شفاف پولنگ بمقابلہ غیرشفاف انتخابات

یہ 8دسمبر 1970کی بات ہے میں گھر کا سودا لینے محلے کی دکان پر گیا تو وہاں جماعت اسلامی کے ایک کارکن انتہائی افسردہ بیٹھے تھے ان کے مغموم اور ستے ہوئے چہرے سے ایسا لگ رہا تھا جیسے خدا نہ خواستہ ان کے گھر میں کسی کا انتقال ہو گیا ہو ،بات اصل یہ تھی ایک دن قبل سات دسمبر کو پورے ملک میں انتخابات ہوئے تھے اور اس میں جماعت اسلامی کو شکست ہوئی تھی ایک سال تک بھرپور انتخابی مہم،یوم دعا یوم شوکت اسلام جیسے عوامی مظاہر نے جماعت کی عظیم الشان کامیابی کے امکانات کو روشن کر دیے تھے لیکن صرف چار نشستوں پر کامیابی ۔یہ ایک ایسی شکست تھی جس پر بعد کئی تجزیے سامنے آئے مولانا مودودی نے اس انتخابی شکست کے اسباب پر ایک موثر اور مدلل تقریر بھی کی تھی جو آج بھی کتابی شکل میں موجود ہے ۔اس تقریر کا ایک جملہ یہ تھا ہم نے جتنے گھروں تک رابطہ کیا اتنے ووٹ ہمیں مل گئے ۔

23اپریل کو کراچی میں جو ضمنی انتخاب ہوا ہے معمول کا ضمنی انتخاب ہوتے ہوئے غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا تھا ۔اس انتخاب سے انتخابی کارکنان کو ایک حوصلہ ملا ہے مجھ سے ایک جماعت کے کارکن جو پولنگ ایجنٹ بنے تھے کہا کہ یہ پہلا انتخاب ہے جس میں اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کو کوئی خوف نہ تھا ۔اگر اسی طرح کے انتخاب ہوتے رہے تو ایک وقت آئے گا ہم کامیاب ہوں گے یہ بھی ہماری کامیابی ہے کہ ایسا انتخاب ہوا اس میں رینجرز نے بلا شبہ بہترین انتظامات کیے تھے کہ پولنگ اسٹیشن پر کوئی ہڑبونگ نہ تھی ۔یہ ایک ایسی مثال قائم ہوئی ہے اگر اس کا تسلسل برقرار رہا تو عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا ،لیکن مکمل شفافیت کے لیے ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے جس میں ووٹر لسٹوں کی شفافیت ضروری ہے جن ووٹر لسٹوں پر انتخاب ہوا ہے ہے وہی ہیں جو ایک کیو ایم کے دفاتر میں بنائی گئیں تھیں اس پر جماعت اسلامی نے پوری قوت سے آواز اٹھائی تھی اور سپریم کورٹ تک نے اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فوج کی نگرانی میں ان فہرستوں کو درست کرنے کے لیے کہا تھا لیکن افسوس کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ ہو سکا۔

ضمنی انتخاب کے جو نتائج سامنے آئے ہیں اسے آپ کیانام دے سکتے ہیں کہ غیر شفاف انتخابی عمل نے شفاف پولنگ کو شکست دے دی ،یا یہ کہ مہاجریت نے پاکستانیت کو شکست دے ڈالی جاگ مہاجر جاگ کی آواز سے دن بھر لوگوں کے گھروں کو کھٹکٹایا گیا ،اجمل پہاڑی جیت گیا اور راشد نسیم ہار گئے ایم کیو ایم جیت گئی پنجابی اسٹبلشمنٹ ہار گئی ،مجرمانہ ذہنیت جیت گئی اور رینجر ہار گئی ،خوف کے ماحول نے بے خوفی کو شکست دے دی ، 1988نے 2015 کو شکست دے دی،یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بین الاقوامی ایجنسیاں