شکست تو مقدر تھی

۱۱ستمبر ۲۰۰۱کو ایک ایسا واقعہ رونما ہواجس نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا ۔آج کوئی ۱۱ستمبر سے پہلے کی دنیا کو یا د کر رہا ہے تو کوئی اس کو مثال کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ جی ہا ں! نائن الیون کو جزیرئے عرب کے چند سرفروش جانبازوں نے فرعون ِ وقت کے قلب و جگر پر ایسی کاری ضرب لگائی جو وہ آج تک نہ بھول پایا،اور صدیوں یاد رکھے گا۔سپر پاور کہلانے والا۔۔۔دنیا پر حکمرانی کے خواب آنکھوں میں سجانے والا۔۔۔غروروتکبرمیں فرعون کی یاد دلانے والا۔۔۔جسے لوگ امریکہ کہتے ہیں۔چیخاتا ،پکارتا دنیا بھر کے ممالک سے جنگ میں مدد مانگنے دوڑا۔نیٹو اور نان نیٹو ۴۲ ممالک کو اپنی مدد کے لیے تیار کر لیا۔پھر کیا تھا!یہ بد مست ہاتھی اپنے اور اتحادیوں کے لشکر ،بحری بیڑے،فضائیہ،ٹینک ،توپیں ،بکتر بند گاڑیاں،ڈرون اور نہ جانے کون کون سی ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر ایک غریب ،پس ماندہ اور برسوں کی خانہ جنگی سے تباہ حال ملک افغانستان پر چڑھ دوڑا۔جس کا نائن الیون کو زمیں بوس ہونے والے ولڈٹریڈ سنٹر کی تباہی میں کوئی کردار تھا نہ ہی اس کا کوئی باشندہ اس کام میںملوث تھااور نہ ہی کسی طرح کی مدد کی تھی۔اس کا جرم صرف اتنا تھا کہ اس نے چند عرب مہمانوں کو اسلامی اور پختون روایات کے مطابق اپنی سر زمین پر رہنے کی اجازت دی تھی۔اور پھر ان مہمانوں کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکاری تھے۔جس میں وہ حق بجانب بھی تھے۔اس جرم کی سزادینے وقت کاسپر پاور اپنے اتحادیوں کے لاؤ لشکر سمیت حملہ آور ہواکہ چند دنوں میں افغانوں کو شکست دے کے فتح سے سر شار ہو گا۔ایک طرف دنیا بھر کی ٹیکنالوجی تھی تو دوسر ی طرف محض توکل علی اللہ۔۔۔ایک طرف دنیا بھر کے کافر جمع تھے تو دوسری طرف اپنے بھی منہ موڑ چکے تھے۔۔۔ایک طرف غرور وتکبر تھا تو دوسری طرف صبر واستقامت اور غیرتِ ایمانی تھی۔۔۔ایک طرف بحری،بّری،فضائی فوجیں تھیں تو دوسری طرف غیرت ایمانی سے سر شار جانفروشوں کی چند پرانی بندوقیں۔۔۔ایک طرف بارود کے ڈھیر اور بارودی سرنگوں سے بچنے والی گاڑیاںتھیں تو دوسر ی طرف چند دیسی ساختہ بم جو بم پروف اور بارود کی تلاش کرنے والی گاڑیوں کو لے اڑے۔جب حملہ آور آئے تو وہ بوریا نشین جو تباہ حال افغانستان کو سہارا دیئے ہوئے تھے،اس کے عوام کی خوشحالی اور امن وسکون کے لیے اپناسب کچھ قربان کرواچکے تھے،وہ جو رب کا نظام نافذ کیے ہوئے تھے وہ تو اس کے حاکم بنے ہی اس لیے تھے کہ لوگوں کو لوگوں کی غلامی سے نکال کر لوگوں کے ربّ کی غلامی میں لے آئیں۔اُنہوں نے سب کچھ کو چھوڑااور حملہ آوروں کو سبق سیکھانے پہاڑوں کو رخُ کر لیا۔امریکہ، اس کے اتحادی ، اس کے ٹکڑوں پر پلنے والے دانشوراورمیڈیا سب کے سب خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے کہ طالبان ختم ہو گئے،مرگئے، نیست و نابود ہو گئے۔اور امریکہ بہادر جیت گیا۔لیکن اللہ ربّ العزت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔کس کی شکست ۔۔۔ کس کی فتح ۔۔۔یہ فیصلہ میرے رب ّ نے کرناتھا۔وقت گزرتا گیا ۔ایک دو نہیں ،چار چھ نہیں پورے چودہ سال بیت گئے۔امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کے پہاڑوں سے سر ٹکراتے رہے۔۔۔روز جلتے رہے۔۔۔روزمرتے رہے۔۔۔ اپنے سورماؤں کے بوٹوں ۔۔۔تابوں کو سلامیاں کرتے رہے۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور تب تک جاری رہے گا جب تک امریکہ ذلت و رسوائیوں کے ساتھ افغانستان کی سر زمیں سے بھاگ نہ جائے۔شاید انہیں یہ اندازہ نہ تھا کہ وہ کس قوم سے لڑنے جارہے ہیں۔نہ طالبان ختم ہوئے اور نہ اُن کا نظریہ ناپید ہوااورنہ ہی بمباریاں ،جیلیں ،اپنوں کی غداریاںاور ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے ان کے حوصلوں کو پست کر سکے۔طالبان بھی موجودہیں اور ان کا نظریہ (ر بّ کی زمین پرربّ کا نظام) بھی چار سو چمک رہا ہے۔امریکہ نے پہلے ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی اور اب دوسری نہ تو افغانستان میں امن وامان بحال ہو ااور نہ ہی عوام خوش حال ہوئے۔بلکہ امریکہ سے نفرت میں اضافہ ہی ہوتا جا رہاہے۔افغان فوجی جن کو تربیت اسلحہ اور تنحواہ امریکہ دے رہا ہے،وہ بزدل اور کام چور نکلے۔افغان فوجیوں کو تربیت دینے والے انسٹرکٹر ز کی ایک ٹیم نے اپنی خفیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ افغان فوجی بزدل اور کام چور ہیں وہ طالبان کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں ایک امریکی ٹرینر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’ایک افغان فوجی دستے کو میں نے تربیت دی اور جب تربیت مکمل ہو گئی تو انہیں زابل میں طالبان کے خلاف ایک آپریشن میں لے گیا،جب جنگ شروع ہوئی تو افغان فوجی طالبان کا مقابلہ کرنے کے بجائے درختوں اور چٹانوں کے پیچے چھپنے لگے،اور جب انہیں طالبان کے حملے کا جواب دینے کا کہا تو کوئی بھی آگے نہ بڑھا، اسی طرح ایک جھڑپ کے دوران میں نے افغان فوجیوں کو حکم دیا کہ حفاظتی دائرہ بناؤتاکہ زخمیوں اور لاشوں کو نکالا جاسکے تو کوئی بھی آگے نہ بڑھا‘‘امریکی ٹرینرز نے اپنی رپورٹ میں واضح لکھاکہ’’پینٹاگون کے دعویٰ غلط ہیں اور افغان فوجی طالبان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے،کیونکہ طالبان زیادہ جنگی مہارت رکھتے ہیں اور بے خوف لڑتے ہیں جبکہ افغان فوجی بزدل ہونے کے ساتھ ساتھ کام چور بھی ہیں،چار لاکھ افغان فوج میں صرف بیس (۲۰)ہزار ’’کام‘‘ کے ہیں‘‘-

