پاکستان بطور ٹول پلازہ

دور حاضر میں ہرملک کا طرز فکراور طرز معیشت تبدیل ہوچکا ہے یا پھرتیزی سے تبدیلی کی طرف گامزن ہے اقدار، تہذیب و ثقافت سے قطع نظر ہر کوئی اپنے تئیں معاشی طور پرمضبوط اور خوش حال ہونا چاہتا ہے اس سے معاشرت میں کوئی بگاڑ یا تناؤ کا پیدا ہوجائے تو ان کیلئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔سب سے اہم مسئلہ امن و امان ، پرسکون ،محفوظ اور آزادانہ زندگی گزارنے کا حق ،کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی جارہی جس کا معاشرہ متقاضی ہے۔ سماجی طرز زندگی خواب و خیال ہوتی جارہی ہے سب کا ایک ہی فوکس ہے ایک ہی تکرار ہے کہ معیشت مضبوط ہو معیشت پھلے پھولے۔معیشت کا گھوڑاسرپٹ دوڑے اور اس دوڑ میں اگر ایک فرد، چندافراد حتی کہ ملک بھی متاثر ہوتا ہے تو بلا سے ہوجائے۔ بنظر غایت دیکھا جائے تو یہ خواہش ،مطالبہ اور نظریہ بے جا بھی نہیں ہے چونکہ جب معیشت ہی شناخت بن چکی ہو کسوٹی کا معیار معیشت کے اتار چڑھاؤ سے بڑھتا اور کم ہوتا ہوتو پھر فہم و فراست اور عقل و دانش بھی یہی تقاضا کرتی ہے اسی رنگ میں رنگ لیا جائے اسی رو میں بہہ کر اپنی منزل مقصود تک پہنچا جائے

مگر! وطن عزیز کی صورت حال کچھ بلکہ بہت حد تک دگرگوں ہے 60 کی دہائی ایوب خان کادور تھا اس دور میں بجلی پیدا کرنے کیلئے ڈیم بنائے گئے۔زمینوں اور کھیتوں کو سیراب کرنے اور زراعت کو عروج دینے کیلئے نہریں بنائی گئیں۔پل بنائے گئے۔اعلی تعلیم کو عام کرنے کیلئے کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی گئیں ۔آمدو رفت کے ذرائع بہتر اور تیز بنانے کیلئے سٹرکیں بچھائیں گئیں ،ٹرینیں چلائی گئیں ۔ایئرلائنز کی ترغیب پر بیش بہا کام ہوا۔معیشت کو بہتر بنانے کیلئے صنعتی یونٹس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لوگ خوش حال ہونے لگے وہ دور پاکستان کی ترقی کا سب سے بہتر اور قابل تذکرہ دور تھا۔اسکے بعد 70,60 کی دہائی صنعتی انقلاب کا دور تھا ہم صنعتیں نہ لگاسکے۔90,80 کی دہائی میں سرمایہ کاری عروج پر تھی جن ملکوں نے اس طرف توجہ دی بام عروج کو پہنچ گئے۔ ہم نے کوئی پیش رفت نہ کی ۔ نتیجہ ابھی تک بھیک مانگ رہے ہیں۔2010,2000 کی دہائی سروسز کے میدان اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور کو بھی ہم نے اندھیروں اور توانائی کے بحرانوں کی نذر کردیا۔یعنی ہم تین سنہری مواقع گنوا بیٹھے۔جب ہمیں صنعتیں لگانا اور لگوانا تھیں تو ہم حالت جنگ میں تھے اپنوں کی بداعمالیوں کا شکار تھے۔جب سرمایہ کاری کا دور تھا تو ہمارے حکمران و سیاستدان سیاست میں کود گئے۔یہ گندی اور گمراہ کن اندھیری گلی تھی جس نے ہمیں ترقی کی روشن راہ سے بھٹکاکر تنزلی کی گہری دلدل میں اتار دیا۔ بھٹو کی سیاست نے قومی پالیسی تبدیل کردی۔ امریکا اور اتحادی ہم سے روٹھ گئے۔ متبادل کی تلاش میں امریکا نے متحدہ عرب امارات، ایران ، انڈیا حتی کہ چائنا سے بھی دوستی کی پینگیں بڑھالیں۔ پاکستان کو باہر دھکیل دیا گیا۔دوبارہ موقع ملا تو افغان روس کی جنگ کا دور تھاایران انقلاب میں تھا ۔ چائنا اورانڈیا روس کے ساتھ تھے۔ لے دے کے پاکستان ہی تھاجو امریکا کی مدد کرسکتا تھا۔ اپنے قرضے معاف کرواسکتا تھا، سرمایہ کاری کا ایک سیل بے کراں ہوسکتا تھا جس کی وجہ سے پاکستان آج اس دوراہے پر کھڑا نہ ہوتا ۔لیکن ضیاء الحق کی پالیسیوں کی وجہ سے ہم نے یہ موقع بھی گنوادیابلکہ ملک میں بارود ،خون اور ہیروئن کی بو ہر سو محسوس ہونے لگی۔قدرت نے ہمیں ایک بار پھر موقع دیا۔دہشت گردی کے عفریت نے دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑا اور پاکستان بھی اس سے شدید متاثر ہوا۔امریکہ ،روس، چائنا، بھارت، ترکی، سعودی عرب،متحدہ عرب امارات حتی کہ ایران بھی اس سنگین مسئلے پر ایک پیج پر تھے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم خود بھی اس عفریت سے بچتے اور دنیا کو بھی اس حوالے سے اپنے تعاون کا یقین دلاتے لیکن اس مرتبہ بھی ہمارے سیاستدانوں کی نا اہلیوں کی بناپرہم نے پرویز مشرف کو باوردی صدر کی شکل میں دنیا کے سامنے لاکرکھڑا کردیا۔ پھرہم انڈسٹریل سٹیٹ بن سکے نہ اپنے قرضے معاف کرواسکے۔سرمایہ کاروں کو تحفظ کا یقین دلاسکے نہ ہی غربت کے ناسور کو ختم کرسکے۔