جیت گئیں اور ملکی ایجنسیاں ہار گئیں یامات کھا گئیں یا یوں سمجھ لیجئے کہ غنڈہ گردی نے شرافت کی سیاست کو کھڈے لائن لگا دیا بظاہر تو نتیجہ یہ ہے کہ کنور نوید جیت گئے اور عمران اسماعیل اور راشد نسیم دونوں ہار گئے لیکن سچ بات یہ ہے کہ اس انتخاب نے ایم کیو ایم کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیے تھے اور یہ بات بھی سچ ہے اس انتخاب میں ایم کیو ایم نے محنت بہت کی ہے ان کے تمام ایم این ایز ایم پی ایز اور تمام مرکزی عہدیداران پورے سندھ سے کارکنان کو بھی بلایا گیا تھا جو رات دن کام کررہے تھے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیگر جماعتوں کو کس نے روکا تھا تحریک انصاف نے تو میڈیا کا کندھا استعمال کیا جلسے اور ریلیوں پر زیادہ انحصار کیا جماعت اسلامی نے بھی اس سے بڑے جلسے اور ریلیاں نکا لیں ایم کیو ایم نے جلسے وغیرہ تو کیے لیکن انھوں نے گھر گھر عوامی رابطوں پر زیادہ زور دیا اپنے روٹھے ہوئے ووٹروں سے معافیاں مانگیں اپنے سابقہ طرز عمل پر شرمندگی کا اظہار کیا گھر گھر رابطے کا کام دوسروں نے کیوں نہیں کیا کم از کم جماعت اسلامی یہ کام کر سکتی تھی اور ہمیشہ کرتی رہی ہے 2013کے انتخابات میں اسی سیٹ پر لیاقت آباد بلاک 8 , 9 ,10 جماعت نے غوثیہ مسجد سے عوامی رابطہ کیا جس میں راشد نسیم اور مستقیم نورانی بھی تھے بھرپور رابطے سے واپسی پر ظہر کی نماز کے بعد ایم کیو ایم والوں نے مسجد کو گھیر لیا مسجد کے نیچے مدرسے میں ریوالور اور پستولوں کے ساتھ حملہ کر دیا تمام کارکنان محصور ہو گئے وہ کچھ کارکنان کو اغوا کر کے لے جانا چاہتے تھے دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس موجود تھی لیکن وہ کوئی مدد نہیں کررہی تھی یعنی یہ سب کچھ مقامی تھانے کی نگرانی میں ہو رہا تھا جب ہمارے لوگوں نے اپنی استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں جانے پر مجبور کیا تو پھر بعد میں رینجرز والے المدنی اسکول میں آئے تھے ۔

اس دفعہ بھی ایم کیو ایم کا کچھ اسی طرح کا پلان تھا آبادی کے اندر کسی مخالف سیاسی جماعت کو داخل نہیں ہونے دیں گے یہی وجہ ہے کہ جب جماعت اسلامی کی ریلی شریف آباد میں داخل ہوئی تو اس پر ایک منظم اور پیشگی منصوبے کے تحت حملہ کردیا گیا جس میں جماعت کے کئی کارکنان شدید زخمی ہوئے یہ تو ایک بھرپور ریلی پر حملہ تھا تو یہ کیسے ممکن ہو پاتا کہ جماعت کے کارکنان اپنے امیدوار کو آبادیوں میں لے کر گھر گھر رابطہ کرتے اور ان کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہ ہوتی آبادی کے اندر تو میڈیا بھی داخل نہیں ہو سکتا تھا اور پولیس بھی ایم کیو ایم سے سہمی ہوئی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود جہاں جتنا ممکن ہو سکا رابطے کیے گئے ۔اس لیے یہ نہ سمجھا جائے کے پچھلے ماہ کے آپریشن کے بعد خوف کا ماحول ختم ہو گیا ۔