سیاست یا عداوت

پاکستان کو9/11کے بعدسے مسلسل دہشت گردی کاسامنا ہے ،مادروطن میں ان گنت بارخودکش حملے اوربم دھماکے ہوئے۔دہشت گردی کے اندوہناک واقعات اورمختلف سانحات کے نتیجہ میں جہاں ہمارے سینکڑوں سرفروش سکیورٹی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا وہاں معصوم بچوں اورخواتین سمیت ہزاروں بیگناہ شہری بھی شہید ہوئے مگراس کے باوجودہمارا حکمران اورسیاستدان طبقہ رنجیدہ اورسنجیدہ نہیں ہے۔بے یقینی اوربے چینی کاسورج سوانیزے پر ہے،لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں''اب کیا ہوگا' ' ۔بدانتظامی ریاست اورمعیشت کیلئے بدعنوانی سے زیادہ زہریلی ہے۔پاکستان اورپاکستانیوں کے گہرے زخم پرمرہم رکھنے کیلئے خالی دعا کافی نہیں دوابھی ناگزیر ہے۔پاکستان کی سیاست کس وقت کیا رخ اختیار کرلے اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہاجاسکتا۔پچھلے دنوں کہا گیا پاکستان کویوٹرن والی قیادت نہیں چاہئے توکیا پرویزی آمریت کامقابلہ کرنے کی بجائے جان بچانے کیلئے معاہدہ کرنے اور ملک سے فرارہونے والی قیادت ہماری نجات دہندہ بنے گی۔تھرمیں خوراک سے زیادہ مخلص اورمدبر سیاسی قیادت کاقحط ہماری ریاست کیلئے زہرقاتل ہے۔

سانحہ پشاور کے بعد قومی ایکشن پلان تو بنامگرتاحال اس کاکوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمدنہیں ہوا کیونکہ حکومت کی ترجیحات اورطرزسیاست میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہمار ے ہاں مفاہمت کی آڑمیں منافقت جبکہ سیاست کے نام پرعداوت کوفروغ دیاجارہا ہے ۔سیاستدانوں کے ظاہروباطن میں بڑے پیمانے پرتضادات پائے جاتے ہیں اوران تضادات کانتیجہ فسادات کی صورت میں نکلتا ہے۔ایک دوسرے کے گندے کپڑے چوراہے میں بیٹھ کردھونا سیاستدانوں کی عادت ہے اور پھربھی یہ لوگ عوام سے عزت کی امید رکھتے ہیں۔بیچارے عوام کو ووٹ کی پرچی پرمہرلگانے میں محض ایک سیکنڈلگتا ہے جبکہ منتخب نمائندے مسلسل پانچ برس کیلئے سیاہ وسفید کے مالک ومختار بن جاتے ہیں،پاکستان کاسیاسی نظام انتقام کی علامت ہے جس کانشانہ عام لوگ بن رہے ہیں، اس متنازعہ نظام کی تبدیلی تک عام آدمی کی زندگی میں خوشی اورخوشحالی نہیں آئے گی ۔ایک دوسرے سے حسدکرنااوردل میں بغض رکھنا ہمارے سیاستدانوں کی فطرت ہے تاہم سابق گورنرپنجاب چودھری سرورسمیت مٹھی بھر نیک نیت لوگ ابھی باقی ہیں لہٰذاء ریاست اورسیاست سے پوری طرح مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔چودھری سرور نے مادروطن کی محبت میں دوہری شہریت چھوڑی اورپھر اقدارکیلئے اقتدارچھوڑا ۔ایک تقریب میں چودھری سرورکی گفتگوسننے کااتفاق ہوا ،برطانیہ میں زندگی کی کئی دہائیاں گزارنے اورسات سمندرپارسیاست میں اعلیٰ مقام بنانے کے باوجودپاکستان کی سیاست ،سیاسی خاندانوں اورسیاسی جوڑتوڑ کے سلسلہ میں ان کی معلومات پرمجھے خوشگوارحیرت ہوئی۔پاکستان میں چودھری سرور کی طرح کے اجلے اورسلجھے سیاستدانوں کادم غنیمت ہے۔

