاع وقت اور بے معنی گپ شپ جیسے گناہ بے لذت سے بچنے کی بالکل فکر نہیں ہوتی۔حالانکہ یہ زہر قاتل سے کم نہیں۔

مراقبہ اور محاسبہ کاعمل روزانہ کرنا چاہیئے اگرچہ مختصر وقت کیلئے ہو ، کہ اپنے احتساب کے بغیر کسی بھی لائین میں خوبیوں کا تسلسل اور خامیوں کا ازالہ ناممکن ہے۔

نوافل ، تلاوت ، ادعیہ اور ذکر اذکار سے برکت آتی ہے ،اور علمی کام کیلئے گھر کی مصروفیات کو دیکھ کر ایک نظام الاوقات بنایا جائےاو رمقدار متعین کرکے خود کو اس کا پابند بنائیں ، کام میں تسلسل اور استقلال کی برکت مسلم ہے ۔

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ کی سیرت ،سیر الصحابیات ،خواتین اسلام پر لکھی گئی مستند کتابیں پڑھیں ، العلمأ العزاب ، الرسول المعلم(شیخ عبد الفتاح ابو غدہ) ،العبقریات (عقاد)نسأ من التاریخ(خلیل جمعہ) ، رجال من التاریخ،ذکریات(علی طنطاوی) ، صفحات من صبر العلمأ (ابوغدہ)،المسلمون فی الھند،ماذاخسر العالم بانحطاط المسلمین،تاریخ دعوت وعزیمت(علی ندوی) ،لاتیأس ،لاتحزن (عائض القرنی)، اسعد فتاۃ فی العالم ،استمتع بحیاتک(عریفی) تحفۃ العلمأ(تھانوی) ، جیسی کتابیں پڑھیں ، عربی میں پختگی کے لئے الجزیرہ یا العربیہ روزانہ ایک گھنٹہ دیکھا کریں۔

مرد کی طرح عورت کی بھی ان سے سیرت وشخصیت بنتی ہے ، اس کی گفتگو میں شستگی، جستجو میں پختگی اور برتاؤ میں شائستگی آتی ہے اور وہ کوئی بھی سماجی کردار اپنے محدود دائرے میں رہ کر ادا کرسکتی ہے ، انسانی تاریخ میں اس کی بہت ساری مثالیں ہیں

عظیم شخصیات کے قافلے اور وقیع کتب کےمیلے سے جڑے رہنے میں خیر ہے ، اور خیرکے ان ہر دو سلسلوں سے وابستگی باعث خیرہے مگرکتاب کی تو بات ہی کچھ اور ہے کہ اسکی ہم نشینی میں آ پ کو کبھی کوئی تکلف ہوگا ،تکلیف ہوگی،نہ ادنی مشکل ۔ (جامعہ جویریہ للبنات کراچی میں ختم بخاری کے موقع پر پیش معروضات)۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 816481 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More