بلکہ اس آپریشن نے ایک درجے میں ایم کیو ایم کی ہمدردیوں میں اضافہ کیا ،لوگ یہ بھول گئے کے بھتا نہ دینے کے جرم میں فیکٹری کے مالک کو زندہ چھوڑ کر ڈھائی سو سے زائد مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا ،یہ بھی بھول گئے کہ وکلاء کو زندہ جلانے والے ملزمان کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے ہے یہ تو بڑے اور نمایاں جرائم ہیں آبادیوں میں جو کچھ مظالم ہوتے ہیں اس کا تو کوئی تذکرہ بھی کرنے کی جرات نہیں کرپاتا اس کے باوجود کے جن بستیوں میں ایم کیو ایم نے عوام پر ظلم کیے ان ہی بستیوں سے مہاجریت کے نام پر یکطرفہ ووٹ ڈالے گئے ،لیاقت آباد کی ایک کچی آبادی سکندرآباد میں ایم کیو ایم کے ایک کارکن کی محلے میں خوف ودہشت کا یہ عالم تھا کہ راتوں کو لوگ گھبراتے تھے کہ یہ ان کے گھر پر دھاوا نہ بول دے وہ گھروں میں گھس کر ڈکیتی بھی کرتا تھا اور جو کچھ وہ کرتا تھا اسے لکھا نہیں جا سکتا بالآخر وہ مارا گیا یا مروادیا گیا اس علاقے سے بھی ایم کیو ایم کو یکطرفہ ووٹ ملے میں صبح دو گھنٹے تک ایک پولنگ اسٹیشن میں ایک گھنٹے تک رہا رینجرز کی طرف سے کیے ہوئے انتظامات بڑے سخت تھے پولنگ بوتھ کے اندر سوائے ووٹر کے کسی صحافی کسی چینل اور کسی این جی اوز کے نمائندوں کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی وہاں بھی ووٹرز جس انداز اور جس موڈ میں آرہے تھے اس سے یہی لگتا تھا کہ شاید 1988کا دور واپس آگیا مہاجروں کی مظلومیت کا جادو چل گیا لیاقت آباد بلاک 3,4 8,9,10 کی درمیانی سڑکوں پر کئی برسوں سے سیوریج کا پانی بھرا رہتا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کا گزرنا محال ہے دس نمبر کے کچھ دکانداروں نے اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت اسے ٹھیک کرانا چاہا تو کچھ نامعلوم لوگوں نے دھمکی دی تمہیں بہت لیڈر بننے کا شوق چرایا ہے وہ لوگ سہم گئے اور لوگ اسی طرح مشکلات کا شکار رہے اس علاقے سے تمام ووٹ متحدہ کو پڑے ۔بندھانی کالونی کراچی کی وہ واحد بستی ہے جس نے اب سے تقریباَ دو سال قبل تنظیم سے وابستہ کچھ لینڈ مافیا کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا کہ اس لینڈ مافیا نے ان کی زمین پر قبضہ کر کے تعمیرات شروع کردی تھیں کسی آبادی کے مرد و خواتین کی طرف سے ایم کیو ایم کے خلاف مظاہرے کی کراچی میں یہ پہلی مثال تھی پھر وہ تعمیرات توڑ دی گئیں اس کے کچھ عرصے بعد جو لڑکا اس میں بہت آگے آگے تھا اس کی بوری بند لاش ملتی ہے تھوڑے عرصے بعد ایک اور نوجوان کی لاش ملتی برادری کے اندر ایم کیو ایم سے نفرت اور بڑھ جاتی ہے ان سزاؤں کے بعد ایک دفعہ پھر ایم کیو ایم کی لینڈ مافیا اسی زمین پر قبضہ کرتی ہے ۔