پاکستان کے لوگ برطانیہ سمیت دنیا میں جہاں بھی ہوں وہ اپناراستہ ہموارکرنے سے زیادہ دوسروں کاراستہ روکنے اورانہیں گرانے کیلئے محنت کرتے ہیں۔عمران خان کی سیاسی کامیابیوں میں ان سے زیادہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اوروزراء کاہاتھ ہے ۔پرانے بلکہ پاٹے پرانے سیاستدانوں کی عمران خان کیلئے ضرورت سے زیادہ نفرت اورحسد نے انہیں میدان سیاست کاکپتان بنادیا۔مسلم لیگ (ن)،پیپلزپارٹی ،اے این پی ،متحدہ قومی موومنٹ اورجے یوآئی اپنے اپنے متضادسیاسی نظریات اورمفادات کے باوجود عمران خان کیخلاف ایک پیج پر ہیں لہٰذاء ماضی کے ان دشمنوں کودوست بنانے کاکریڈٹ عمران خان کوجاتا ہے ۔ میاں نوازشریف کے نادان دوست یوں توکئی ہیں مگرپرویز رشید ان میں سے نمایاں ہیں،عمران خان کومیاں نوازشریف کے مدمقابل کھڑاکرنے میں موصوف کی شبانہ روز خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اِدھر میاں نوازشریف کی حکومت سنبھلنے لگتی ہے تواُدھر خواجہ آصف اور پرویزرشید اپنے مخصوص اندازمیں اس شاخ پرکلہاڑی سے زوردار وارکرتے ہیں جس پران کااپناآشیانہ ہے۔ پچھلے دنوں خواجہ آصف کاپارلیمنٹ میں اشتعال انگیز خطاب حکومت کیلئے خاصی ہزیمت کاسبب بنا۔پارلیمنٹ کاجوائنٹ سیشن یمن کی صورتحال پربحث اورکوئی راہ حل تلاش کرنے کیلئے بلایا گیا تھا جس میں پاکستان تحریک انصاف بھی شریک تھی جہاں خواجہ آصف نے یمن کی بجائے اپنی توپوں کارخ پی ٹی آئی کی طرف موڑدیاجس سے پارلیمنٹ کے ماحول میں تلخی پیداہوگئی ۔پارلیمنٹ کوئی پارٹی آفس نہیں بلکہ ایک قومی اور آئینی ادارہ ہے لہٰذاء اس میں ذاتیات پرخودکش حملے کرنااورایک دوسرے پرکیچڑاچھالنامناسب نہیں۔سلگتے قومی مسائل کوچھوڑکربلیم گیم میں قیمتی وقت اورقومی وسائل کاضیاع ناقابل برداشت ہے ۔خواجہ آصف کی متنازعہ تقریر کے دوران میاں نوازشریف کی خاموشی سے اتحادی ارکان کو بھی ترغیب ملی اورایوان میں موچی گیٹ کاماحول بن گیا۔دوسری پارلیمانی پارٹیوں کی طرح پی ٹی آئی کے منتخب ارکان بھی پارلیمنٹ کاحصہ ہیں انہیں اجنبی کہنا اوران پرطعنہ زنی کرنا جائز نہیں تھا۔پی ٹی آئی کے عمرڈار نے لاہورپریس کلب میں ہونیوالی ایک پریس کانفرنس میں این اے 110سیالکوٹ کے حوالے سے خواجہ آصف پردھاندلی بارے چارج شیٹ لگاتے ہوئے کہا تھاجوشخص عدالت میں آکر اپنادفاع نہیں کرسکتا وہ پاکستان کادفاع کیا خاک کرے گا۔