ہمارے سیاستدان اور سہ روزہ ’’رسم پابندی‘‘

چین کے صدر کا پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سن رہاتھا اور سوچ رہا تھا کہ کیسا صدر ہے شاید اسے انگریزی نہیں آتی اسی لئے چینی زبان میں تقریر کررہا ہے۔ ویسے کتنے شرم کی بات ہے کہ اتنے بڑے اور ترقی یافتہ ملک کا صدر اوران پڑھ اور اوپر سے اپنی زبان بولتے ہوئے اسے کوئی احساس کمتری بھی نہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ ترقی کس طرح کر رہے ہیں؟ ہمیں تو یہی بتایا گیا ہے کہ انگریزی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ اور جو انگریزی سے نابلد ہوتے ہیں وہ جاہل ہوتے ہیں اور اس وقت میرا سر فخر سے بلند ہوگیا جب ہمارے وزیراعظم نے چینی صدر کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اپنی جیب سے ایک پرچہ نکالا اور فرفر اس پر لکھی ہوئی انگریزی پڑھنے لگے۔ اس وقت ہمیں یقین ہوگیا کہ پاکستان کو اب ترقی کی منزلیں طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ میرے ایک دوست میری اس ناگفتنی کو مذاق میں لیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ چین کے صدر کے لئے تو ایک انگریزی مترجم رکھنا پڑا جو تعلیم پر جی ڈی پی کا صرف 2.2فیصد بجٹ مختص کرنے والی قوم کو انگریزی میں ان کا خطاب پہنچا رہا تھا لیکن میاں صاحب نے تو مترجم کا خرچ بچا کر قومی خزانے کی بچت کا ریکارڈ بھی قائم کر دیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن کی مادری زبان انگریزی ہے کیا وہ قوم صرف اپنی زبان کی وجہ سے ترقی کرتی ہے یا پھر کوئی اور بھی وجوہات ہیں ان کی ترقی کرنے کی۔ ذرا سوچیں کہ پاکستان کا کوئی وزیراعظم اگر کسی ہسپتال کے دورے پر جاتا ہے اور آگے سے اسی ہسپتال کاکوئی ڈاکٹر اسے وارڈ سے نکلنے کے لئے کہتا ہے تو پھر کیا منظر ہوگا۔ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور ان کے نائب وزیراعظم نک کلیگ کو این ایچ ایس ریفارمز کے ایک فوٹو سیشن کے دوران ایک ہسپتال کے وارڈ سے ایک عام ڈاکٹر انہیں باہر نکل جانے کا کہتا ہے اور وہ دونوں ڈاکٹر کی بات سے نہ صرف اتفاق کرتے ہیں بلکہ اس وارڈ سے بھی باہر چلے جاتے ہیں اور وزیراعظم کا عملے اور سیکورٹی سٹاف کے سامنے یہ سب کچھ ہوتا ہے لیکن کسی بھی جانب سے اس ڈاکٹرکو یہ باور تک نہیں کروایا جاتا کہ وہ ملک کے وزیراعظم اور نائب وزیراعظم کو وارڈ سے باہر نکال رہا ہے۔ اس کے برعکس اگر یہی صورت حال پاکستان میں ہوتی اول تو کسی ڈاکٹر میں اتنی جرات نہیں تھی اور اگرکوئی غلطی سے جرات کر بھی لیتا تو وہ ساری زندگی اس جرأت کا خمیازہ بھگتتا۔ ترقی زبان کی نہیں بلکہ درست لیڈر شپ، مثبت سوچ، بصیرت، مثبت عمل، اعتماد، علم، انصاف پسندی، راست بازی، جانچ اور پرکھ، وفاداری، بے عرضی، ہمت و حوصلے، بھروسہ مندی، پہل کاری، قوت فیصلہ، برداشت، جوش ولولہ اور طرز عمل کی مرہون منت ہوتی ہے اور یہی کسی لیڈر شپ کے اوصاف ہیں۔ کسی بھی لیڈر کو جبلی طور پر ایشیاء کے افعال اور وقوع کے طریقہ کار سے واقف ہونا چاہئے۔ فرانسیسی لیڈر ڈیگال کا کہنا ہے کہ جبلت لیڈر کو کسی معاملے کی گہرائی میں اترنے کے قابل بناتی ہے۔ عظیم قیادت کو عظیم نصب العین کی ضرورت ہوتی ہے۔ درست فیصلہ کرنے کی قوت سے عاری اور نصب العین سے محروم کوئی شخص لیڈر نہیں بن سکتا۔ دنیا کے اکثر عظیم لیڈر جو فنِ خطابت کے بھی ماہر تھے وہ اس مقام تک بتدریج سیکھنے اور علم حاصل کرنے کے بعد پہنچے۔ سابق امریکی صدر نکسن اپنی کتاب ’’لیڈر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 1952کے ریپبلکن کنونشن میں پہلی مرتبہ میری ملاقات چرچل کے بیٹے رینڈولف سے ہوئی اور میں نے اسے بتایا کہ میں اس کے والد کی شاندار فی العبدیہ تقاریر سے کتنا متاثر ہوں۔ اس نے ہنس کر کہا کہ شاندار ہونی ہی چاہئیں تھیں۔ انہوں نے ان تقریروںکو لکھنے اور یاد کرنے پر اپنی عمر کا بہترین حصہ صرف کیا تھا۔کسی بھی ملک کی بہترین لیڈر شپ اسی ملک کی خوشحالی، اچھے مستقبل اور کامیابی و ترقی کی ضمانت قرار دی جاسکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں موجود ہیں۔ برطانیہ میں کسی بھی شخص کو کسی شہر کا لارڈ میئر بننے سے پہلے ایک سال تک اس کی تربیت کی جاتی ہے اور اسے ڈپٹی لارڈ میئر کے عہدے پر فائز کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی تربیت کا ایک نظام نیچے سے اوپر تک موجود ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے ہی کسی تربیتی نظام کی ضرورت ہے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو کم از کم ایسی رسم کا آغاز تو ہوسکتا ہے جو کہ ایشیا کے ایک جزیرے پر رائج ہے۔تین ممالک انڈونیشیا، ملائیشیا اور برونائی کی عملداری پر مشتمل ایشیا کے سب سے بڑے جزیرے بورینو کے شمال مشرقی حصے میں رہنےو الے تیدونگ قبائل میں شادی کی ایک ایسی رسم پائی جاتی ہے کہ جس پر یقین کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ یہ قبائل گھنے جنگلات میں بسے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں رہتے ہیں اور گزر اوقات کے لئے اپنے قدیم اور روایتی طریقوں کے مطابق کاشتکاری کرتے ہیں۔ یوں تو ان کی اکثر رسوم ہی جدید دنیا سے بہت مختلف ہیں لیکن شادی کے فوراً بعد دولہا دلہن پر بیت الخلاء کا استعمال تین دن کے لئے مکمل طور پر ممنوع قراردینا ایک ایسی رسم ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ شادی کی رسومات مکمل ہوتے ہی گھر میں موجود بیت الخلاء پر پہرہ بٹھا دیا جاتا ہے اور اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ نیا جوڑا رفع حاجت کے لئے کہیں باہر بھی نہ جاسکے۔ تین دنوں کے دوران دولہا دلہن کو نہایت قلیل مقدار میں کھانا پانی دیا جاتا ہے تاکہ وہ اس صبر آزما چیلنج کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔ چوتھے دن کا آغاز ہونے پر مصیبت کے مارے جوڑے کو درد ناک صورت حال سے نجات پانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ مقامی لوگ اس رسم کو نئے جوڑے کے مستقبل کے لئے خوش قسمتی، خوشحالی اورکامیابی کی ضمانت قرار دیتے ہیں۔ سیاستدانوں کے لئے اقتدار ایک شادی کی حیثیت ہی تو رکھتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ملک میں اس اقتدار کے بندھن میں بندھنے پر سیاستدانوں کو ایک ایسا ہی تین روزہ کورس کروایا جائے تاکہ وہ بھی آنے والے چیلنجوں سے باآسانی نبٹ سکیں، ویسے بھی کرپشن، اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ، کک بیکس ہمارے ہاں اب تو ایک حاجت ہی بن چکی ہے اور اس حاجت کورفع کرنےپر تین روز کی پابندی ایک ریفرشر کورس کے طور پر ہی لگا دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ شاید یہ ہمارے ملک کے لئے بہتر مستقبل، خوشحالی اور کامیابی کی ضمانت بن سکے۔
shafqat nazir
About the Author: shafqat nazir Read More Articles by shafqat nazir: 33 Articles with 29508 views Correspondent · Daily Jang London, United Kingdom.. View More