آبادی کی طرف سے پھر شدید مظاہرہ ہوتا ہے حسن اسکوائر سے لیاقت آباد والی سڑک کئی گھنٹے تک بند رہتی ہے پولیس اور انتظامیہ پر اوپر سے شدید دباؤ پڑتا ہے کہ روڈ کلیئر کرایا جائے آخر کار پولیس خود بندھانی کے نوجوانوں سے کہتی ہے کہ جاکر اس تعمیرات کو توڑ دو چنانچہ ایک گھنٹے کے اندر وہ سب توڑ دی جاتی ہیں اس تنظیم سے برادری کی نفرت میں شدید اضافہ ہو جاتا ہے اسی وجہ سے عام خیال یہ تھا کہ اس آبادی سے ایم کیو ایم کی مخالفت میں بہت زیادہ ووٹ پڑیں گے لیکن متحدہ نے یہاں پر کیا کیا ویسے تو تقریباَ 25ایم پی ایزاور 8ایم این ایز اس نشست پر دن رات کام کررہے تھے سکھر سے ایم کیو ایم کے ایم پی اے سلیم بندھانی کی ڈیوٹی بندھانی کالونی میں لگائی گئی ایک تو برادری کے فرد اور دوسرے ایم پی اے جیسا معزز منصب کے ساتھ جب کسی گھر میں جاکر تنظیم کے رویے پر ہاتھ جوڑ کر معافی مانگے گا اور پھر ان لینڈ مافیا کے لڑکوں کو بھی بلا کر ان سے معافیاں منگوائے گا تو اس کا کچھ نہ کچھ اثر تو ہو گا پھر چونکہ یہ برادری دیو بندی عقیدے والی ہے اس لیے کئی روز تک مولانا تنویر الحق تھانوی یہاں آکر برادری کے بزرگوں سے ملتے رہے اور ایم کیو ایم کی تعریفوں کے گن گاتے رہے کہ یہ اچھے لوگ ہیں دیکھیے ایک سینٹ کی سیٹ پندر ہ کروڑ کی ہوتی ہے انھوں نے مجھے فری میں سینیٹر بنا دیا ایم کیو ایم نے اس دفعہ اپنے ووٹروں کو نہ صرف گھیرے رکھا بلکہ کسی دوسرے امیدوار کو آبادی میں داخل ہی نہیں ہونے دیا اور ہر طرف متحدہ ہی چھائی ہوئی تھی پھر ان کے پاس کارکنان کی اتنی بڑی تعداد تھی کہ انھوں نے اپنے آزاد امیدواروں کی طرف سے بھی پولنگ ایجنٹس بٹھائے تھے اس طرح ہر بوتھ پر ان کے کم ازکم تین پولنگ ایجنٹس تھے باہر اتنے لوگ موجود تھے کہ ہر کارکن اپنے حصے کاکام کررہاتھا ان کے جن کارکنان کے پاس چنچی رکشے تھے اس میں ووٹروں کو ہر گھر سے لارہے تھے کارکنوں کے ایک گروپ ہر گلی میں ہمہ وقت یہ دیکھتا رہا کہ کس گھر سے لوگ ووٹ ڈالنے جاچکے ہیں اور کس گھر سے ابھی جانا ہے اور ہر گھر سے کتنے لوگوں کو جانا ہے یہ حساب بھی ان کے پاس تھا ۔فاروق ستار صاحب فیڈرل بی ایریا کی گلیوں پیدل گھومے ہیں اور ان کے دیگر ممبران نے مساجد میں نماز ادا کرکے نمازیوں سے ملاقاتیں کیں لوگوں سے شکایات سنیں ان سے معافی مانگی ان کی شکایت کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ۔ادھر دونوں تنظیموں کا یہ حال تھا کہ دونوں کے کارکنان آخر تک اس کنفیوژن میں رہے کہ شاید کسی ایک کو بیٹھنا پڑجائے بلکہ اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف پھر بھی مضبوط تھی اسے ہر حال میں الیکشن لڑنا ہے اور وہ یہ تاثر دیتی رہی کہ جماعت کا امیدوار ہمارے حق میں بیٹھ جائے گا اس کے نتیجے میں جماعت کے کارکنان بھی یکسو نہ ہو سکے جیسے جیسے مہم آگے بڑھتی رہی جماعت خود اس میں پھنستی چلی گئی 16اپریل کے بعد اس سیٹ پر یکسوئی پیدا ہوئی ایک ہفتے میں جو منصوبہ بندی ہو سکتی تھی وہ ہوئی اور اسی کا نتیجہ سامنے آیا اب بیشتر کارکنان یہ کہتے ہیں کہ ہم اگر تحریک انصاف کے حق میں بیٹھ جاتے تو اتنے کم ووٹ حاصل کرنے کی پشیمانی سے بچ جاتے ۔