عمرڈار کے بقول اگروزرات دفاع کوکسی ناکامی کاسامنا کرناپڑے توخواجہ آصف فوراً وفاقی وزیرپانی وبجلی بن جاتے ہیں اورجس وقت بجلی بحران پرگرماگرمی ہوتوموصوف وزارت دفاع کے پیچھے چھپ جاتے ہیں،انہیں دوکی بجائے کوئی ایک وزارت دی جائے جس پروہ فوکس کریں اورانہیں عذرتلاش کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔این اے110میں بڑے پیمانے پردھاندلی ہونے کی اطلاعات زیرگردش ہیں۔اس حلقہ سے پی ٹی آئی کے امیدوارعثمان ڈار کامیابی کے دعو یدار ہیں اورانہوں نے انصاف کیلئے عدالت کادرواہ کھٹکھٹایاہوا ہے۔دھرنے کے نتیجہ میں جوڈیشل کمشن کا قیام بلاشبہ پی ٹی آئی کی بہت بڑی سیاسی کامیابی ہے ۔انصاف کی امید درحقیقت انصاف پراعتمادہے،آئین وقانون کی حکمرانی کاخواب انصاف کی فراوانی سے شرمندہ تعبیر ہوگا ۔

ہمارے اداروں میں بھی سیاست پائی جاتی ہے،ان اداروں میں بھی جہاں سیاست کی اجازت نہیں،اس سیاست نے قومی کرکٹ ٹیم کابھی شیرازہ بکھیردیا۔پاکستان میں وہ شخصیات بھی سیاست کرتی ہیں جوآئین کی روسے اس کاحق نہیں رکھتیں۔منصف متعصب ہوتووہ انصاف نہیں کرسکتا۔سابق چیف جسٹس (ر)افتخارچودھری کواس وقت بھی سیاست اورشہرت کاشوق تھا جس وقت بحیثیت منصف غیرجانبداری اوران کیلئے آئین کی پاسداری ناگزیر تھی ،موصوف نے ایک شراب کی بوتل پربھی سوموٹوایکشن لے لیاکیونکہ اس وقت بھی انہیں اخبارات کی زینت بنناپسندتھا۔جس طرح دولت اورطاقت کے نشے میں انسان حیوان بن جاتا ہے اس طرح شہرت کی بھوک بھی اس وقت تک نہیں مٹتی جس وقت تک انسان مٹی میں نہیں مل جاتا۔ان دنوں بھی افتخارچودھری میڈیامیں اِن ہیں ،موصوف نے قومی اسمبلی کے سپیکر سردارایازصادق کوایک مکتوب بھجوایا ہے جس میں وہ ایک طرح سے سپیکرکوڈکٹیشن دے رہے ہیں۔موصوف پی ٹی آئی کے استعفے منظور نہ ہونے پرکافی رنجیدہ اورمضطرب ہیں ۔افتخارچودھری کے بقول پی ٹی آئی کے ارکان اب آئینی طورپرمنتخب ممبرنہیں رہے اوران کے استعفوں کومنظورتصورکیا جائے ۔ افتخارچودھری کی عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ عداوت کسی سے پوشیدہ نہیں ،ان کے حالیہ مکتوب سے تعصب ،بغض اورحسد کی بوآرہی ہے ۔جومشورہ بغیرمانگے دیاجائے اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ،افتخارچودھری سے کسی نے مشورہ نہیں مانگامگرجس طرح ان کے مکتوب کومخصوص اخبارات میں غیرمعمولی کوریج دی گئی اس سے لگتا ہے اس مکتوب کے ماسٹرمائنڈ کسی وفاقی وزارت پربراجمان ہے ۔افتخارچودھری اور ظفرعلی شاہ کویہ بات کون سمجھائے کہ پی ٹی آئی کے اجتماعی استعفوں کی منظوری حکومت کی صحت کیلئے مفید نہیں تھی ۔استعفوں کی منظوری سے پارلیمنٹ ادھوری بلکہ مزیدلولی لنگڑی ہوجاتی اور11مئی 2013ء کے انتخابات کی ساکھ پوری طرح راکھ کاڈھیر بن جاتی جبکہ حکومت کی اخلاقی پوزیشن کاجنازہ اٹھ جاتا ۔