اب ہمیں پھر سے موقع ملا ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ شاید یہ آخری موقع ہو کیونکہ قدرت اتنی بار مواقع شاذو نادر ہی مہیا کرتی ہے کہ اپنی عقل فہم اور فراست سے اس حصول شدہ موقع کوavail کرکے اپنے لئے بارآور کراسکیں۔سینٹرل ایشیا، چین اور بھارت کے درمیان پاکستان واقع ہے میں جغرافیہ کا سٹوڈنٹ تو نہیں لیکن حاصل شدہ معلومات کی بناپر اس وقت پاکستان ان تینوں پاورفل قوتوں کے درمیان ٹول پلازہ کا کردار ادا کرے تو پاکستان کی معیشت کو چار چاند لگ سکتے ہیں۔سینٹرل ایشیا قدرتی وسائل کے مالا مال خطہ ہے ۔ تیل،گیس، معدنیات، پانی اور بجلی جیسے وسائل فروخت کرنا چاہتا ہے اس کے تین بڑے خریدادر امریکا چائنا اور انڈیا ہیں چنانچہ ان وسائل کی ترسیل کیلئے پائپ لائن بچھے یا پھر سڑکات بنیں ہم درمیان میں ہیں۔ چائنا اور انڈیا دنیا کی دو بڑی صنعتیں ہیں اور چائنا دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے لیکن اپنی مصنوعات کی ترسیل کیلئے بحری جہاز کو سات ہزار چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے مڈل ایسٹ ،سنٹرل ایشیا اوریورپ پہنچنا پڑتا ہے۔ پاکستان یہ فاصلہ کم کرنے کا سب سے بڑا اور سب سے اہم راستہ ہے۔1980 کی دہائی سے گوادر کاشغر روٹ بنانے کیلئے چائنا132 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر تیار ہے لیکن روٹس کا تعین بھی اپنے لئے محفوظ چاہتا ہے۔جو کہ ہمارے نام نہاد محب وطن لوگوں نے ایک مسئلہ اور انا کی جنگ بنا لیا ہے۔بہرحال تین ممکنہ روٹس مشرقی روٹ، مغربی روٹ اور متبادل روٹ زیر بحث ہیں۔چائناکیلئے سب سے پسندیدہ اور محفوظ ترین روٹ مشرقی ہے جو کہ سندھ اور پنجاب سے گزرے گا۔اب کالا باغ ڈیم کی طرح یہاں پر بھی روایتی عوام دشمنی کو بطور روڑے کے اٹکایا جارہا ہے کہ ہمارے علاقے سے اس روٹ کو گزارا جائے۔ حالانکہ اگر روٹ بن جائے تو پاکستان میں فیکٹریوں ،انڈسٹریز اور گوداموں کی لائنیں لگ جائیں گی۔لاکھوں افراد کو ملازمتیں ملیں گی روزگار ملے گا خوش حالی امن سکون اور تحفظ کا ایک عظیم باب رقم ہوسکے گا تو اس کا فائدہ متعلقہ صوبوں ضلعوں ،علاقوں اور شہریوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور کے پی کے کی عوام کو بھی ہوگا۔کیونکہ پہلے بھی تو این ایف سی ایوارڈ اور اسی طر ز کی دوسری مراعا ت میں سے ان کو ان کا حصہ دیا جارہا ہے تو اب بھی مل ہی جائیگا۔ لیکن اگر یہ روٹ ہماری ہٹ دھرمیوں کی وجہ سے پاکستان میں نہ بن سکا تولامحالہ دوسرے ہمسایہ ممالک راستہ دینے کیلئے تیار ہیں۔ لہذا اب ملکی ترقی اور خوشحالی کو مد نظر رکھتے ہوئے بہتر آپشن کا انتخاب ضروری ہے۔ورنہ ہم ترقی کا یہ آخری موقع بھی گنوا بیٹھیں گے۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 192631 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More