اس میں دو باتیں اہم ہیں اگر ہم اتنی مہم چلانے کے بعد دستبردار ہوتے تو اگلی مرتبہ یہ نو ہزار ووٹ بھی نہ ملتے ہم نے جب 2008کے انتخاب کا بائیکاٹ کیا تو اس کے منفی اثرات پانچ سال تک محسوس ہوتے رہے پھر 2013میں پورے شہر میں کارکنان نے بڑی ہمت سے خوف کے ماحول میں بھرپور مہم چلائی لیکن انتخاب والے دن ہمارے اعصاب ٹوٹ گئے اور دو گھنٹے بعد بائیکاٹ نے ہمارے ووٹروں کو ناراض کردیا جس کی سزا انھوں نے 23اپریل کو دی حالانکہ یہ الگ بات ہے کہ میں بھی اس وقت بائیکاٹ کے حق میں تھا اور اس کی وجہ بھی تھی کہ میرے گھر کی بیس سے زائد رشتہ دار خواتین میرے کہنے پر پولنگ ایجنٹس بنی تھیں اور پولنگ اسٹیشنز کے اندر کی جو رپورٹیں باہر آرہی تھیں وہ بڑی خوفناک تھیں بہر حال اب وہ وقت گزر گیا لیکن اب یہ سوچتے ہیں کہ ہم کسی طرح وہ دن گزار لیتے تو کارکنان اور ووٹرز کا اعتماد بحال ہو جاتا ۔یہی وجہ ہے اس انتخاب میں کارکنان کا اصرار بڑھ گیا کہ ہمیں کسی حالت میں بیٹھنا نہیں ہے چاہے ہمیں ایک ووٹ بھی نہ ملے ،اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اگر ہم اس میں حصہ نہ لیتے اور میڈیا میں صرف دو جماعتوں کا پروپیگنڈہ ہوتا رہتا تو پھر ہمارے ہی لوگ کہتے کہ کاش ہم بھی میدان میں ہوتے تو چینلز پر ہماری کوریج بھی چلتی رہتی واقعہ یہ ہے کہ ہم نے پچھلے سال کروڑوں روپے خرچ کرکے اجتماع عام کیا جس میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے اس میں بھی اتنی کوریج نہیں ہوئی تھی جتنی کے ان پندرہ دنوں میں ہوئی کہ پوری دنیا میں جماعت کا پیغام اس حوالے سے پہنچ گیا ۔انتخاب والے دن یہ کہنا کہ دھاندلی ہوئی ہے مناسب بات نہ تھی چلئے تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں پچیس ہزار کی بوگس ووٹنگ ہوئی ہے پھر بھی ستر ہزار ووٹ تو ٹھیک تھے جو دونوں شکست خوردہ امیدواروں کے مجموعی ووٹوں سے زیادہ ہے یہ اچھی بات ہوئی کہ جناب راشد نسیم صاحب نے اسی دن کنور نوید جمیل کو فون کر کے ا لیکشن جیتنے کی مبارک باد دی ۔بہر حال مایوسی کی کوئی بات نہیں ہے ایک کارکن کا کہنا تھا کہ اگلی مرتبہ یہ ووٹ بڑھ جائے گا ۔آخر میں ایک تاریخی واقعہ کہ عید کادن ہے بادشاہ نے پوری قوم کو جمع کر کے کہا کہ آج عید کا دن ہے جیل میں ایک ڈاکو برابا اور وقت کا نبی بند آپ بتائیں کہ کس کو پھانسی دی جائے اور کس کو رہا کردیا جائے پوری قوم نے بالاتفاق کہا کہ ڈاکو برابا کو رہا کردیا جائے اور وقت کے نبی حضرت عیسیٰ کو سولی پر لٹکا دیا جائے تاریخ نے یہ فیصلہ دیا کہ حضرت عیسیٰ کامیاب ہوئے اور قوم ناکام ہو گئی ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 39839 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.