ووٹ تو بھائی ہی کا ہے

میرے ایک بھانجا حفیظ کراچی میں رہتا ہے اور کراچی میں رہنے کی وجہ سے ہم سب اسے حفیظ بھائی کہتے ہیں کہ کراچی میں رہنے والا یا تو خود بھائی ہے یا پھر بھائی کا ہے۔سرکاری محکمے میں نوکری کی وجہ سے انتخابات کے دوران حفیظ انتخابی عملے میں شامل ہوتا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم انتخابی عملے کا بہت خیال رکھتی ہے اور بہت احترام بھی۔عملے کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں دی جاتی۔حتیٰ کہ ایم کیو ایم کے علاقوں میں پولنگ کی نگرانی بھی ایم کیو ایم کے رضاکار کرتے ہیں اور انتخابی عملہ یا تو موبائیل پہ سانپ والی گیم کھیلتا ہے یا پھر ٹی وی پہ ترکی ڈراموں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ایم کیو ایم کے مخالف تو یہ بھی کہتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے عوام کے شناختی کارڈ لے لئے جاتے ہیں اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ووٹ تو بھائی ہی کا ہے ناں ہم ڈال دیں گے آپ تکلیف کیوں اٹھائیں۔جو پارٹی اپنے ووٹروں کا اتنا خیال کرے ووٹر غریب اس پہ جان نہ دے تو کیا کرے۔تائثر یہ بھی ہے کہ ووٹروں کو جان یا ووٹ میں سے ایک آپشن دیا جاتا ہے اور لوگ اپنا من پسند آپشن استعمال کرتے ہیں۔

اب کی بار لیکن حالات مختلف تھے۔پولنگ بوتھ کے اندر بھی رینجرز کے جوان تھے اور باہر بھی۔کسی کو نہ تو شناختی کارڈ چھیننے کی اجازت تھی اور نہ ٹھپے لگانے کی۔انتخابی عملہ بھی مستعد اور سرگرم تھا اور جو زیادہ سرگرم تھا اسے گرفتار کر لیا گیا۔اس کے باوجود حیدر آباد سے لائے گئے بھائی کے ایک نمائندے کنورنوید جمیل نے پچانوے ہزار ووٹ حاصل کئے۔خوف سے چھٹکارا دلانے والی تحریک انصاف کوبیس ہزار سے بھی کم ووٹ پڑے اور انتہائی منظم اور گہری جڑیں رکھنے والی جماعت اسلامی کی تو عزت ہی داؤ پہ لگ گئی اور انہیں فقظ پانچ ہزار ووٹ ملے
یعنی میرے حصے میں تیری دید کی حسرت آئی

ہارنے والی دونوں پارٹیاں اگر متحد بھی ہو جاتیں تو بھی ان کے لئے متحدہ کو شکست دینا ممکن نہ تھا۔کراچی کی سیاست کے لئے ان کا اتحاد نہ ہونا بھی رحمت ہی ثابت ہوا کہ اب شک نکل گیا اور یہ طے ہوا کہ مستقبل میں سیاسی میدان میں متحدہ کے مقابل کون کھڑا ہو گا۔اس الیکشن سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جس سیاسی پارٹی کو اپنے ورکرز کے مفادات کا خیال ہو،کارکن جس پہ اعتبار کرتے ہوں اسے چت کرنا آسانی سے ممکن نہیں ہوتا۔

کچھ دن پہلے جب متحدہ پہ کچھ سخت مقام آئے تو انہی کالموں میں متحدہ اور الطاف بھائی کو ہم نے ایک مفت مشورہ ارزانی کیا تھا کہ متحدہ کی بقاء اسی میں ہے کہ متحدہ تشدد کا راستہ ترک کرے۔اپنے ٹارگٹ کلر ز سے براٗت کا اظہار کرے۔بوریوں کے کارخانے بند کریں۔خدمت کا راستہ اپنائے۔لسانیت سے لا تعلقی کا صرف اعلان نہ کرے بلکہ عملی طور پر اس کا ثبوت بھی دے۔ورنہ متحدہ کو مستقبل میں نئی ٹوٹ پھوٹ کے لئے تیار رہنا چاہئیے۔کراچی جیسے پڑھے لکھے شہر میں متحدہ کے ہتھیار اٹھانے کی میرے نزدیک مختلف وجوہات ہیں۔تشدد کبھی بھی پسندیدہ فعل نہیں رہا لیکن بلی کو بھی دیوار سے لگا دیا جائے تو وہ آنکھوں پہ حملہ آور ہوتی ہے۔میں تشدد کی سیاست کے لئے صرف متحدہ ہی کو قصور وار نہیں مانتا بلکہ اس میں کچھ قصور ہم انصار کا بھی ہے۔

کراچی میں متحدہ نے جب تشدد کی سیاست میں راہ پا لی تو پھر وہ ایک مظلوم سیاسی پارٹی سے ظالم مافیا کی شکل اختیار کر لی۔پھر اس کے کھالیں چھیننے اور بھتے لینے کی ریت شروع ہوئی۔ بہت مدت تک کراچی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے بھی ادارے ان کے سامنے بے بس نظر آنے لگے۔کہتے ہیں کہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔متحدہ کی دیکھا دیکھی متحدہ جیسا ہی سفاک اور ظالم مافیا متحدہ سے مقابلے کے لئے میدان میں اترا اور اس کی آمدنی میں حصہ دار بن گیا۔میں اگر جانبدار نہ سمجھا جاؤں تو عرض کروں کہ طالبان کے خلاف بھائی کا واویلا پاکستان اور اس کے عوام کی محبت میں نہ تھا بلکہ اس لئے کہ بھائی کی قاتل فوج کے مقابلے میں ایک انتہائی سفاک فوج اتر آئی تھی۔

قصہ کوتاہ یہ کہ طالبان تو اب فوج کی داڑھ کے نیچے ہیں لیکن بھائی بھی سمجھ لیں کہ ان سے بڑھ کے منظم لوگوں کا نام ونشان مٹ سکتا ہے تو بھائی کے لئے اب ان کے پرانے طرز سیاست کو جاری رکھنا مشکل ہوگا۔بات شاید اب بہتری کی طرف رواں دواں ہے ۔کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ نائن زیرو سے پکڑنے جانے والے ٹارگٹ کلر ز خود بلوا کے پکڑائے گئے ہیں۔متحدہ تشدد چھوڑ کے امن کا راستہ اپنائے لیکن اس کے ساتھ میری پاکستان کے مقتدر حلقوں سے بھی گذارش ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو ریاستی ہتھکنڈوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ متحدہ کے وہ لوگ جو امن کے ساتھ قومی دھارے میں آنے کو تیار ہیں ان کے آگے روکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں بلکہ انہیں بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح کھل کر سیاست کرنے کا موقع دیا جائے۔

کنور نوید جمیل کے پچانوے ہزار ووٹ بھائی کی سیاست پہ عوام کے اعتبار کی مظہر ہے۔بھائی اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن بھائی کی سیاست شاید اگلی ایک صدی تک ختم نہ کی جا سکے۔ہم نے بھٹو کو پھانسی لگا دیا تھا لیکن بھٹو آج بھی زندہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ آخری پاکستانی کے خاتمے تک زندہ رہے گا۔بھائی ! یہ فیصلے کا وقت ہے۔آپ نے منفی سیاست بہت کر لی آئیے اب مثبت سیاست کی طرف تا کہ تاریخ آپ کو متوسط طبقے کے ایک بہترین قائد کی حیثیت سے یاد کیا جائے
 

 

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268021 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More