یونان: کرائے کے قبرستان

جارج ولاسِس تقریباً 500 کلو میٹر کی پرواز کے بعد یونان کے دارالحکومت ایتھنز سے کورفو پہنچے تاکہ اپنے والد الیگزینڈر کی تدفین کر سکیں۔ الیگزینڈر کی ہڈیاں ایتھنز کے ایک قبرستان سے نکال کر ٹین کے ڈبے میں بھری گئی تھیں اور یہ ڈبا 500 کلو میٹر دور کورفو جا رہا تھا۔

ولاسِس کہتے ہیں ’مجھے ہوائی اڈے پر حکام کو بتانا پڑا کہ اس ڈبے میں انھیں کیا ملے گا۔‘
 

image


ایک طویل سفر کے بعد ولاسِس اس جزیرے پر پہنچے جہاں انھیں آنا تھا اور وہاں انھوں نے اپنے گاؤں کے ایک نجی قبرستان میں اپنے والد کی باقیات کو دفن کیا۔ اور یوں بالآخر الیگزینڈر کو اپنی ابدی آرام گاہ مل گئی۔

بی بی سی کے مطابق مسٹر ولاسِس کی کہانی یونان کی غیر معمولی کہانی نہیں ہے۔

بہت عرصے سے یونان کے بڑے شہروں میں عارضی تدفین کا عمل جاری ہے۔ زمین کی کمی کا مطلب ہے کہ ایتھنز اور تھیسالونِکی میں قبرستان گنجائش سے زیادہ بھر چکے ہیں۔

یونان میں لاشوں کو جلانے کی بھٹیاں یا کریا کرم کی جگہیں نہیں ہیں۔ قبر کی جگہ کو دوبارہ سے کارآمد بنانا پڑتا ہے۔ حکام قبروں کے لیے پلاٹ کرائے پر دیتے ہیں اور کرائے کا یہ معاہدہ زیادہ سے زیادہ تین برس تک کا ہوتا ہے۔

جب معاہدے کا دورانیہ پورا ہو جاتا ہے تو خاندان والوں کو بلا کر ان کی موجودگی میں زمین سے میت کے باقیات نکالے جاتے ہیں۔ اگرچہ یورپ میں کرائے کی قبر کا تصور مکمل طور پر غیر عام نہیں ہے لیکن جو یونان میں ہوتا ہے وہ کہیں اور نہیں ہوتا۔

رشتہ دار مردے کی ہڈیوں کو مشترکہ مقام پر سٹور کرنے کی قیمت ادا کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی چاہے تو ان ہڈیوں کو علاقائی قبرستان لے جا کر جہاں عموماً زیادہ جگہ ہوتی ہے، دوبارہ دفن کر سکتا ہے۔

اگر قبر سے لاش یا ہڈیاں نکالے جاتے وقت کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو تو ہڈیوں کو کیمیائی مواد میں تحلیل کر کے باقیات کو ایک مشترکہ پلاٹ پر رکھ کر ایک طرح سے دفن کر دیا جاتا ہے۔

مسٹر ولاسِس نے اپنے والد کی قبر کشائی کے موقع پر ایک نمائندے کو وہاں بھیجا لیکن جو ہُوا وہ بہت سے یونانیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ولاسِس نے بتایا کہ جب ان کے والد کی لاش زمین سے نکالی گئی تو یہ پوری طرح تحلیل نہیں ہوئی تھی۔ولاسِسں کہتے ہیں ’ذرا سوچیں، یہ کتنی اذیت ناک بات ہے۔‘

’مجھے کہا گیا کہ لاش کو دوبارہ مٹی کی ہلکی تہہ کے نیچے دفن کیا جائے گا۔ جب کئی ماہ بعد میں پھر سے وہاں گیا تو لاش گل سڑ چکی تھی۔ پھر انھوں نے ہڈیوں کو پلاسٹک کے ایک ڈبے میں ڈالا۔ جیسے میرے والد کو ڈبے میں ڈال دیا گیا ہو۔‘

مسٹر ولاسِس کا کہنا ہے کہ ان کے والد تدفین کی بجائے شاید اپنی لاش کو جلا دیا جانا زیادہ پسند کرتے اور یوں ان کی راکھ سمندر میں پھیل جاتی۔ لیکن یورپی اتحاد کے ممالک میں یونان واحد ملک ہے جہاں مردوں کو جلانے کے انتظامات نہیں ہیں۔

مردوں کو جلانے کی قانونی اجازت 2006 میں دے دی گئی تھی لیکن مردے جلانے کی بھٹیاں بنانے کی کوششیں اس وجہ سے رک گئی ہیں کہ مقامی بلدیہ اور یونان کے قدامت پسند کلیسا نے اس پر اعتراضات کیے ہیں۔

