جعلی ادویات ، سستی موت

؂ مقید کردیا سپیروں نے سانپوں کو یہ کہہ کر
کہااب انسان کو انسان سے ڈسوانے کا موسم ہے
اس وقت جدید دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ رشوت ستانی اور بد عنوانی ، اقربا ء پروری اور منشیات جیسی لعنتیں نے ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ۔ موت ہرسو رقص کر رہی ہے اور موت کے سوداگروں نے ہیروئن اور افیون کے بعد اب انسانی زندگی کو بچانے والی اددویات میں بھی زہر گھولنا شروع کردیا ہے ۔ محکمہ صحت کے اعلیٰ عہدوں پر حکومت نواز لوگ فائز ہیں جو دولت کی ہوس میں اندھے ہوچکے ہیں ۔انسانی جانوں کا یہ کھیل ان کی آنکھوں کے سامنے جاری ہے لیکن ضمیر کے مرجانے کے بعد انسانیت کا درد کہا جاتاہے؟ کسی کا لخت جگر تو کسی کا سہاگ، کسی کی آنکھوں کا تارا تو کسی کے بڑ ھاپے کا سہارا زندگی کی بازی محض اس لیے ہار رہاہے کہ اس قوم کے مسیحاؤں نے ابلیس کے ساتھ معاہدے کر رکھے ہیں۔

زندگی سے بڑھ کر کوئی چیز بھی انمول نہیں ہوسکتی اور یہ صرف ایک بار ملتی ہے۔ سانسوں کی روانی جاری رکھنے والی ادویات آج زندگی کی ڈور کاٹ رہی ہیں۔ صحت جیسی انمول نعمت کے ساتھ عجب کھیل کھیلا جارہا ہے کہ ارباب اختیاربھی بے بس اور صاحب ایوان بھی بے کس ۔دولت جیسی گندگی کے ڈھیر کو جمع کرنے اور راتوں رات کروڑ پتی بننے کی ہوس میں ایسی جعلی ادویات تیار کی جارہی ہیں کہ جنکا انسانی ذہن تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہیں مارکیٹ اس طرح پیش کیاجاتاہے کہ اصلی ادویات پر بھی شک ہونے لگتاہے۔ وہی لیبل وہی پیکنگ اور وہی رنگ لیکن افسوس کہ وہی اثر نہیں۔ گولیاں اب شفاء دینے کی بجائے گولیوں کی طرح لگ رہی ہیں۔ اندر سے انسان کو کھوکھلا اور ایسی پیچیدیگیاں پیدا کررہی ہیں جنکی اب ڈاکٹر حضرات کو بھی سمجھ نہیں آتی ۔

اب ان عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جنکی وجہ سے جعلی ادویات تیارہوتی ہیں۔ مارکیٹ تک پہنچتی ہیں اور ڈاکٹر حضرات نسخہ جات میں ان کو تجویز کرتے ہیں ۔ چند بااثر اور سیاسی پس منظر رکھنے والے افراد خفیہ تہہ خانوں میں فیکٹریاں چلاتے ہیں ۔یہی عناصر بازاروں میں کباڑیوں سے سیرپ کی بوتلیں خریدتے ہیں اور ان کی دوبارہ اصل کی طرح پیکنگ کرتے ہیں ۔یا پھر سستے سیرپ اور سستے انجیکشن خرید کر ان پر ملٹی نیشنل کمپنی کا لیبل لگا دیتے ہیں اور بازاروں میں فروخت کرتے ہیں۔ انہیں محکمہ صحت یا حکومت وقت کے کسی بھی ادارہ کا اجازت نامہ نہیں ملا ہوا ہوتا۔ باالکل اصل کی طرز پر نقل تیار کرتے ہیں اور انتہائی غیر معیاری اور غیر مصدقہ سستے مواد کو ادویات میں استعمال کرتے ہیں ۔جو کچھ عرصے بعد ہی انسانی رگوں میں زہر بن کر دوڑتی ہیں۔ ان کے اس سیاہ دھندے کے خلاف کوئی کاروائی کی جرات بھی نہیں کرسکتا۔کم لاگت کی ان ادویات کو میڈیکل سٹور کے مالکان کوزیادہ منافع کی لالچ دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نیم حکیموں سے براہ راست رابطہ کیا جاتاہے اور تجربہ کار مستند ڈاکٹروں کی مختلف طریقوں سے مالی معاونت کرکے نسخہ جات تجویز کروائے جاتے ہیں اور پھر یہ قاتل ادویات جعلی نہین رہتی ۔ان سے واقع ہونے والی موت کو کبھی ڈاکٹروں کی غفلت قرار دیا جاتاہے تو کبھی مریض کی بے احتیاطی۔ اصل حقائق کی جڑوں کی طرف کوئی نہیں جاتا کیونکہ وہاں سانپ نہیں اژدھے بیٹھے ہیں۔

اس ساری صورت حال میں کچھ حد تک مریض اور اسکے لواحقین بھی ذمہ دار ہیں ۔وہ مستند او ر تصدیق شدہ ادویات خریدنے سے اس لیے گریز کرتے ہیں کیونکہ انکی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ بین الاقوامی طور پر عالمی ادارہ صحت سے منظورشدہ ادویات کی قیمت قدرے زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے مقابلے میں جعلی ادویات انتہائی سستے داموں ہر جگہ دستیاب ہوتی ہیں۔ ان سستی ادویات نے یقیناًموت کو بھی انتہائی سستا کردیاہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ایسے سانحات ہوچکے ہیں جن میں کئی قیمتی انسانی جانوں کا ضیاء ہوا ہے کیونکہ انھوں نے جعلی ادویات استعمال کیں۔

محکمہ صحت کی لاپرواہی اور موثر قوانین کی عدم موجودگی میں موت کے اس گھناؤنے کھیل نے کئی سہاگ اجاڑ دیے کتنوں کے لخت جگر اور بڑھاپے کے سہارے جان کی بازی ہار بیٹھے۔ اسکے پیچھے یقیناًوہ لوگ ہیں جنکی گھٹی میں حرام شامل ہے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو کُل نسل انسانی کے مجرم ہیں۔ ایسے اولاد ابلیس کو سر عام پھانسی دی جائے۔ ان کی جائیداد یں ضبط کی جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص ان شیطانی عوامل کا تصور بھی نہ کرسکے ۔جعلی ادویات فروخت کرنے والے میڈیکل سٹور کے لائسنس فی الفور معطل کیے جائیں اور تجویز کندہ کو نشان عبرت بنایا جائے۔ عوام کو آگاہی دی جائے کہ ادویات لیتے وقت منظور شدہ کمپنی کا لیبل ضرور دیکھیں اور صحت جیسی لازوال نعمت پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔محکمہ صحت کوان سستی اور غیر معیاری ادویات کے بعد از اثرات کی سنگینی سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 105168 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More