سادہ لوح ماڈل ایان علی

ماڈل و اداکارہ ایان علی کو کرنسی کی سمگلنگ کے جرم میں گرفتار کیا گیا جس پر عدالت میں کیس زیر سماعت ہے اور ملزمہ کو ایک مرتبہ پھر سے چالان مکمل نہ ہونے پر جج صابر سلطان نے چھٹی پیشی دے دی ۔ دوسرے لفظوں میں ریمانڈ میں توسیع کردی گئی۔جس کی وجہ سے بہت سوں کے دلوں پر چھریاں چل گئیں۔ ریمانڈ کیا ہے جس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ بہت ہی خوفناک پیریڈ ہوتا ہے ملزمان سے تفتیش کرنے اور معلومات حاصل کرنے کیلئے مختلف قسم کی ایذائیں دی جاتیں ہیں۔ فزیکل ٹارچر سے لیکر مینٹل ٹارچر تک ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ملزم سے حقائق کو اگلوایا جاسکے۔مشاہدے کی بات ہے کہ مسجد سے جوتے اور پانی کی ٹونٹیاں چرانے والے،تنور یاہوٹل سے روٹی چرانے والے بھوکے کو پہلے تو عوام مار مارکر بھرکس نکال دیتی ہے اور رہی سہی کسر پولیس والے کردیتے ہیں۔وہ پکڑے جانیوالے اس مہاچور کواس طرح سے ایذا اور تکلیف کے مراحل سے گزارتے ہیں کہ اگلی مرتبہ وہ بھوکا مرنا پسند کرلیتا ہے مگر روٹی چرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔لیکن جب ایان علی جیسے ملزمان چور لٹیرے دلال قاتل اور اسی قماش کے دوسرے مرد و خواتین ’’بدقسمتی‘‘ سے پولیس کے شکنجے میں آتے ہیں تو ان کو مذکورہ بالا تمام مراحل سے بالکل بھی نہیں گزرنا پڑتابلکہ ان کیلئے تو خصوصی پروٹوکول ہوتا ہے کیونکہ ان میں سے کوئی کسی کے خوابوں کی شہزادی ہوتی ہے تو کوئی کسی کے خوابوں کاشہزادہ۔کوئی سیاست دان کا لخت جگر ہوتا ہے تو کوئی وزیراعظم کا سپوت ہوتا ہے۔کہیں کسی رئیس کی بگڑی ہوئی اولاد ہوتی ہے تو کہیں بیوروکریٹ کے عزیزو اقربا۔ اسی لئے ان کو بھی ریمانڈ کے پراسس کی ہواتک چھوکر نہیں گزرتی۔یہ لوگ اگر کسی طرح پھنس بھی جائیں اور جیل کی یاترا پر جانا پڑجائے تو ان کے وہاں پہنچتے ہی ان کو میڈیکلی ان فٹ ڈکلیئر کرالیاجاتا ہے اور ہسپتال منتقل کردیا جاتا ہے۔ جہاں پر ان کو ہمہ قسم کی تعیشات مہیا کی جاتی ہیں ۔شاہی ناشتہ امیری لنچ اورشہنشاہی ڈنر سے ان کی تواضع کی جاتی ہے ان کے علاوہ دوسرے تمام لوازمات کے ساتھ ساتھ واک اور ایکسرسائز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔

ایسا ہی کچھ ایان علی ماڈل و اداکارہ کے معاملے میں بھی دہرایا جارہا ہے ماڈل ایان علی کے والد راجہ حفیظ کے بقول ان کی بچی سادہ لوح ہے اور کیس کو کھوہ کھاتے ڈالنے کیلئے اس کو قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔زہر خورانی کا اندیشہ شدید ہے اس بنا پر ان کا کھانا تمام تر احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے جیل سپرنٹنڈنٹ کے گھر سے آتا ہے جو کہ یقینا ملزمہ کی مرضی و منشا کے عین مطابق ہوتا ہے۔جیل سپرنٹنڈنٹ کے گھر سے کیوں آتا ہے اس کی لاجک تو جیل حکام ہی بتاسکتے ہیں۔اسی طرح بیچاری ملزمہ کو جیل کے ماحول سے الرجی کی شکایات ہوگئی ہے چونکہ اس کی ادویات جیل ہسپتال میں میسر نہیں اور ڈاکٹرز بھی اس کی الرجی کو سمجھنے سے الرجک ہیں اس لئے پرائیویٹ ڈاکٹرز کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ریمانڈ (پروٹوکول )کا ایک اور نمونہ جو کہ سب سے افسوس ناک بات ہے وہ یہ کہ موصوفہ کی خدمت گزاری کیلئے تین خادمائیں متعین کی گئی ہیں جو کہ ہمہ وقت ان کی خدمت(نگرانی ) کریں گی۔یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کس بنا پر اور کس قانون کے تحت یہ پروٹوکول دیا گیا تو جیل حکام اس پروٹوکول کی لاجک بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ چونکہ ملزمہ دباؤ کا شکار ہے اور مایوسی بھی انتہا کی ہے (کیونکہ مجھے تو بتایا گیا تھا کہ دوسرے روز ہی تم باہر ہونگی لیکن یہ سلسلہ تو شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا جارہا ہے) اس لئے خدشہ ہے کہ اس دباؤ اور مایوسی کی بنا پرکہیں سادہ لوح موصوفہ خود کشی نہ کرلیں اس لئے تین خواتین کو ڈیوٹی لگائی گئی ہے تاکہ اس قسم کی کسی بھی غیر سنجیدہ صورت حال سے نمٹا جاسکے۔