چرچ کا خیال ہے لاش کو جلانا انسانی جسم کی توہین ہے اور وہ اپنے ماننے والوں کو اس کام سے منع کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ جو چرچ کے عقائد مانتے ہیں وہ اپنے مذہب کی تعلیمات سے منحرف ہو کر کسی دوسرے ملک کا سفر کریں تاکہ اپنے پیاروں کی لاش کو جلا سکیں۔
 

image

اینٹونی ایلاکیوٹِس 14 برس کے تھے، جب انھوں نے اپنے والد کی لاش کو قبر سے نکالے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ انھوں نے مردوں کو جلانے کی آواز اٹھانے کے لیے کمیٹی بنائی ہوئی ہے اور یونان میں تدفین کے سخت قوانین کے خلاف مہم شروع کی۔

انھوں نے ایتھنز میں اپنے گھر سے بات کرتے ہوئے کہا ’ایک نوجوان کے لیے اپنے باپ کو کھو دینا اور پھر اِس سب میں سے گزرنا بہت برا تجربہ ہے۔ میری عمر 60 سال ہو گئی ہے لیکن آج بھی سب کچھ اسی طرح ہو رہا ہے جیسے پہلے ہوتا تھا۔ اور یہ سب کچھ آپ کو یاد بھی رہتا ہے۔‘

مسٹر ایلاکیوٹِس کو یقین ہے کہ اگر مردے جلانے کی اجازت مل جائے تو نہ صرف قبرستانوں میں صورتِ حال بہتر ہو جائے گی بلکہ لواحقین پر مالی دباؤ میں بھی کمی آ جائے گی۔ لوگوں کے لیے یہ سستا بدل ہوگا۔ تین برس کے لیے کرائے کی قبر ڈھائی ہزار سے تین ہزار یورو میں پڑتی ہے لیکن لاش جلانے سے خرچہ آدھا ہو جائے گا۔

بی بی سی نے اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے یونان کے چرچ سے رابطہ کیا لیکن جواب نہیں ملا۔

تھیسالونِکی کے میئر یانس باؤٹرس بھی کرائے کی قبروں کے ’ناخشگوار اور غیر انسانی‘ نظام کے بدلے کوئی دوسرا نظام چاہتے ہیں۔

گزشتہ سال انھوں نے وزیرِ ماحولیات کو ایک درخواست دی کہ قانون میں تبدیلی کر کے یہ پابندیاں ختم کی جائیں کہ مردے جلانے کی بھٹیاں کہاں بن سکتی ہیں اور کہاں نہیں۔ انھیں کامیابی ہوئی ہے۔ قانون کا نیا مسودہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مردے جلانے کی جگہیں قبرستانوں کے باہر بنائی جا سکتی ہیں۔ اب امکان ہے کہ ایسی بھٹیاں بن سکیں گی۔

میئر کہتے ہیں ’ہم مناسب جگہ دیکھ رہے ہیں اور ہم یقیناً اس منصوبے پر پیسے لگانے کے طریقوں پر بھی غور کر رہے ہیں۔‘

تاہم چرچ نے قانون میں اس تبدیلی کو ’زندگی کے ہر پہلو سے دین کو ختم کرنے‘ کی کوشش قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے۔ پادریوں کو حکم ملا ہے کہ اگر کوئی مردہ جلانا چاہے تو جنازے کی آخری رسومات ادا کرنے سے انکار کر دیا جائے۔

لیکن مسٹر باؤٹارس پر عزم ہیں کہ وہ اپنے منصوبے پر کابند رہیں گے اور ان کا کہنا ہے کہ تھیسالونِکی میں سنہ 2016 تک مردوں کو جلانے کی بھٹی بن چکی ہوگی۔

میئر کی والدہ اس سال کے شروع میں چل بسی تھیں اور انھوں نے اپنی والدہ کی میت کو یونان سے باہر جا کر جلانے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مردے جلانے کی بھٹیاں بنانا جمہوری ہی نہیں بلکہ عملی مسئلہ بھی ہے۔

یانس باؤٹرس کے بقول ’ یہ مسئلہ اس آزادی کا ہے جو آپ کے جسم کو اس کی آخری منزل تک پہنچانے کی آزادی ہے اور جو داؤ پر لگی ہوئی ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے آپ کو اپنے اعضا عطیہ کرنے کی آزادی حاصل ہے۔‘
YOU MAY ALSO LIKE:

George Vlassis flew almost 500km (310 miles) from Athens to Corfu to bury his father, Alexander. His bones had been packed in a tin container after they were exhumed from a graveyard in Zografou in the Greek capital.