یہ تو امریکی تربیت دینے والے اہلکاروں کی رپورٹ تھی جبکہ ان میں سے کچھ فوجی ایسے بھی ہیںجو موقعہ ملتے ہی امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔پھر طالبان سے جا ملتے ہیں۔آج افغانستان کے اکثر علاقے طالبان کے زیر کنٹرول ہیں یاوہاں طالبان کا اثرو نفوذقائم ہے۔امریکہ کبھی یہ کہتا تھا،کہ۲۰۱۴تک اپنی فوج افغانستان سے نکال لے گا۔صرف دس ہزار فوجی افغان فوج کی تربیت اور مددکے لیے یہاںرہیں گے ، ۲۰۱۴آیا اور گزرگیاامریکہ نے ایک سال کی توسیع کرلی کئی اتحادی ملک تنگ آکر اپنی فوج نکال چکے ہیں،اور کئی ابھی بھی بھاگنے کو تیار ہیں بس ایک اشارے کے منتظر ہیں۔امریکہ بہادر اپنی شکست چھپانے کے لیے کبھی کوئی ڈھونگ رچاتا ہے تو کبھی کوئی۔افغانستان جگہ ہی ایسی ہے جو بھی حملہ آور آیا اس کے کہساروں سے ٹکرا کر اپنی فتح کا خواب سینوں میں لیے پاش پاش ہو گیا -

وقت کی سپر پاوروں کو دنیا میں افغانیوں ہی کے ہاتھوں ذلت سے دوچار ہونا پڑا۔پہلے بر طانیہ آیا اور پھر سویت یونین ۔برطانیہ شکست کھا کر بھاگ نکلاجبکہ سویت یونین کو نہ صر ف شکست کی ذلت اُٹھانی پڑی بلکہ اپنے وجود کے بھی ٹکڑے کروا بیٹھااور آج عصرِ حاضر کی سپر پاور امریکہ شکست سے دوچار ہو رہا ہے ۔بھاگنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے ۔ لیکن شاید اس کے مقدر میںابھی اور تباہ ہونا لکھا ہے ۔ان شا ء اللہ اس کاحشر سویت یونین سے بھی برا ہو گا ۔دوسر ی طرف طالبان نصر تِ خداوندی سے فتح یاب ہو رہے ہیں۔جب طالبان برسر اقتدار تھے تو دنیا بھر کے ممالک ان سے نالاں تھے اور آج قطر میں طالبان اپنا سیاسی دفتر قائم کر چکے ہیں اور چین نے طالبان سے اپنے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے طالبان کے نمائندوں کو بیجنگ میں جگہ فراہم کی ہے۔ طالبان نے افغانستان کا اقتدار کھو کر بہت کچھ پایا ہے جبکہ امر یکہ نے افغانستا ن کے اقتدار پر قبضہ کر کے بہت کچھ کھو یا ہے۔جس کا اسے وہم و گمان بھی نہ تھا۔

شکست تو امریکہ کا مقدر تھی جس کے اثرات اب واضح ہو تے جارہے ہیں ۔بس کچھ ہی عرصہ میں امریکہ ذلت ورسوائی کا سہرا سجائے افغانستان سے بھاگ نکلے گااور پھر۔۔۔ وہی طالبان ۔۔۔جن کو عالمِ کفر ۔۔۔مٹانے آیا تھا۔۔۔افغانستان پر ۔۔۔رب ّ کا نظام ۔۔۔نافذ کر رہے ہوں گے۔۔۔۔ان شاء اللہ
تحریر ؛ ابو ساریہ
 

ابو ساریہ
About the Author: ابو ساریہ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.