واہ جی واہ!قربان اور واری ہونے کو جی چاہ رہا ہے جیل حکام کی بیچارگی اور سادہ لوحی پر۔اب مایوسی کا عالم بھی ملاحظہ کیجئے۔موصوفہ جب پیشی پر آتی ہیں توچہرہ میک اپ سے دمک رہا ہوتا ہے تروتازگی و ہشاشیت انگ انگ سے ٹپک رہی ہوتی ہے۔لباس کی ساخت اور بناوٹ بھی ان کی ’’مایوسی‘‘کی عکاسی کررہی ہوتی ہے۔ اٹکھیلیاں کرتی ہوئی عدالت میں پیش ہوتی ہے تو ہر اندازپرماڈلنگ کا سا گمان ہوتا ہے۔ اتنی بشاشیت تو اس کے ساتھ جانیوالوں کے چہروں پر نہیں ہوتی۔ میرا خیال ہے جیل حکام کی نظر کی عینک شاید کوئی دبیز تہہ چڑھ گئی ہے ۔تو جناب یہ ہے مایوسی کا عالم۔جہاں پر مایوسی ویاسیت کا دور دور تک کوئی شائبہ تک نہیں ہوتا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ماڈل موصوفہ کے جو تعلقات زبان زد عام ہیں یعنی اس کے سابقے اور لاحقے بڑے بڑے نام ہیں تو یہ پروٹوکول عجب نہیں ماننا چاہئے حالانکہ آزاد رہتے ہوئے گھر میں بھی شاید اتنی آوبھگت نہیں ہوتی جتنی کہ جیل میں ہورہی ہے۔ہاں اگر اس جگہ کسی غریب کی بیٹی ہوتی اور ایسا کرتی تو جیسا کہ درج بالا سطور میں عرض کرچکا ہوں اس کی کھال تک اڈھیر لی جاتی کیونکہ پاکستان میں غریب ہونا جرم ہے اور غریب کی بیٹی ہونا اس سے بھی بڑا جرم ہے۔انہی سطور میں اسکی ایک واضح مثال موجود ہے موصوفہ ماڈل ایان کیلئے جن تین خواتین کو مقرر کیا گیا ہے وہ مملکت خداداد کی غریب مخلوق ہیں ۔فرق صاف ظاہر ہے کہ ایک ملک ایک ہی عدالت ایک ہی جرم ایک ہی جیل لیکن ایک خادمہ دوسری مخدومہ ایک نے کوئی روٹی کا ٹکڑا، کھیت سے سبزی یا کوڑے کے ڈھیر سے کوئی شے چرائی ہوگی جسے پابند سلاسل کردیاگیا ہے اور دوسری ہے کہ جس نے ملک کو کروڑوں اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا جارہا ہے۔

تضادات کا یہ سلسلہ خدارا اب تو بند ہو ہی جانا چاہئے۔اس طرح کی نظیر دے کر قوم کو کیا پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے، بیک مضبوط ہے، کوئی طاقتور ہستی آپ کے ہمقدم ہے توآپ کیلئے جیل کسی فارم ہاؤس یا ریسٹورنٹ سے کم نہیں۔اور اگر آپ میری طرح سفید پوش یا غریب ہیں تو ملک کے تمام تر قوانین کی پاسداری کرنا آپکا اولین فرض بن جاتا ہے۔اسی طرح آپ کیا میسج دینا چاہ رہے ہیں کہ مجرم صرف وہ ہوتا ہے جس کے پاس دھن، دولت اور وسیع تر تعلقات جیسے’’ اعلی اوصاف‘‘نہ ہوں اگر آپ درج بالا اوصاف سے لیس ہیں تو پھر کوئی جرم آپ کیلئے جرم نہیں کوئی جیل ،جیل نہیں کوئی قانون آپ کیلئے قانون کا درجہ نہیں رکھتا۔بس اپنی من مانی کرتے جاؤ اور ملک میں انتشار بے چینی افراتفری پھیلتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ان اعمال سے قانون کی حیثیت و اہمیت ختم ہوتی ہے تو ہوجائے۔ لاقانونیت پروان چڑھتی ہے تو بلا سے آسمان پر چڑھ جائے۔انسانیت سے نفرت کا عفریت سر اٹھاتا ہے تو اٹھاتا رہے بس مجھے اور میرے چاہنے والوں کیلئے کوئی قانون نہیں ہوناچاہئے۔حکومت اور معزز عدالت کو بھی اس بارے نوٹس لینا چاہئے اور ملزم کو ملزم کی ہی حیثیت دینا چاہئے تاکہ جرم کرنے والا دوسروں کیلئے مقام عبرت بنے۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 192639 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More