پی ٹی آئی کیلئے واپسی کادروازہ بندہونے سے ا ن کی احتجاجی تحریک میں مزید شدت آجاتی ۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں دھڑکتا اورنہ سیاستدان ایک دوسرے پراحسان کرتے ہیں ان کے درمیان صرف ڈیل اورڈھیل ہوتی ہے ۔حکمران جماعت نے اپنے مفادات کیلئے پی ٹی آئی کے استعفوں کامعاملہ لٹکایااورپی ٹی آئی کوبار بار پارلیمنٹ میں واپس آنے جبکہ انتخابی اصلاحات کیلئے اپنافعال کرداراداکرنے کیلئے کہاگیا ۔عمران خان کاکہنا تھاان کی پارلیمنٹ میں واپسی کاراستہ جوڈیشل کمشن کے قیام سے ہوکرجاتا ہے ۔حکومت نے جوڈیشل کمشن بنادیا اورپی ٹی آئی پارلیمنٹ میں واپس آگئی مگر اس پرپارلیمنٹ کے اندراورباہر کچھ عناصر کے پیٹ میں مروڑاٹھ رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری کاوقت گزرگیاہے ،اب اس موضوع پر بحث کرنے کاکوئی آئینی اوراخلاقی جواز نہیں بنتا۔ پی ٹی آئی ارکان کی پارلیمنٹ میں باضابطہ آمد جبکہ پارلیمنٹ کی کاروائی کے دوران یمن میں ہونیوالی بغاوت کے تناظرمیں متفقہ قرارداد بارے اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعداستعفوں کاباب بندہوگیا۔ متحدہ کی تحریک کی کوئی اخلاقی اورآئینی حیثیت نہیں ۔سپیکر کوجس وقت پی ٹی آئی ارکان کے استعفے موصول ہوئے تھے اورپی ٹی آئی کی قیادت ان کی منظوری پربضد تھی تواس وقت منظورکیوں نہیں کئے گئے ۔پاکستان میں نظریہ ضرورت کے تحت آئین کوموم کی ناک بنالیا جاتا ہے اورسیاستدان اپنے اپنے مطلب کے مطابق آئین کی تشریح کرتے ہیں لیکن اب عوام کومزید بیوقوف نہیں بنایاجاسکتا ۔زرداری حکومت میں 7700برطرف اہلکاروں کوکئی برس بعدمراعات سمیت بحال کیا گیامگر کسی عدالت نے نوٹس لیا اورنہ اس وقت کی اپوزیشن پارٹیوں نے اس پراسمبلیوں کے اندریاباہرکوئی احتجاج کیا ۔پی ٹی آئی کی پارلیمنٹ میں واپسی کیلئے سو جتن اورباضابطہ مذاکرات کئے گئے۔ اب جبکہ جوڈیشل کمشن بن گیا ہے اورپی ٹی آئی بھی پارلیمنٹ میں واپس آگئی ہے لہٰذاء اب استعفوں پرسیاست اورپوائنٹ سکورنگ کا کوئی جوازنہیں رہ جاتا۔ پی ٹی آئی دھرناچھوڑکرقومی دھارے کی سیاست اوراسمبلیوں میں واپس آئی ہے ،اس جماعت کو دوبارہ دیوار سے لگانے اورشاہراہوں پرآنے کیلئے مجبورکرنے کی سازش ملک وقوم اورنام نہادجمہوریت کے مفادمیں نہیں،کمزورجمہوریت اس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔اگرپارلیمنٹ کے اندر بیٹھی پی ٹی آئی کوباہرنکال دیا گیا تویہ حکومت کیلئے زیادہ خطرناک ہوگی ۔پی ٹی آئی ایک قومی سیاسی جماعت ہے اس کے ساتھ سیاسی اندازاختیار کیا جائے ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126500 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.